اللہ تعالیٰ نے ارضِ کشمیر کو مایہ ناز اولیا ئے کرام اوربزرگان دین سے بے حد وحساب نواز ا ۔ انہی قدسیوں میں جلیل القدر ولی ٔکامل شیخ العالم شیخ نور الدین نورانی کا نام نامی فروزاں ہیں۔آپؒ قرآن کریم کے کشمیری شارح اور ترجمانِ سنت نبویؐ تھے ۔آپؒ نے حب ِالہٰی، عشق نبی ؐ، نفس کشی ، عبادت و ریاضت ، انسانیت کی بے لوث خدمت ، انکساری و ندامت کی شاہراہ پر ولایت کا وہ درجہ حاصل کیا اور اتنے ہر دلعزیز ہوئے کہ آپؒ علمدار کشمیر کہلائے۔ روایت ہے کہ شیخ العالم ؒکے آباء و اجداد کشتواڑ سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس خاندان کا ایک صاحب کشتوار سے ہجرت کرکے کشمیر آیا تھا اور اپنی زندگی روپہ وَن میں گزاری ۔ کہاجاتا ہے اس خانوادے کے ایک ممتاز شخص شیخ سالار کا نکاح کیموہ کی ایک خو ش حصال بیٹی ( صدرہ موج )کے ساتھ ہوا ،جن کے بطن سے 779ہجری میںشیخ نور الدین ؒ کا جنم ہوا۔ یہ بلند اقبال بچہ رب العزت کی عبادات میں ہمہ وقت مشغول رہتا تھا۔رب کائنات کی قربت حاصل کر کے اسے بہت جلد باطنی رموز واسرا ر بھی عطا ہوئے ۔آپ ؒبے ثبات دنیا کے لہوو لہب سے دور ہمیشہ خدا سے لو لگائے بیٹھے رہتے۔ عبادت گزاری اور پاک نفسی سے آپؒ کے اندر حرص و ہوا کافور ہوئی۔ حضرت شیخ نے دنیا وی آرائشوں کو خیرباد کہہ کر بارہ سال تک غاروں میں تنہائی و خلوت نشینی کی زندگی بھی گزاری جہاں ہمہ وقت یادِ خد میں مشغول رہے۔داوود مشکواتی ؒ کے بقول آپ ؒ نے حضرت میر محمد ہمدانیؒ کے دست ِحق پرست پر بیعت کی اور سلسلہ ٔ کبرویہ تعلیم وتزکیہ سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت میر ہمدانیؒ نے انہیں خط ِارشادسپرد فرمایا جو پوستِ آہو ( ہرن کی کھال) پر تحریر شدہ خانقاہ معلی سری نگر میں بطور زیارت محفوظ ہے۔ نند ریشی یعنی حضرت شیخ نور الدین نورانیؒنے اپنی ساری زندگی دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں صرف کردی اور بندگانِ خدا کو اپنی روحانی عظمتوں سے مستفیض کر نے میں کامیاب کاوشیں کیں۔ شہر ودیہات جا جاکر عوام میں ذکر اللہ کا چرچا عام کیا، لوگوں کو اللہ کے کلام اور پیارے رسولؐ کی سیرت پاک سے جوڑنے کا کام مستحکم بنیادوں پر سرانجام دیا ۔شیخ العالم ؒکی صحبت صالح میں رہ کر لاتعداد لوگ اسلام کے نور سے سرفراز ہوئے ۔ با با نصرالدین ؒ، بابا بام الدینؒ ،بابا لطیف الدینؒ آپ ؒ کے خلیفہ ٔ خاص تھے۔ روایت ہے کہ طبقہ ٔ اُناث سے کچھ روحانی ہستیاںجن میں سنگ بی بی ،وتہ بی بی ،وہَت بی بی وغیرہ مشہور ہیں ،آپ ؒ کی فیض رسانی اورنگاہِ کرم کے طفیل میدان ِ روحانیت میں نامدار ہوئیں۔ حضرت شیخؒ نے اپنے کلام بلاغت نظام کے ذریعے قرانی تعلیمات اور پیغامِ دین کو کشمیری زبان میں عوام کے سامنے عام فہم اور سلیس انداز میں پیش کر نے کابے مثال کارنامہ بھی انجام دیا ۔آپؒ کا کلام توحید ر اورمعرفت کا بیش بہانہ خزانہ ہے اور فلسفہ،حکمت اور وعظ و نصیحت کا ایک انمول نمونہ بھی ۔ آپؒ کی پندو نصائح ہمارے لئے دنیوی اور اُخروی زندگی کی بہتر ی کے لئے مشعل راہ ہیں۔آپ ؒ نے اپنی ساری پاک زندگی فقیری، انسانی ہمدردی ،مذہبی روا داری ، سماجی برابری اور مخلوق کی خیرخواہی میںصرف کرکے لوگوں کو جاہ و حشمت سے دور رہنے،نفس پر لگام دینے،شہوتوں پر قابو پانے،ناجائز امور سے باز رہنے،سرکشی ، نافرمانی اور گناہ گاری سے بچنے کا درس دیا۔ رویات میں آیا ہے کہ حضرت شیخ العالم ؒ کا انتقال سلطان زین العابدین (بڈشاہ)کے عہد حکومت میں ہوا ۔آپؒ کی نماز جنازہ 842ہجری میں آپ ؒکے خلیفہ ٔ خاص حضرت بابا نصیر الدین ؒ نے پڑھائی ۔آپؒ کے جنازے میں بے شمار لوگوں کے علاوہ کشمیر کے بڑے بڑے عالموں ،مشائخ اور مشاہیر زمانہ کے بشمول سلطان زین العابدین شرکت کی ۔چرار شریف میں آپ ؒ کا مرقد اور آخری آرام گاہ موجود ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کوتوفیق دے کہ ہم اپنی زندگیاں حضرت شیخ العالم ؒ کے بتائے ہوئے اصولوں اور دکھائے ہوئے راستے پر کاربند رہیںتاکہ ہماری دنیا وآخرت صالح اور پُر سکون بنیں۔آمین
آثار شریف پنجورہ، شوپیان