لوجی من موجی سرینگر کے باشندو !اب کی بار موج منائو بلکہ ڈول تاشے نقارے بجائو کہ شہر سرینگر میں فارئین تعلیم سے آراستہ جنرل ڈائر کا ایلچی میونسپلٹی میئر سج سنور کے پدھار رہا ہے ! یہ ا علان کوئی ایر ا غیرا نتھو نہیں کر گیا بلکہ خود گورنر کشمیر نے کیا ؎
چلئے صاحب ہم نے سن لی آ پ کی تقریر بھی
اور اخباروں میں پڑھ لی آ پ کی تحریر بھی
مخمصے میں تھے کہ کون بن جائے گا اپنا مئیر
آپ نے کھول دی اس راز سے زنجیر بھی
ایسے میں فرض بنتا ہے کہ گلی گلی، سڑک سڑک سجا ڈالو اور ہو سکے تو دریائی جلوس کی تیاری بھی کر ہی دو ۔یا تو مسلسل محو رقصاں رہو کہ ما بدولت ، افرا سیابِ دوران، سربراہ شہر خموشان ،داد رسانِ عرضیاں وار دسرینگر ہونے والے ہیں۔ اب کی بار اصل اعلان جب بھی ہوگا لیکن ناچو گائو کہ اب اپنے شہر میں سب کچھ فارئین ہوگا کیونکہ نئے سٹی فادر کے تار رودبار انگلستان سے جڑ ے ہیں۔ مطلب اب اپنے یہاں تعلیم تو ہوگی ہی سڑک سڑک ، گلی گلی کوچہ کوچہ فارئین ہوگا ۔شہر میں جو کتے گھومتے لوگوں کو کاٹتے ہیں ،وہ بھی فارئین ہوں گے۔ ان کے دئے زخم بھی فارئین ہوں گے اور اس پر دوا مرہم بھی فارئین ہوگا ۔شہر سے غلاظت بھی فارئین ہی اُٹھے گی اور اس سے بدبو بھی فاریئن ہی اُٹھے گی۔اور کسے نہیں معلوم کہ اپنے یہاں فارئین بد بو بھی خوشبو ہی محسوس ہوتی ہے۔اس قدر اچھی کہ ہم اسے سونگھنے نزدیک جاتے ہیں ۔
کسے نہیں معلوم یہ فارن بندہ کبھی ہل والوں کو رندا دیتا تھا اور کبھی پیپلز کا باشندہ تھا ۔ مطلب کبھی شیر کا اسیر تھا اور کبھی ہل کا دلگیر تھا ۔پر کیا کریں خود پیپلز اور ہل برداروں نے بھی اہل کشمیر کا وفا نہیں کیا تو ان سے کوئی فارئین بندہ کیسے ترک تعلق نہ کرے ؟وہ بھی اس وقت کہ خود ہل والے حیران و پریشان کہ میدان بلدیہ میں زور آزمائی کریں اور دیہات سدھار عمل میں کہاں پدھاریں؟ اس ادھیڑ بن میں ملک کشمیر میں ایک طرف بلدیہ الیکشن کی حالت دفعہ ۳۷۰ جیسی ہوگئی ہے، دوسری طرف اس کے جسم سے سڑا گوشت نوچنے والے بھی منہ اندھیرے پہنچ ہی گئے کہ ابھی لوگ محو خواب ہیں ہم اڑا کر لے جائیں ؎
واہ بی میونسپلٹی جان کیا کہنا ترا
تو چچی لیلیٰ کی عاشق تیرا مجنون کا چچا
اپنی خود داری کو کھو کر تجھ پہ جو شیدا ہوا
بے خودی میں یہ زبان حال سے کہتے سنا
بس کہ دیوانہ شدم عقل رسا درکار نیست
عاشق میونسپلٹی را حیا درکار نیست
بات فارئین کی چل رہی تھی، ویسے بھی آجکل بھارت ورش میں فارئین کا سکہ ہی چلتا ہے ۔اسی لئے تو فارئین قانون کی نقل کرکے ایسے ایسے نئے حکم نامے جاری ہوئے ، کبھی اجتماعی ضمیر کی تشفی کے لئے کسی کو سوئے دار چڑھانے کا فرمان جاری ہوا، اور اب کی بار اجتماعی ضمیر کی تشفی کے لئے ہم جنس پرستی کو صحیح ماننے کا فرمان شاہی صدار ہوا ، یعنی پہلے جو کسی کو گالی دیتے تھے وہ اب محبت کا اظہار ہے۔پھر یہ بھی کوئی شادی شدہ خاتون اپنے شوہر کی ذاتی ملکیت نہیں کہ وہ کہاں جائے اور کس کے ساتھ جائے ،پوچھ تاچھ ،تفتیش تحقیق ممکن نہیں۔لگے ہاتھوں آدھار کارڈ کو بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔پھر ہم بھی حالیہ چار فیصلوں کو ایک سطر میں لکھنے لگے تو "آپ سابرملائی مندر کسی پڑوسی عورت کے ساتھ بنا آدھار کارڈ دکھائے جا سکتے ہیں "بر آمد ہوا ۔
مانا کہ کبھی ہمارے پاس نیشنل فوج تھی جو ہل والا جھنڈا ہاتھ میں اُٹھائے "اونچا رہے گا جھنڈا ہمارا" کی تال پر سودھان ویشرام کا نعرہ لگاتے سڑک سڑک گھومتی ،شہر شہر جھومتی ،گائوں گائوں دھوم مچاتی ۔ان کے جوتوں چپلوں کی آواز سے دل دہل جاتا ،بلکہ سنا ہے دلی دربار کے ایوانوں میں ارتعاش نہیں زلزلہ پیدا ہوتا ۔ اور نیشنل فوج کے سالار اُچھل پڑتے کہ ہم ہیں اور بس ہم ہیں۔ پھر ہوا یوں کہ وہ سودھان ویشرام کی تال میں سودو زیاں میں تفریق نہ کر بیٹھے ، ان کے جوتوں سے چر چر بلکہ چررررررر کی آوازیں آنے لگیں اور ہم سمجھے کہ ان کے جوتے کیا پائوں بھی چھلنے لگے ہیں ، ان میں قوت رفتار مدھم ہوئی، گز بھر میںزبان قوتِ گفتار ناپید ہوگئی ، زور ِبازو اس قدر کم جیسے کسی کمزور پیڑ کی جھکی جھکی سوکھی سوکھی شاخیں ہوں۔تاریخ شناس صاحبان کا فرمان ہے کہ کبھی ہمارے پاس دفعہ ۳۷۰ تھا اور یہ بھی کہ کبھی ہمارے کچن کابینہ میں اندرونی خودمختاری تھی ، ان د نوں کسی کی کیا مجال کہ اسٹیٹ سبجیکٹ قانون پر اُنگلی اٹھائے ، پیر اٹھا ئے، ہل والے ہل کا پھل اس کی آنکھ میں شہتیر بنا کر اُتارتے ۔پھر ہونا کیا تھا ان سب چیزوں کو محفوظ سیف میں بند کرکے ہم نے تالے کی چابی اپنے سیانے نیتاؤں کے حوالے کی ، کہا مائی پاپ! بِن تا لے کی چابی کی نگرانی آپ کی نوکری۔وہ چالاک میٹھے بول میں لپٹے وعدے فرماگئے کہ ۳۷۰ ،۳۷۰ پھزی ہیند یزت عزی ہیند یزت(۳۷۰؍ سب کی عزت ہے)۔پر یہ حفاطت و نگرانی تب تک ہے جب اپنے پاس کرسی ہوگی کیونکہ ہم وہی کرسی اسی سیف کے آگے رکھ کرہل والے جھنڈے کا ڈنڈا ہاتھ میں لئے رکھوالی ہی کیا چوکیداری کریں گے ۔دن رات ایسی چوکیداری کہ ہماری آنکھ نہ پھڑکی تا کہ کوئی پاس نہ پھٹکے ،سیف کو ہاتھ نہ لگا پائے۔چابی کا بس ہم دور سے ہی دیدار کروادیں گے ۔ اپنے اہل کشمیر بھی سادہ منش کہ چابی کا دیدار کچھ ایسے کرتے کہ پھر خالی ہاتھوںکو چہروں پر ملتے ۔دروغ بر گردن راوی جو کہتا ہے کہ چوکیداروں نے پیچھے سیف میں ہلکی دراز بنوادی اور جو جب جہاں چاہا بیچ دیا یعنی قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند ۔ہاں یاد رہے سستا نہیں بیچا بلکہ اسی کرسی کی منہ دکھائی کے عوض بیچ دیا جو ملک ِکشمیر کے عام خام نے پہلے ہی ان کے حوالے کردی تھی ۔اب سوچنے والی بات یہ کہ جو ہاتھ لگا ،اُسی کو بیچ کھایا، اُڑایا، ا کیا خاک واپس کیا لائیں ؟بے چارے ملک کشمیر کے سیاست دان ، بے چارے اہل کشمیر کے چوکیدار ، واللہ اپنے سیاست کار اتنے بھی معصوم اور بھولے بھالے نہیں، اب یہ وہی سودا ہمیں بیچنے آئے ہیں جو کل ورتاؤ دے کرسی حاصل کر بیٹھے۔جبھی تو ملک کشمیر میں نیا ڈرامہ جاری ہے یعنی شرطیہ نئی کاپی کے ساتھ فلم ریلیز کرد ی ہے ۔اس فلم کے اہم کردار ہل والے قائد ثانی اور قلم والی بانوئے کشمیر نبھا رہے ہیں۔کہیں کہیں سائڈ رول میں میر ہے، انجیٔنر ہے، اکا دکا دونفری پارٹیوں کے بے کار ذمہ داران ہیں ، جنہیں کوئی نہیں پوچھتا ،وہ بھی گھوڑوں کے ریوڑ میں گدھے کی طرح اپنی ٹانگ پسار رہے ہیں ، خدارا ! ہماری بھی تصویر اخبار میں چھاپئے۔فلم کا اسکرپٹ تو تازہ دم ہے جس کے تحت اپنے ہل والے قائد ثانی آجکل دبنگ بنے ہیں، اسی لئے کبھی ترنگ میں آکر دلی دربار کو چیتائونی دیتے ہیں کہ لڑ مرو عاشقو ۔قضیہ زمین بر سر زمین حل کرو ۔ ۳۵۔الف کی ریت کو ہماری کھلی تھراتھراتی مٹھی میں رہنے دو ۔ نعرہ بھی کتنا دلچسپ ہے :یہ دفعہ ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔ اور تو اور مملکت خداداد کے نو منتخب قائد سے بات چیت کرو نہیں ،تو وہ تیز رفتار باؤنسر مار دے گا پھر آنکھ پھوٹے، سر پھٹے یا ناک ٹوٹے ہم ذمہ دار نہیں، کیونکہ سواری ہر حال میں اپنے سامان کی خود ذمہ دار ہوگی۔اس لئے میرا مشورہ ہے کہ بات کرو بلکہ ہلکا پھلکا مسکہ ہی مار کر اس کی رفتار کم کردو نہیں تو خیر نہیں۔پھر پار والے قائد کی رفتار کا لطف اٹھاتے خود بھی ڈم ڈم باجے ڈول پیٹتے ہیں کہ۳۵۔ اے کے ساتھ چھیڑ خوانی کی تو اسی جرم میں رُوٹھ کر پنچایتی انتخابات میں کودوں گا نہیں ۔گائوں گائوں کی مٹی نہیں چھانوں گا بلکہ شہری کوچوں میں بھی نہیں گھوموں گا یعنی شہر و دیہات ایک کردوں گا اور چنائو کے برقی ڈبے بھی ساتھ نہیں لینے دوں گا ۔
یہ اور بات ہے کہ چند ہی ہفتے پہلے اٹل بہاری کے ساتھ باجپائی کے سوگ پر اپنا شیر کا بچہ دھاڑ ا اور ایسا دھاڑا کہ بام و در ہل گئے ، رام ا ورشام دہل گئے، مودی وشاہ مچل گئے ۔ سورگباشی باجپائی کے سنگھی پسر پروردہ اس کی آتما کواتناشانت نہ کرپائے جتنا ہر دیگ کے اس من توشدم چمچے نے کردکھایا ۔ بھارت ماتا کے گن گان میں تان میں تان ملا دی مگر بھائی لوگ تاڑ گئے یہ قائد ثانی نہیں بلکہ کرکٹ اسکینڈل کا بھوت یا خالی کرسی کا بخار بول رہا ہے ۔ راج نیتی اسی کو کہتے ہیں، بولو تو اونچا بولو تو۔اسی لئے قائد ثانی کو بھارت ماتا کی جے جے کار ذرااونچے سُرتال میں کرنا پڑی ۔ ٹھیک کیا جو کیا، جوانی موروثی بادشاہت میں بِتائی اب بڑھاپے میں جیل کون جائے۔ اس پر مجھے خوامخواہ بچوں کا وہ گیت یاد آیا : پوشن پا بھئی پوشن پا ۔سو روپے کی گھڑی چرائی، اب تو جیل میں جانا پڑے گا ، جیل کی روٹی کھانی پڑے گی۔اور پھر جب گھڑی سو روپے کی نہ ہو بلکہ پورا سات کروڑ والا معاملہ ہو جیل کی روٹی کچھ زیادہ ہی کڑک ہوسکتی ہے کہ اس سے دانت ہی ٹوٹ جائے ، معدہ روٹھ جائے۔
وہ جو قلم دوات والے ہیں نا ، کرسی کیا گئی ان کا قلم پاجامے میں ناڑہ ڈالنے کے لائق بھی نہ رہا اور دوات میں روشنائی یکایک سوکھ گئی۔اسی لئے تو اسے تازہ کرنے کے لئے اپنے جوانوں کا پاک خون یاد آیا ۔ ان پرانے پاپی سیاسی مگر مچھوں کو ایک وقت کیوں ایک ہی بات یاد رہتی ہے۔ یاکرسی یا اپنے لوگوں کا خون ! کرسی نہیں تواپنے جوانوں کے خون کی یادیں رہ رہ کے ستائیں ، کرسی ہاتھ آئے تو لہو کے کفن میں لپٹے جوان یادِ ماضی عذاب بن جائیں بلکہ کچھ اور مارو کی رَٹ لگائیں۔قلم دوات والی نے بے وفا کرسی جاتے ہی لگے ہاتھوںقبروں سے معافی بھی مانگ لی ۔ کوئی قبر سے اٹھ کر بولا جا معاف کیا ؟کسی کی بھی بینائی لوٹ آئی؟ماں بہن کی بھیگی پلکیں خون کا بوجھ جھٹک سکیں؟جنتا اپنی گھٹن بھرے ترنم میں گنگنائے ؎
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ذر ا یاد کر وہ انتخاب
پھرے گائوں گائوں بے حساب
کہا سب سے مومن کا وہ خواب
کہ اب مانگے ہر کوئی جواب
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہاں دودھ اور وہ ٹافیاں
وہ نرم سفید سافٹیاں
جو گئے تھے لینے تتلیاں
مگر لوٹے واپس لہو لہاں
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
رابط ([email protected]/9419009169)
�����