بیسویں صدی میں جن اسلامی مفکرین نے نوع انسانیت کو عروج و ترقی کا راستہ دکھایا اور زوال و شکست سے باخبر کیا، ان میں بدیع الزماں نورسی ؒ، علامہ اقبالؒ ،مولانا ابوالکلام آزادؒ، علامہ اقبالؒ ،مولانا مودودی ؒ، مولانا ابوالحسن ندوی ؒ اور پرڈاکٹرسید حسین نصر قابل ذکر ہیں۔زیر نظر مضمون میں عروج و زوال کے تعلق سے ان مفکرین کی چند آراء کا مطالعہ پیش کیا جارہا ہے
بدیع الزماں نورسیؒ(1873-1960)
درویش صفت انسان اور مرد قلندر بدیع الزماں نورسی ترکی کے علاقہ شرقی اناطولیہ کے ایک گاؤں’’نورس‘‘ میں ۱۸۷۳ء کو پیدا ہوئے۔اسی گاؤں کی نسبت سے انہیں نورسی کہا جاتا ہے ۔ وہ کردی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسوں میں حاصل کی۔ صرف ۱۸؍سال کی عمر میں ان کا شمار بڑے علماء میں ہونے لگا۔ وہ سیاسی معاملات میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے تھے بلکہ عملی طور سے بھی وابستہ تھے۔ ثروت صولت کا کہنا ہے کہ’’ ان کی کوششوں سے ترکی میں جس طرح اسلام کا احیا ہوا ہے اس کی مثال شاید پوری اسلامی تاریخ پیش نہیں کرسکتی ‘‘لیکن ایک طویل تجربے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ عملی طور سے سیاست میں حصہ لینے سے ایک صحت مند سماج کی تعمیر وتطہیر نہیں کی جاسکتی ہے تو انھوں نے سیاست سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلی کہ ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن والسیاسۃ‘‘ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد ایک مصلح کے طور ر تبلیغی کام کرنا شروع کیا۔ اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی فکر سے متاثر کیا۔ انھوں نے مغربی فکر، سیکولرازم، جدیدیت کا بھرپور رد کیا اور روایاتی سوچ وفکر کی تائید کی۔ وہ سماج میں نچلی سطح پر کام کرنے کے عادی تھے۔ اور ذہنی طور سے لوگوں میں انقلاب لانا چاہتے تھے۔ وہ خود ایک متقی، درویش صفت مسلمان تھے اور ان ہی صفات کو لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے الحاد ، مادہ پرستی ،سکولرازم اور اخلاقی برائیوں کے خلاف زبردست روحانی جہاد کیا ۔ ان کے افکار کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے امت مسلمہ کی تطہیر و تربیت قرآن کی روشنی میں کی کیوں کہ ان کے افکار کا انـحصار قرآن مجید ہی تھا ۔ نو جلدوں(پانچ ہزار صفحات ) پر مشتمل ’’ رسائل النور ‘‘ ان کا سب سے بڑا تصنیفی سرمایہ ہے اور اس میں جگہ جگہ قرآنی آیتوں سے استفادہ کیا ہے ۔ شیخ نے امت کے عروج کا ذریعہ مجید کو قرار دیا ہے ۔ ان کے نذدیک یہی وہ واحد مقدس کتاب ہے جس میں وہ تمام کتابیں موجود ہیں جو انسان کی تمام روحانی حاجات کو بروئے کار لانے والی ہیں حتی کہ اس نے اولیا ء و صدیقین اور عرفاء و محققین اور تمام مختلف مشارب اور مسالک کے لیے ایسا پیغام ظاہر کیا ہے جو اس مشرب کے ذوق کے مطابق ہے اور اسے روشن کرتا ہے اور جو اس مسلک کو آگے بڑھانے اور اس کی تصویر کشی کرنے کے لیے کے لیے انتہائی مناسب ہے ‘‘ بدیع الزماں نورسی امت کے عروج و زوال دین کے ساتھ جوڑتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تک مسلمان اپنے دین سے چمٹے ہوئے تھے ، انھوں نے اسی کے بقدرترقی کے مناذل طے کیے اور جب دین میں کمزوری واقع ہوئی ان کا معاملہ بھی دیگر شکست خوردہ اقوام کی طرح ہوگیا ۔بدیع الزماں نورسی امت کے زوال کا ایک سبب تعلیم کو دو خانوں میں تقسیم کرنا قرار دیتے ہیں ۔وہ نظام تعلیم کی اس دوئی پسندی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔اس دوئی پسندی کو کیسے دور کیا جائے اس تعلق سے وہ کہتے ہیں کہ جدید علوم کی درسگاہوں میں سائنس کے ساتھ ساتھ دینی علوم کو فروغ دیا جائے ۔ اسی طرح دینی درسگاہوں میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم اور سائنس کو بھی ترویج دینا چائیے ۔ان کا خیال ہے کہ لادینیت ،مذہب بے زاری ،شدت پسندی اور بے مقصدیت جیسے مہلک رجحانات سے نئی نسل کو بچایا جاسکے گا۔
علامہ اقبالؒ(1877-1938)
علامہ اقبال ان ممتاز مفکرین ومصلحین میں سے ہیں جنھوں نے بیسوی صدی میں مشرق ومغرب کو اپنے فکر وخیالات سے ہلا کر رکھ دیا وہ صرف انقلابی و فکری شاعر ہی نہ تھے جیساکہ جند روشن خیال دانشوران کے متعلق کہتے ہیں بلکہ وہ تو ایک ایسے جید اسلامی مفکر اور اسکالر تھے جن کو بہت سارے علوم ونظریات پربہت اچھی نگاہ اور درک حاصل تھا ۔ فقہی مسائل سے لے کر سیاسی مسائل تک ان کی نگاہ اور اسکالر شپ بہت وسیع تھی ۔انہوں نے مغربی علوم ،قرآن و حدیث ،فقہ اور تاریخ کا براہ راست مطالعہ کرکے اپنی فکری جہت کو وسعت دی۔ علامہ اقبال ؒ اسلام کو مکمل نظام ز ندگی کے طور پر ہی پیش کرتے ہیں اور ہر مسئلہ کو چاہے وہ سیاسی ہو ، سماجی ومعاشرتی مسائل ہوںیاا قتصادی مسائل ہوں یا روحانی ،قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج مسلمانوں کو چائیے کہ وہ اپنی اہمیت کو سمجھیں ، بنیادی اصولوں کی روشنی میں پنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کریں اور اسلام کے حقیقی مقصد کو حاصل کریں ۔اقبال کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مسلمان کسمپرسی ، افسردگی اور اور نہایت خست حالی میں زندگی گزارہے ہیں۔ اس لئے ان کی دلی تمنا تھی کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو پانے کے لیے اپنے آپ کو پہچانیں اور اس عظمت رفتہ کو پھر سے بحال کریں جو مسلمانوں کو ماضی میں حاصل تھی۔ اسلام کے عالم گیر پیغام جو کہ اس وقت مقامیت کے خول میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ اس پر اقبال اپنی تشویش کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ ’’توحید کی تعلیمات شرک کے دھبوں سے کم و بیش مسخ ہو گئی ہیں ۔اسلام کے اخلاقی ادرشوں کا عالم گیر اور غیر شخصی کردار مقامیت میں گم ہو گیا ہے۔ہمارے سامنے اب ایک ہی کھلی راہ ہے کہ ہ اسلام کے اوپر جمے ہوئے کھرنٹ کو کھرچ ڈالیں جس میں زندگی کے بارے میںاساسی طور پر حرکی نقطہ نظر کو غیر متحرک کر دیا ہے اور یو ںو ہ اسلام کی حریت مساوات اور یکجہتی کی اصل صداقتوں کو دوبارہ دریافت کرلیں‘‘۔ان کے یہاں اسلام کا تصور حیات جامد Stagnant) (نہیں بلکہ متحرک ہے اسلام کے اس وصف کو اقبال نے نمایاں طور پر واضح کیا ۔ ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے نظام حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا ۔اقبال نے رواتی انداز فکر، سطحی سوچ اور اور جزباتی رجحان کو بھی تبدیل کیا اور امت کو فکری بلندی اور سوچنے سمجھنے کا کا ایک تخلیقی زاویہ عطا کیا ہے ۔نیز مسلمانوں کے زوال کے حقیقی اسباب کا بھی جائزہ لیا اور صرف جائزہ ہی نہیں لیا بلکہ زوال سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بتایا ۔اس طرح کا تجدیدی کام کرنے عام مفکر کے بس میں نہیں ہے یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اجتہادی بصیرت رکھتا ہو ۔اس لحاظ سے اقبال بیسویں صدی کے بہت بڑے مجتہد تھے ۔انھوں نے مسلمانوں کو ااس جذبۂ صداقت کے لیے ابھارا ؎
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حزر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اسلامی فقہ کی تدوین نو اسلام کی سب سے بڑی خدمت سمجھتے تھے۔ ان کاماننا ہے کہ عصر حاضر میں قدیم فقہی مواد میں نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ا قبال اجتہاد کی اہمیت وافادیت پر بہت زوردیتے ہیںالبتہ وہ انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد کے حامی ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال فقہ و قانونِ اسلامی کی اصلاح (Reformation) کے بجائے اس کی تشکیل جدید Reconstructionکا تصور پیش کرتے ہیں، خطبات میں وہ لکھتے ہیں کہ’’ اجتہاد کی یہ آزادی کہ ہم اپنے شرعی قوانین کو فکر جدیدکی روشنی میں اور تجربہ کے مطابق از سر نو تعمیرکریں بہت ناگزیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلامی قانون کی اصطلاح میں اجتہاد کا معنی وہ کوشش ہے جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کیلئے کی جائے‘‘۔علامہ موصوف نے ملوکیت ، ملائیت اور تصوف کو زبردست تنقید کی ۔ وہ ان تینوں کو زوال کے اسباب میں شمار کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا تنزل بحیثیت ایک مسلم معاشرہ ہوا ہے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد ؒ(1888-1958)
مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کے مایہ ناز مفکر تھے ۔ وہ ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔اللہ تعالی نے انہیں بے شمار صلاحتوں سے نوازا تھا۔اس مرد قلندر کو اسلامی بیداری اور ملی تشخص پیدا کرنے کی جو قوت اللہ تعالیٰ نے عطا کی تھی آپ نے اس کو بخوبی استعمال کیا ۔ مولانا آزاد بھی ان مفکرین میں شامل ہیں جنھوں نے امت کے عروج و زوال کوموضوع بنایا ہے ۔انھوں نے ملت اسلامیہ کوبدحالی کا احساس دلایا بلکہ خواب غفلت سے جگانے کی کوشش بھی کی۔ اس تعلق سے ان کی معروف کتاب’’قرآن کا قانون عروج و زوال‘‘ کافی اہمیت کی حامل ہے ۔مولانا کے نذدیک اگر کوئی دیوار مسلمانوں کے پیٹھ کا سہارا بن سکتی ہے تو وہ اسلام کی دیوار ہے اور وہ اسی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے تھے ۔وہ ملت اسلامیہ ہند کی سیاسی اور مذہبی حالت پر سخت بے چین اور نالاں رہتے تھے ۔وہ مسلمانوں کی سیاسی حالات سدھارنے کے ساتھ ساتھ ان کو نسخہ کیمیا اوراللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت بھی دیتے تھے ۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ :’’عزیزو!میرے پاس تمہارے لیے کوئی نسخہ نہیں ہے وہی پرانا نسخہ ہے جو برسوں پہلے کا ہے ۔وہ نسخہ جس کو کائناتِ انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا ،وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان کہ ’’ تم ہمت نہ ہارواور نہ غم کرواور تم ہی غالب آو گے اگر تم کامل ایمان رکھتے ہو‘‘ ۔مولانا صرف سیاسی رہنماء نہیں تھے بلکہ ایک مفسر اور عالم دین بھی تھے ۔وہ ملت اسلامیہ کی زبو حالی پر بے حد متفکر رہتے تھے ۔
مولانا آزاد نے اتحاد و اتفاق کو ملت اسلامیہ کے عروج کا ذریعہ قرار دیا اور تفرقہ بازی و انتشار کو زوال کے بنیادی اسباب میں سے شمار کیا ۔ان کہنا ہے کہ انتشار کی زندگی کو بقا وقیام نہیں ہوسکتا اور وہ بلا کی ایک آگ ہے جس کے دہکتے ہوئے شعلوں کے اوپر کبھی قومی زندگی نشو نما نہیں پاسکتی ۔ اتحاد اور اتفاق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کریم نے جابجا اجتماع و ائیتلاف کو قومی زندگی کی سب سے بڑی بنیاد اور انسان کے لیے اللہ کی جانب سے سب سے بڑی رحمت و نعمت قرارا دیا ہے ۔ اور اس کو اعتصام بحبل اور اسی طرح کی تعبیراتِ عظیمہ سے وسوم کیا ہے ۔ مسلمانوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’ ’سب مل جل کر اور سب اکھٹے ہو کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑ لو ۔ سب کے ہاتھ سی حبل اللہ سے وابستہ ہو ‘‘۔ (۳:۱۰۳) مسلمانوں کے عروج و زوال کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ قانون الہی کے مطابق مسلمانوں کی قومی زندگی کے عروج کا اصلی دور وہی تھا جب ان کی قومی و انفرادی ، مادی و معنوی ،،اعتقادی و عملی زندگی پر اجتماع و ایئتلاف کی رحمت طاری تھی اور ان کے تنزل و ادبار کی اصلی بنیاد اس وقت پڑی جب اجتماع و ایئتلاف کی جگہ انتشار کی نحوست چھانی شروع ہوگئی ۔‘‘( قرآن کا قانون عروج و زوال،ص: ۴۴)
مولانا سید ابواعلیٰ مودودی ؒ (1903-1979)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت ،بصارت، عقل اور ضمیر جیسی بنیادی صلاحیتں (Basic Faculties)عطا کیں جن کو وہ استعمال میں لاکر ترقی کے مختلف منازل طے کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنوع خوبیوں سے بھی نوازا جن میں کرید و جستجو ، تحقیق و تفتیش،سعی جہد اور اجتہاد کرنا بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)