مولاناالطاف حسین حالیؔ نے سرسید کی بے مثال شخصیت کے بارے میں لکھا ہے:’’میرے ایک دوست سے ایک انگلش مین نے سرسید کا ذکر کرتے وقت کہا کہ اگر یہ شخض یورپ میں پیدا ہوتا تو کسی بڑی امپائر میں وزیر اعظم کے درجہ تک پہنچتا‘‘۔(حیات جاوید ۔ص۔۳۵۷) سرسید احمد خان محض ایک شخصیت کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔اس تحریک کے مختلف النوع پہلو تھے ۔سرسیدبذات خود کئی حیثیتوں سے نہ صرف انیسوی صدی کے پورے منظر نامے پر چھائے رہے بلکہ آج کے دور میں بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کے اثرات نمایاں ہیں۔بقول خوشی محمد خاں ناظرؔ ؎
سید مرحوم اُمت کا بھلا کرتا رہا
ہم جفا کرتے رہے اور وہ وفا کرتا رہا
جو فلاحی قوم کی آئی سمجھ میں اس کی بات
برملا کہتا رہا اور برملا کرتا رہا
سیاست ،ادب ،مذہب ،تعلیم اور دیگر علوم وفنون میں سر سید احمد کے خیالات اجتہادی تھے۔سرسید پہلے شخض ہیں جنہوں نے فکر و ادب میں آزادی رائے اور آزادی خیال پر زور دیا اور ایک ایسے مکتب فکر کی بنیاد رکھی جس میں عقل ،نیچر ،تہذیب اور مادی ترقی کو بنیادی حیثیت حامل ہے۔ان کے تمام علمی سر مایے میں انہی عناصر کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔سرسید کی تعلیمی تحریک ایک انقلابی تحریک تھی جس کا مقصد محض نوجوانوں کو تعلیم دینا ہی نہیں بلکہ ان کی اعلی وارفع تربیت کرنا بھی تھاتاکہ قوم زندگی کے ہر ایک میدان میں سرخ رُو ہوسکیں۔ان کا اپنا ایک فلسفہ تعلیم تھا،ایک پختہ نظریہ تعلیم وتعلم تھا۔ان کی فکر محض خیالی یا تصوراتی نہ تھی بلکہ دنیائے حقیقت پر مبنی تھی۔انہوں نے انفرادی تعلیم بالمقابل قومی تعلیم کا تصور پیش کیا تھا۔سر سید کے یہاں سب سے زیادہ اہمیت جدید کاری کی تھی ، وہ مشرقی تعلیم کی بر قراری کے حق میں توتھے مگر اس میں جدت پیدا کرنا چاہتے تھے تاکہ روایتی تعلیم کو بھی عصر حاضر کے تفاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔
1857 کے پر آشوب دور میں سرسید ملت کی رہنمائی نہ کرتے تو شاید مسلمان پسماندگی کے اس دلدل سے کبھی باہر نہ نکل پاتے جس میں وہ اس وقت پھنسے ہوئے تھے اور شاید یہی ان کا مقدربن چکا ہوتا۔سید نے نہ صرف قوم کی محرومیوں اور بدنصیبوں کا علاج تجویز کیا بلکہ اس کے اندر زندگی کی اُمید قوی اور جینے کا حوصلہ بھی پیدا کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو قومیت وملّی حمیت کے ایک نئے مفہوم سے آشنا کیا اور اس راز سے آگاہ کیا کہ اب زمانۂ جدید میں ملت کی ترقی کا صرف ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اورصرف تعلیم وتدریس ہے اور تعلیم بھی م وہ جو سائنس سے مربوط ہو اور نئے عہدے کے تقاضوں کی تکیل کرنے والی ہو ،کیونکہ ایک نئے طرز کی تعلیم ہی کی بدولت قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔انہوں نے خفتہ پڑے مسلمانوں کو اس امر کا احساس دلایا کہ برادرانِ وطن کی زندگی تم سے ہراز درجہ بہتر ہے اور اس کی واحد وجہ تعلیم و تدریس ہے۔ان کی خواہش تھی کہ مسلم طلبہ اگر ایک جانب انگریزی زبان و ادب اور جدید علوم و فنوں کا مطالعہ کریں ، دوسری جانب قدیم مشرقی علوم پر بھی مطلوبہ توجہ دیں ۔ان کے تصور تعلیم میں قدیم وجدید کا حسین امتزاج جاگزیں تھا۔عربی فارسی زبان وادب اور دینیات کی تعلیم کو وہ نوجوانون اذہان کی موزوں ومناسب پرورش ونشوونما کے لئے لازم خیال کرتے تھے۔سرسید احمد خان کی نظر میں تعلیم کو قومی تقدیرس نوازنے میں بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل تھی اور اس کے بغیر عصررواں میں بامعنی زندگی بسر کرنا ناممکن نہ تھا۔ان کی تعلیمی تحریک کے منشور میں قومی زندگی کے ہر شعبہ اور،ہر میدان میں ترقی شامل تھی اور اس ترقی کی اساس وہ ایسی تعلیم کوقرار دیتے تھے جو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ اوروقت کی ضروریات کے عین مطابق ہو۔ان کے بعض نظریات سے اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن ان کے قلبی جذبات کی صداقت ،نیزقوم سے ان کی والہانہ محبت کا تو ان کا بڑے سے بڑا مخالف بھی منکر نہیں ہوسکتا۔دراصل وہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایسا معاشرہ باوجود کرنا چاہتے تھے جو محبت ، اُخوت، تہذیب اور اخلاق میں مثالی ہو اور جس کے سائے میں کلمہ خوان علم،روزگار ،تجارت ، غرض ہر میدان میں کامیابی کی راہ پر گامزن ہوں۔
سرسید احمد خان کے نظریہ تعلیم میں اخلاقی تر بیت اور ذہنی استعداد کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ان کے نزدیک تعلیم ، مکمل نظام تربیت کے بغیر مکمل نہیں ہے۔ اسی جذبے کے تحت ’’تہذیب الاخلاق‘‘جیسا مئوقر رسالہ شائع کیا جو پوری دنیا کو تہذیب ،تمدن،عمدہ اوصاف اور اعلیٰ تربیت کا سبق دیتا رہا ۔سرسید کے نزدیک صرف انگریزی پڑھ لینے اور یونیورسٹی سے ڈگریاں حاصل کرلینے کا نام تعلیم نہیں بلکہ وہ تعلیم جو اوصافِ حمیدہ ،عمدہ تہذیب اور قومیت کا درس دے، وہ اصل تعلیم ہے۔بقول سرسید’’عزیزو! تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہ ہو اور جس تعلیم سے قوم ،قوم نہ بن سکے ،وہ تعلیم در حقیقت کسی چیز کے لائق نہیں ہے۔پس انگریزی پڑھ لینا اور بی ۔اے اور ایم ۔اے ہوجانا جب تک کہ اس کے ساتھ تربیت اور قومیت کی فیلنگ نہ ہو،ہم قوم کوقوم اور ایک معزز قوم نہیں بنا سکتے‘‘(خطابات سرسید،شمارہ دوم ۔ص۔۷۴)
سرسید احمد خان کا نظریہ تعلیم چوں کہ جدید طرز کی تعلیم کے حصول پر مبنی تھا جس میں سائنس ،فلسفہ ،تاریخ ،تہذیب و تمدن اور زبان وادب کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی شمولیت بنیادی اہمیت کی حامل تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرسید نے ان علوم وفنون اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں مذہب کا دامن نہیں چھوڑا ۔اپنے ملک کے نوجوانوں کے لیے وہ جس طرز کی تعلیم چاہتے تھے اس کا اندازہ سرسیدکے اس قول سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔’’فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ہوگا،نیچرل سانئس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ طیبہ کاتاج سر پر ہوگا۔‘‘الغرض سرسید کا نظریہ تعلیم و تربیت نہ صرف ہندوستان بلکہ جدید دینا کے تمام طالب علموں اور اسکالروں کے لئے آئیڈیل لائحہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔سرسید کا یہ نظریہ ان تمام لوگوں کے لئے ایک تازہ دم پیغام ہے جو دینیات ،جدید علوم وفنون اور بہترین ٹیکنالوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے خواہاں ہیں۔سرسید نے قوم کی ترقی اور فلاح وبہبود کی خاطر جس قدر انمول قربانیاں دیں اور جتنا اپنے آپ کو ا س تعمیری مشن میں منہمک رکھا، وہ دراصل سرسید کا قوم پر قابل فخر احسان ہے جس کے آج تک ہم مقروض چلے آرہے ہیں۔ آج ۱۷؍ اکتوبر کو جب پوری دنیا کے لوگ مصلح عظیم ومعلم بے بدل سرسید احمد خان کے ۱یک سوبیسواں یوم وفات کی مناسبت سے پر سرسید کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں و،سرسید کی اُن بیش بہاقر بانیوں کو ضرور یادکریں گے جو قربانیاں اس قوم کی نشاۃ ثانیہ کے پس پردہ کارفرمارہیں۔ اوربقول پروفیسر شہبازؔ ؎
وہ سرسید کہ جس کی زندگانی زندگانی تھی
حیات اس کی ہماری زندگانی کی نشانی تھی
عیونِ قوم کی پتلی اسی کی خوش نگاہی تھی
لسان ِقوم کی بولی اسی کی خوش بیانی تھی
رابطہ نمبر:9697330636