مولانا سید ابواعلیٰ مودودی ؒ (1903-1979)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت ،بصارت، عقل اور ضمیر جیسی بنیادی صلاحیتں (Basic Faculties)عطا کیں جن کو وہ استعمال میں لاکر ترقی کے مختلف منازل طے کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنوع خوبیوں سے بھی نوازا جن میں کرید و جستجو ، تحقیق و تفتیش،سعی جہد اور اجتہاد کرنا بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔تحقیق و تفتیش اور تلاش و جستجو ہی ایک فرد یا قوم کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے روز مرہ مسائل کو حل کرنے کاذریعہ بنتی ہے ۔ انسان کے دل و دماغ میں جو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں ، وہ بھی تحقیق وجستجو کرنے سے دور ہوجاتے ہیںنیز مبہم اور غیر معین بات بھی واضح ہوجاتی ہے ۔ تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ، ترقی کے منازل طے کرنا اور نت نئے مسائل کاحل نکالنا تحقیق و تفتیش کا خاصہ ہے ۔ جب بھی انسان اس سے لاتعلق ہوجاتا ہے یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے تو زوال و پستی اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے اور یوں وہ قصہ پا رینہ بن جاتا ہے جس کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رہ جاتی ہے ۔ علم تحقیق ہی کی بدولت کسی قوم میں حرکت پیداہوتی ہے اور اسی قوم کو دنیا میں غلبہ اور استحکام حاصل ہوجاتی ہے جو علم تحقیق سے چمٹتی رہتی ہے ۔ جو قوم تحقیق و تلاش کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ دوسری قوموں کا آسانی سے نوالہ تر بن جاتی ہے ۔ اس کا نتیجہ مولانا مودودی کی زبان میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ’’ جو قوم سوچنا ، تحقیق کرنا ، معلومات جمع کرنا اور نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے ، جمود کا نتیجہ آخر کار انحطاط ہوتا ہے اور انحطاط کا نتیجہ آخر کا ر اس پر کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے پھر جب کسی قوم کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ سب سے بڑھ کر اس کا غلبہ فکری حیثیت سے بھی ہوتا ہے ۔‘‘جب کوئی قوم مغلوب بن جاتی ہے تو وہ ہر لحاط سے (سیاسی، معاشی ،فکری اور تہذیبی)شکست خوردہ ذہنیت کے مالک بن جاتی ہے اور اس کا انحصار غالب قوم پر رہ جاتی ہے ۔جو مغلوب قوم کی ہر چیز کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ڈ ھال دیتی ہے اور اسی کا نقطہ نظر مغلوب قوم کا نقطہ نظر قرار پاتا ہے ۔غالب قوم اپنے وسائل سے سب سے پہلے مغلوب قوم کی فکر و تہذیب کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ جب فکری طور سے کوئی قوم دوسرے قوم کی نوالہ تر بن جاتی ہے تو اس کا قومی تشخص بھی ختم ہوجاتا ہے اور اس کے صفحہ ہستی سے مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے ۔مغلوب قوم کے بارے میں مولانا مودودی کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ ’’تحقیقات دوسرے کرتے ہیں ان کو جمع دوسرے لوگ کرتے ہیں ان کو ترتیب دے کر ایک فلسفہ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں ایک نظام فکر و عمل دوسرے لوگ کرتے ہیں اور یہ مغلوب قوم ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کے ہر چیز کو قبول کرتی چلی جاتی ہے ۔ یہ عمل جتنا جتنا بڑھتا جائے گا اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ وہ فنا بھی ہوسکتی ہے اور ہورہی ہے ‘‘ مولانا مودودی کے نذدیک تحقیقات کرنا ، علوم و فنون کو جمع کرنا ، معلومات فراہم کرنا اور ان کو مرتب کر کے ایک تہذیب بنانا غالب قوم کی پہچان ہوتی ہے ۔ وہ صرف سیاست یا اسلح اور فوج کی بدولت کسی قوم پر غالب نہیں آتی بلکہ اپنی پوری تہذیب کو مغلوب قوم پر غالب کردیتی ہے ۔ مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ ذہنی غلبہ و استیلا ء کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر ہوتی ہے جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کے رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہیں اور اسی کے افکار دنیا میں چھا جاتے ہیں اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلد اور متبع بن کے رہنا پڑھتا ہے ا ۔ مولانا اس فطری قانون کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال میں اہم رول ادا کرتی ہے اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک فطری قانون ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و تفتیش کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہیں اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو کوئی قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے ‘‘۔(ملاحظہ ہو ،تنقیحات) )جب تک مسلمان اسلام کے اصل ماخذو منبع سے اکتساب علم کرتے رہے اور صحیح غور و فکر سے کام لے کر اپنے اجتہاد سے علمی و عملی مسائل حل کرتے رہے اس وقت تک اسلام نہ صرف زمانہ کے ساتھ حرکت کرتا رہا بلکہ مسلمان بھی عروج پر رہے ۔ لیکن اہل اسلام کو آج وہ مقام حاصل نہیں ہے کہ جب وہ دنیا کی قیادت و سیادت کر رہے تھے ۔ اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ جب قرآن پر غور و فکر کرنا چھوڑ دیا گیا ، جب احادیث کی تــحقیق اور چھان بین بند ہوگئی ،جب آنکھ بند کر کے پچھلے مفسرین اور محدثین کی تقلید کی جانے لگی ، جب پچھلے فقہا ء اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون بنا لیا گیا ،جب کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب علم ترک کر دیا گیا اور جب کتاب و سنت کے اصول کو چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لئے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتا رک گئی ۔ مسلمانوں نے علم و فن سے متعلق ہر چیز کو چھوڑا ، اور ہر اس چیز سے ناطہ توڑ اجو ان کے لئے عروج پر لے سکتا تھا اور علوم و فنون سے مغرب نے رشتہ جوڈا تو مسلمان خود بخود زوال کی شکار ہوگئی ۔مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ جب جہاد و اجتہاد کا جھنڈا مسلمانوں نے پھینک دیا تو اس کو مغربی قوموں نے اٹھا لیا ، مسلمان سوتے رہے اور اہل مغرب اس جھنڈے کو لے کرعلم و عمل کے میدان میں آگے بڈھے یہاں تک کہ امامت کا منصب جس سے یہ معزول ہوچکے تھے ان کو مل گیا ،ان کے افکار و نظریات ، علوم و فنون اور اصول تہذیب و تمدن دنیا پر چھا گئے ان کی فروانروائی نے صرف اجسام کا ہی نہیں دلوں اور دماغوں کو بھی فتح کر لیا ۔ آخر صدیوں کی نیند سے جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے دیکھا کہ میدان ہاتھ سے نکل گیا ہے ( ملاحظہ ہو تنقیحات،ص: ۲۳ اور ۱۳۴)
مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ(1914- 1999)
مولانا ابوالحسن ندویؒ عالم اسلام کے ایک جید عالم دین اور مصنف تھے۔ آپ ۱۹۱۴ء کو تکیہ کلا رائے میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مولانا کو لکھنے پڑھنے اور تصنیف وتالیف کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، اور لکھنو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ تکمیل تعلیم کے بعد صرف ۲۰؍ سال کی عمر میں ندوۃ العماء لکھنو میں عربی ادب اور تفسیر وحدیث کے استاد ہوگئے۔ چونکہ تحریر صلاحیت بچپن ہی تھی اس لئے ۱۶؍سال کی عمر میں ان کا پہلا مضمون رشید رضا مصر کے معروف مجلہ ’’المنار‘‘ میں سید احمد شہید کے متعلق شائع ہوا تھا۔ مولاناعلی میاں ندوی نے اکثر کتابیں عربی زبان میں لکھی کیونکہ عربی زبان پر انہیں زبردست درک حاصل تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض کتابیں اردوں میں بھی لکھیں۔ ان کے مضامین عالم عرب کے جید مجلات اور رسائل میں شائع ہوئے تھے مولانا کی تحقیقات اور مطبوعہ رسائل کی تعداد ۲۹۰؍ اور عربی کی تعداد ۱۸۸ ہے۔ انہوں نے عالم عرب میں ملت اسلامیہ ہند کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے ملت اسلامیہ کی زبو حالی اور زوال کا گہرائی سے جائزہ ولیا اور ایسی راہیں بتائیں جن سے ملت اسلامیہ کو پھر سے عروج حاصل ہوسکتا ہے اس تعلق سے ان کی ایک معروف کتاب ’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ‘‘لکھی جس کا اردو ترجمعہ’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘ کے نام سے کیا گیا ہے ۔یہ ایک شاہکار کتاب ہے جس مولانا نے امت کے عروج و زوال کے اسباب اور اصول بیان کیے ۔یہ کتاب تاریخ کو خالص اسلامی نقطہ نظر سے دیکھنے کا حق ادا کرنے کا نمونہ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر احمد امین لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب مسلمانوں سے احساس کمتری کو دور کرنا چاہتی ہے جو انحطاط سے اور اپنی کمزوری کے احساس سے مغربی تہذیب کو وہ درجہ دینے کی وجہ سے جس کا وہ مستحق نہیں ہے ،پیدا ہوگیا ہے ‘‘ ان کے نذدیک مسلمانوں کا عروج اسی میں ہے کہ وہ اپنے فرض منصبی کے طرف لوٹ آئیے۔وہ فرماتے ہیں کہ’’مسلمانوں میں خود اعتمادی کی روح، اسلام کی طرف بازگشت کا جذبہ اور جوش عمل پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو اپنا مقام یاد دلایا جائے ، اور یہ بتلایا جائے کہ وہ دنیا کی تعمیر و تشکیل کے اہم اور مقدس کام میںایک موثر و فعال عنصر ہیں ۔کسی چلتی ہوئی مشین کا پرزہ اور کسی اسٹیج کے بازی گر اور نقال نہیں۔ ‘‘( انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ،ص:۱۵) مولانا نے باطل عقائد اور افکار کی بھی گرفت کی اور تہذیب جدید پر بھی نقد کیا اور تقلید و جمود کو بھی توڑنے کی کوشش کی۔ مغربی فکر وتہذیب کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ۔مولانا موثر اور صالح قیادت کی ضرورت مـحسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسانیت کی مشکل کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ عالگیر قیادت اور زندگی کے جہاز رانیان مجرم اور خون سے رنگین ہاتھوں سے نکل کر جنھوں نے انسانیت کے قافلہ کو غرق کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے ان امانت دار ، فرض شناس ، خدا ترس ،اور تجربہ کار ہاتھوں کی طرف منتقل ہو جو انسانیت کی جہاز رانی کے لیے روزاول ہی سے بنائے گئے ہیں ۔(محولہ بالہ، ص:۳۲۹)ملت اسلامیہ کے عروج کے تعلق سے مولانا فرماتے ہیں کہ ’’ روحانی ، صنعتی اور فوجی تیاری اور تعلیمی آذادی کے ساتھ عالم اسلام عروج حاصل کر سکتا ہے ، اور اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے جو اس کے سر پر منڈلا رہی ہے ، قیادت ہنسی کھیل نہیں نہایت سنجیدہ معاملہ ہے ، اور منظم جدوجہد ،مکمل تیاری ، عظیم الشان قربانی اور سخت جانفشانی کی محتاج ہے ۔‘‘ (موحولہ بالہ ،ص: ۳۵۰) مولانا زوال سے نکلنے کے لئے امت کومشورہ دیتے ہیں کہ وہ نئے ماہرین کو پیدا کرنے میں کوششں کریں ۔چناچہ وہ لکھتے ہیں کہ اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید بامقصد طریقہ پر سائنس و صنعت کو کو فروغ دیں طبعی سائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی و علمی تحقیقات کا جائزہ لیں اور ان سے استفادہ کر کے تحقیق و تجربے کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔
ڈاکٹرسید حسین نصر : (پ:1933)
سید حسین نصر ایران میں پیدا ہوئے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم ایران ہی میں حاصل کی ۔اس کے بعد علم طبعیات میں ایم ۔ائی۔ٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعد انھوں نے ہارورڑ یونیورسٹی سے علم تاریخ میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ڈاکٹر موصوف جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سابق پروفیسر ہیں ۔موصو ف پچاس کتابوں کے مصنف ہیں اور اسلامی فکر ،اسلامی سائنسز ، اسلامی فلسفہ اور مابعد الطعیات ان کا تحقیقی دان ہے ۔ وہ علمی اور تحقیقی دنیا معروف اسلامی فلاسفر کی حیثیت سے جانا ہے ۔اس کے علاوہ انہیں اسلامی سائنس پر زبردست عبور حاصل ہے اور اس فن میں بھی ماہر کی حیثیت سے پوری دنیا میںشہرت حاصل ہوئی ۔نصر نے مسلمانوں کا عروج و زوال علوم و معارف اور سائنس کے ساتھ جوڑا ۔ وہ جمال الدین افغانی کی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ وہی مسلمان اسلام کے محافظ ہو سکتے ہیں جو علوم معارف مختلفہ آشنا اور واقف ہوں ۔نصر کی یہ بات نہ صرف قابلِ غور بلکہ قابلِ استفادہ بھی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ’’عالم اسلام میں سائنس اور ٹکنالوجی کی زرخیزی اصلیت اور خلافت سولہویں صدی تک باقی رہی اس کا انحطا ط سترہویں اور اٹھارویں صدی تک باقی رہی جب ریاضی اور دوسرے ترقی یافتہ مضامین کو مدرسوں کے نصاب ے خارج کر دیا گیا ۔ اب اسلامی تعلیمات رسمیت ،روایت ،تقلید جامد ،توہم اور ناترقی پسندی (Obscurantism) تک محدود ہوگئی ‘‘۔ البتہ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ’’ جدید سائنس کے اس رویے پر مدلل تنقید کی ضرورت ہے جس کے تحت سائنس نے ایسا ماحول تخلیق کیا ہے جس کے تحت خدا اور عقیدہ آخرت معدوم ہوگیا ہے ‘‘ ۔
رابطہ :6937700258