’’ می ٹو مہم‘‘ کے چلتےمو دی سرکار کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور ایم جے اکبر پر کئیخاتون صحافیوں نے جنسی زیادتی کے الزامات عائد کئے تو وہ کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہ رہے ۔ وزیراعظم مودی پر رائے عامہ کا دباؤ بڑھا کہ وہ انہیں اپنے منصب سے فارغ کریں۔ نائجریا سے واپس وطن لوٹتے ہی انہوں نے استعفیٰ پیش کیا ۔اللہ کی پناہ، کیا دبدبہ تھا ایم جے اکبر کا! اکبر جو لکھ دیں وہ پتھر کی لکیر، حرف آخر۔ جس سیاستدان کے حق میں اکبر وہ بس پارا اور اکبر جس کے مخالف وہ مٹی۔ جی ہاں،اکبر ہندوستان کے غالباً واحد صحافی رہے ہیں جن کی شہرت محض ہندوستان اور پاکستان ہی تک نہیں محدود تھی بلکہ موصوف دنیا بھر کے چند مشہور ترین صحافیوں میں سے ایک رہے ہیں۔ پھر یکایک اکبر کو سیاست کا شوق ہوا اور وہ کچھ دن کانگریس میں رہے، بعدازاں واپس میدان صحافت میں آئے اور اپنے جوہر دکھائے اور آخر مودی کی قیادت میں بی جے پی میں شامل ہو گئےاور وزیر مملکت بھی ہو گئے۔صرف صحافی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے عالمانہ طبقہ کو اکبر کی بی جے پی میں شمولیت کے فیصلے نے محو حیرت کر دیا۔ جواہر لال نہرو اور راجیو گاندھی جیسے لبرل قائدین کے دلدادہ اکبر گجرات فسادات کے الزام میں گھرے نریندر مودی کو آخر اپنا قائد کیسے بنا بیٹھے یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اصولوں اور انصاف کا قلمی ڈھنڈورا پیٹنے والے اکبرکے بارے میں کسی کو یہ سمجھ نہ آیا کہ کل تک لبرلزم اور سیکولرزم کے علمبردار کو آخر سنگھ اور بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست میں کیا گُن نظر آئے کہ وہ مودی کے ساتھ ہو لئے! ویسے بھی ان کے پاس ایسی کون سی چیز تھی کہ جس کی کمی رہی ہو، شہرت اللہ نے ان کو جی بھر کے دی، کامیابی کا یہ عالم کہ انھوں نے جس اخبار یا میگزین کو چھو ا وہ آسمان پر پہنچ گیا۔ گھوڑا، گاڑی، مکان، فارم ہاؤس دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال اکبر کو کسی شئے کی ضرورت نہیں تھی لیکن بقول ان کے نقادوں کے ہوس نے اکبر کو مارا۔چنانچہ جی ٹو مہم کےچلتے 7-6 خاتون صحافیوں نے اکبر پر جنسی زیادتیوں کے جیسے گھناؤنے الزام لگائے ہیں ان سے تو کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ اکبر کو اپنی ہوس نے مارا۔ سیاست کی تو اصولوں سے پرے اور جنسی بھوک کے شکار ہوئے تو حد سے گزر گئے۔ مسلم عورتوں کے حقوق کی دَم بھرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی اکبر کو حکومت سے باہر کرنے میں آنا کانی کر نہیں سکتی تھی۔ اکبر کے عروج و زوال کو دیکھ کر قرآن کی یہ آیت یاد آئی’’ اللہ جس کو چاہے عزت دے اور اللہ جس کو چاہے ذلت دے‘‘۔ اکبر کو اللہ نے عزت دی تو آسمان پر بٹھا دیا اور اب جب ذلت دی تو ان کے لیے زمین میں بھی دھنسنے کی کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔
خیر اکبر می ٹو الزام کے تحت جلد ہی کیفر کردار تک پہنچے لیکن ان پر اور معرف بالی وڈ اداکار نانا پاٹیکر جیسے لوگوں پر لگے ’می ٹو‘ کیمپین نے جنسی ہوس کا جو مسئلہ کھڑا کیا ہے ،وہ انتہائی سنگین ہے۔ دراصل اس کیمپین کی شروعات ٹھیک ایک برس قبل امریکہ میں ہالی ووڈ فلمی دنیا سے شروع ہوئی جس میں وہاں کی اداکاراؤں نے ایک مشہور ڈائریکٹر ہاروے وینسٹین پر یہ الزام لگایا کہ اپنی کامیابی کے نشہ میں ڈوبا یہ فلم ساز کیسے جوان اداکاراؤں کے ساتھ اپنی جنسی بھوک کا ناجائز استعمال کرتا تھا۔ اکثر واقعات برسوں پرانے تھے لیکن ان کا دنیا بھر میںشور وغل مچ گیا۔اس سےحوصلہ پاکر دنیا بھر میں عورتوں نے اپنا منہ ان ہوس مردوں کے خلاف کھولنا شروع کر دیا جنہوں نے ان کی آبرو ریزی کی ۔ متاثرہ خواتین نے اپنی آپ بیتی سنانی شروع کر دی تو سن کر لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ اس طرح ’ہیش ٹیگ می ٹو‘ یعنی’ ’میں بھی اس میں شامل ہوں‘ ‘موؤمنٹ دنیا بھر میں چل پڑی۔ اب یہ موؤمنٹ ہندوستان میں اپنا شور بپا کیے ہوئی ہے۔ فلم انڈسٹری، میڈیا، ٹی وی، ایڈورٹائزمنٹ ہی کیا، ہر کاروباری شعبہ میں اس تحریک کا شور ہے اور ایک ایک کر کے بڑے بڑے بت گر رہے ہیں۔ میدان سیاست کا سرکردہ چہرہ ایم جے اکبر فی الحال اسی تحریک کے سب سے بڑے شکار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد نے عورت کو ہمیشہ اپنے سے کم تراور اکثر اپنی جنسی لونڈی سمجھا لیکن پھر عورتیں اس بے انصافی کے خلاف جدوجہد کر مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوتی گئیں۔ حد یہ ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں عورت زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کی طرح کھڑی نظر آئی لیکن چند افراد نے اس آزادیٔ نسواں کا غلط فائدہ اٹھایا اور اپنے اقتدار اور اعلیٰ عہدے کے زعم میں عورت کا جنسی استحصال کر نا شروع کر دیا۔ چونکہ عورت کو نوکری اور ترقی چاہیے تھی، اس وجہ سے اکثر کچھ متاثرہ عورتیں ذہنی اذیت سہہ سہہ کر خاموش رہیں لیکن کچھ ایک نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر جا بیٹھنا مناسب سمجھا۔بہرصورت یہ اکیسویں صدی ہے، یہ اسمارٹ فون کا دور ہے۔ آج کی لڑکی ناری ہر شئے کی طرح بدل چکی ہے۔ اس کو روزگار بھی چاہیے اور عزت بھی۔ اس اکیسویں صدی کی عورت گھٹ گھٹ کر جینے کو تیار نہیں ہے۔ ’’می ٹو‘ ‘موؤمنٹ اس برہنہ حقیقت کی دلیل ہے ۔اس لئے یہ چاہے ایم جے اکبر ہوں یا نانا پاٹیکر یا کوئی اور ہستی، آج کی دنیا میں جنسی بھیڑیوں کی جگہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔عورت اتنی ہی قابل احترام مانی جاتی ہے جتناکہ مرد۔ اس جمہوری دنیا میں دونوں کو بالکل برابر ی کے اختیار ات حاصل ہیں۔ ان میں سے کسی کو کسی کا جنسی یا کسی اور قسم کا استحصال کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ اختیار اب محض آئین تک محدود نہیں رہ سکتا بلکہ اب اس اختیار کو آج کی عورت ہر صورت میں لے کر رہے گی۔ اگر کوئی اس کو یہ اختیار دینے کو تیار نہیں تو اس کو اس کے برےنتائج اُسے بھگتنا پڑیں گے۔ ’’می ٹو‘‘ کی اخلاقی برتری اور موزونیت قائم رہ سکتی ہے اگر اسے کسی کو خواہ مخواہ بدنام کر نے، بلیک میل کر نے یا انتقام گیری کا ہدف بنانے میں استعمال نہ کیا گیا ۔ اس سے ہر کسی چھپے مجرم کا احتساب ہوگا اور عورت کو اس کا حق و انصاف مل کر رہے گا۔ حقوق نسواں کی اس جدوجہد میں ماں بہن بیٹی کی تو قیر جاننے والاہر باشعور شہری اس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شانہ بہ شانہ چلنے کو بھی تیار کھڑا ہے۔ بالیقین’ ’می ٹو‘‘ کے پرچم تلے اپنی عظمت کی آگہی رکھنے والے عورت نے اپنے عزت وآبرو کے دفاع کی جو تحریک شروع کی ہے وہ کامیاب ہوگی اور یقین یہی کہتا ہے کہ روزی روٹی اور کام کاج کے نام پر عورتوں کے جنسی استحصال کا جوچلن وبائی صورت اختیار کر گیا ہے وہ بھی ختم ہوگا۔