سرینگر// کولگام میں جنگجوئوں اور فوج کے درمیان جھڑپ کے بعد بارودی گولہ پھٹنے سے7 شہریوں کی ہلاکت کو پولیس نے’’معیاری عملیاتی طریقہ کار‘‘ کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کولگام کے لارو علاقے کے جنونی نوجوانوں نے فورسزکو جائے جھڑپ کو صاف کرنے کی اجازت نہیں دی،جبکہ مکان سے عسکریت پسندوں کی نعشوں کی بازیابی کے بعد وہ سکینڈوںمیں مکان میں داخل ہوئے۔تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک گھنٹے کے بعد مکان میں داخل ہوئے۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ کمسن نوجوان سمیت دیگر7نوجوانوں کی ہلاکت کو ٹالا جا سکتا تھا،اگر انہوں نے پولیس کی طرف سے جاری ایڈوائزری پر کان دھرا ہوتا،جس میں تجویز دی گئی تھی کہ لوگ اس وقت تک جائے جھڑپ کے نزدیک نہ آئے جب تک بغیر پھٹے گولہ بارود کو صاف یا ضایع نہ کیا جائے۔
فورسز کا دانستہ عمل
لاروکولگام کے مقامی لوگوں نے فورسز پر اس بات کا الزام عائد کیا ہے کہ وہ جائے جھڑپ کو بغیر پھٹے بارودی مواد سے صاف کئے بغیر کس طرح وہاں سے چلے گئے؟۔مقامی شہری عبدالطیف کا کہنا ہے’’ یہ فورسز کی طرف سے دانستہ عمل ہے،ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ وہ لوگوں میں خوف دہشت پیدا کرنا چاہتے ہیں،کیونکہ جنوبی کشمیر میں طویل عرصے سے یہ ہو رہا ہے کہ مالک مکان کی مدد کیلئے لوگ اس جگہ کا رخ کرتے ہیں،تاکہ ملبے سے ٹین،اینٹوں اور لکڑی کے علاوہ دیگر ساز و سامان کو الگ کیا جائے‘‘،انہوں نے مزید کہا کہ جھڑپ قریب10بجے ختم ہوئی اور مقامی لوگوں نے دھماکے کی گونج قریب11بجکر30منٹ پر سنی۔لطیف کا کہنا تھا ’’فورسز کے دعوئے میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے کہ نوجوان جھڑپ کے اختتام ہونے کے ساتھ ہی مکان میں داخل ہوئے‘‘۔ ایک اور مقامی باشندے عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ہم نے7نوجوانوں کو کھویا اور درجنوں زخمی ہوئے۔انہوں نے کہا’’حقیقت یہ ہے کہ فورسز اور نوجوانوں کے درمیان جھڑپیں جائے جھڑپ سے بہت دور ہو رہی تھیں۔اور فورسز کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ جائے جھڑپ کو مکمل طور پر صاف کرتے۔
ایس او پی کی خلاف ورزی نہیں
ریاستی پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ فورسز کولگام جیسے واقعات سے بچنا چاہتے ہیں۔ترال میں گزشتہ روز ایس ایس بی اہلکار کی ہلاکت پر انکی گلہائے عقیدت کی تقریب کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کو چاہے کہ وہ جائے جھڑپ سے دور رہیں۔ دلباغ سنگھ نے کہا’’ یہ بدقسمتی کا ایک واقعہ تھا،اور ہمیں اس پر افسوس ہے۔انکا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی جھڑپ ختم ہوتی ہے تو جائے جھڑپ کے نزدیک بغیر پھٹے بارودی مواد ہونے کا احتمال ہوتا ہے،اور لوگوں،بالخصوص نوجوانوں کو چاہے کہ وہ ایسے مقامات پر جانے یا ملبہ ہٹانے سے پرہیز کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی لوگوں کو اس طرح کے مقامات سے دور رہنے کی ہدایت دی ہے۔ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ فورسز جنگجوئوںمخالف آپریشنوں کے دوران شہری ہلاکتوں سے بچنا چاہتی ہے،تاہم لوگوں کو بھی چاہے کہ وہ ایسی صورتحال پیدا کرنے سے بچییں،جس سے انہیں نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ دلباغ سنگھ کا کہنا تھا’’ ہم ایسے واقعات نہیں چاہتے،اور ہم نے تمام فورسز کو ہدایت دی ہے کہ جنگجومخالف آپریشنوں کے دوران شہری ہلاکتیں نہ ہوں،تاہم لوگوں کو بھی چاہے کہ ایسی صورتحال بپا نہ کریںجس کی وجہ سے معصوم جانیں ضائع ہوں‘‘۔ پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس سیکورٹی اور امن قانون منیر احمد خان نے تاہم کہا کہ کولگام واقعے میں معیاتی عملیاتی طریقہ کار کی کوئی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔منیر احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے،تاہم اس وقت ہلاکتوں کی تعداد زیادہ تھی‘‘۔ان کا کہنا تھا ’’ یہ واقعہ اس لئے پیش آیا کہ جب جیش کے3جنگجوئوں کی نعشو ں کو برآمد کیا گیا تو نوجوانوں کے گروپ فوری طور پر اس مکان میں داخل ہوئے،جبکہ ہم نے بار بار لوگوں سے اپیل کی کہ وہ جائے جھڑپوں کا رخ نہ کریں‘‘۔منیر احمد خان نے بتایا کہ نوجوان اس مکان میں داخل ہوئے جہاں صرف30منٹ قبل ہی تصادم آرائی اختتام پذیر ہوئی تھی۔ اس دوران ایک سنیئر پولیس افسر سے پوچھا گیا کہ جائے جھڑپ کو بارودی مواد سے کیوں صاف نہیں کیا گیا،تو انہوں نے کہا کہ نوجوانوں نے انہیں اس بات کا موقعہ ہی فراہم نہیں کیا۔انہوں نے کہا’’ہم جائے جھڑپ سے چلے گئے اور نوجوان اندر داخل ہوئے،اور جنوبی کشمیر میں یہ ان کی عادت بن چکی ہے،اور گزشتہ روز اس عمل سے7 جانیں ضائع ہوئیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس نے تب تک علاقے میں امن و قانون قابو میں کیوں نہیں رکھا،جب تک نہ جائے جھڑپ کو صاف کیا جاتا تو انہوں نے کہا’’ گزشتہ روز کی جھڑپ کے دوران ہر طرف سے پتھر برس رہے تھے،اور اگر ہم اضافی اہلکاروں کو جائے جھڑپ کے نزدیک تعینات کرتے،تو اس سے امن و قانون کی صورتحال پیدا ہوتی اور مزید شہری ہلاکتوں کا احتمال ہوسکتا تھا۔ان کا کہناتھا کہ کولگام جیسے واقعات سے بچنے کیلئے صرف یہ راہ ہے کہ لوگ ان مکانوں میں جانے سے پرہیز کریں جہاں جنگجوئوں کو جھڑپ کے دوران ہلاک کیا جائے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ پولیس کو اس بات پر کیوں یقین ہے کہ7 شہری جنگجوئوں کے باردوی مواد سے ہی ہلاک ہوئے تو انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ مکان کے اندر جنگجو تھے فورسز اہلکار نہیں۔
ایس او پی صرف کاغذی
بشری حقوق کارکن محمد احسن اونتو نے انسانی حقوق کے ریاستی کمیشن میں ان ہلاکتوں سے متعلق درخواست پیش کرتے ہوئے واقعے کی باریک بینی کے ساتھ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔اس سے قبل بھی اونتو نے پولیس اور دیگر فورسز ایجنسیوں کی طرف سے جنگجو مخالف آپریشنوں اور احتجاجی مطاہروں کے دوران معیاری عملیاتی طریقہ کار کی خلاف ورزی کیلئے کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے،جس کے دوران سرکار نے11نقاط پر مشتمل معیاری عملیاتی طریقہ کار کی کاپی کمیشن میں پیش کی۔ اونتو کا کہنا ہے’’ ایس ائو پی میں یہ بات درج ہے’’ جائے جھڑپ میں کتنابھی بڑا احتجاج کیوں نہ ہو،فورسز جائے جھڑپ کو صاف کر کے نہیں جا سکتی‘‘۔ام کا کہنا تھا ’’ احتجاجی مظاہرین سے نپٹنے کے دوران فورسز اہلکاروں کو مذاکرات،مداخلت اور قائل کرنے کی کوشش کے علاوہ انتباہ کا طریقہ کار بروائے کار لانا ہے،اور اگر اس میں وہ ناکام ہو تو اس کے بعد وہ تیز پانی والی دھار کا استعمال کرسکتے ہیں،جس کے بعد انہیں اشک آوار گولوں کا استعمال کرنا ہے‘‘۔اونتو کا کہنا تھا کہ اگر اشک آوار گولے بھی کار گر ثابت نہ ہو،اس کے بعد فورسز کو لاٹھی چارج کرنا ہے،اور اگر اس سے بھی مظاہرین منتشر نہ ہوئے تو پانچویں مرحلے پر ربڑ کی گولی،اور اس کے بعد چھٹے مرحلے پر پپمپ بندوق جو ڈفلیکٹروں سے لیس وا،اور آخر میں گولی کا استعمال کرنا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں تاہم اس کے برعکس کیا جاتا ہے اور’’فورسز آخری مرحلہ یعینی گولی کا استعمال پہلے ہی مرحلے میں کرتے ہیں جو کہ ایس ائو پی کی مکمل خلاف ورزی ہے‘‘۔