فن سیرت میں جن مورخین اور سیرت نگاروں کو صف اول میں جگہ حاصل ہے ان میں محمد بن عمر الواقدی ؔ رحمہ اللہ کا نام سب سے نمایاں اور روشن ہے۔ یہ وہ شخصیت ہے جس نے مغازی پر ساری معلومات جمع کرکے ہمارے سامنے اس طرح پیش کردی کہ آج تمام غزوات اور عہد نبویؐ کی فوجی مہمات کی رُوداد اس طرح ہمارے سامنے ہے جیسے کسی کے سامنے فلم دکھا دی جارہی ہو ۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر یہ کہا جائے کہ مغازی سے متعلق تمام روایات کو یکجا کرکے ایک مرتب نقشہ کی شکل میں پیش کرنے کاکام جن عظیم بزرگ نے سب سے پہلے کیا ہے وہ ابن عمر الواقدی ہیں تو بے جا نہیں ہوگا۔
ولادت باسعادت اور ابتدائی تعلیم :
واقدی کی ولادت باسعادت عہد نبویؐ کے مذہبی وسیاسی مرکز مدینہ منورہ میں ۱۳۰ھ میں ہوئی ،یہ وہ دور تھا جب بنو امیہ کی حکومت اپنے زوال کے انتہا کو پہنچ چکی تھی اور آل عباس عالم اسلام کی قیادت کا باگ ڈور سنبھالنے کے لئے مستعد تھے ۔ اس کااثر یہ تھا کہ برسوں سے چلی آرہی سیاسی ہلچل مدھم پرگئی تھی اور عالم اسلام کو عرصہ کے بعد ایک سیاسی استقرار نصیب ہوا تھا۔ چناچہ علم و عرفاں کے شیدائی دنیا کے گوشہ گوشہ سے عقیدت مندانہ قلب وجگر کے ساتھ مدینہ منورہ کا رُخ کر رہے تھے،جو کہ اس دور میں اجلہء صحابہ کرام ؓ کی اولاد ،ارکان بیت نبوت اور حفاظ سنت وجملہء علوم نبویہ سے مملوتھا ۔چنانچہ واقدی نے ان علمی سرچشموں سے خوب کسب فیض کیا اور حجاز کے تمام اساطین علم وفن کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔بعد ازاں واقدی نے مالی خسارہ کی وجہ سے بغداد کا بھی سفر کیا جو عہداوائل بنوعباسیہ میں مختلف علوم وفنون کے مرکز کی حیثیت رکھتاتھا۔چنانچہ اس سفر نے ان کی علمی عظمت واجلال میں چار چاند لگا دئے اور پھر علمی دنیا میں ایک ایسا سر کردہ مورخ سامنے آیاجس کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کی درخواست جب بصرہ کے حافظ الحدیث ابو عامر العقدی سے کی گئی تو انہوں فرمایا کہ ـواقدی کی شخصیت کے بارے میں ہم سے پوچھا جارہا ہے ،حالانکہ واقدی سے ہم محدثین کے حالات دریافت کئے جاتے تھے، ان کا تو معاملہ یہ تھا کہ مدینہ کے تمام شیوخ اور ذخیرہ احادیث سے ان کے سوا ہمیں کوئی مستفید نہیں کرتا تھا ۔ یہی درخواست مشہور محدث دراوردی کے سامنے پیش کی گئی تو جیسا کہ خطیب بغدادی نے ذکر کیا ہے، تو انہوں نے فرمایا کہ’’ تم مجھ سے واقدی کے بارے میں پوچھتے ہو حالانکہ واقدی سے ہمارے حالات دریافت کرو‘‘
تاریخ سے دلچسپی سیرت نگاری سے عشق:
ابن عمر الواقدی رحمہ اللہ کا رجحان ابتدا ء ہی سے تاریخ کی طرف تھا اور غالبا یہ ذوق انہیں کابراعن کابرحاصل ہوا تھا ،اس کے علا وہ حدیث اور فقہ کی تعلیم انہوں نے اس عہد کے جیدترین علماء اور اصحا ب مشیخت سے حاصل کی تھی جس سے ان کی استنادی حیثیت اس قدر قوی ہوگئی تھی کہ مشہور ماہر انساب اور حواری رسول ﷺ حضرت زبیرؓ بن عوام کے گھرانہ کے عظیم شہرت یافتہ محدث مصعب زبیری رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ ــ’’خدا کی قسم ہم نے ان کے مثل کسی کو نہیں دیکھا‘‘واقدی کے حصول علم کا ایک نایاب طریقہ یہ تھا کہ صحابہ کرام ؓ کے خاندانوں میں جاکر ایسے شخص کے بارے میں دریافت کرتے تھے جو مغازی کا علم رکھتا ہو، پھر اس سے جاکر ملتے اور واقعات کی تفصیلات پوچھتے ،غزوہ کے موقع پر جاکر اس جگہ کا خود مطالعہ اور مشاہدہ کرتے تھے،اس طرح مغازی سے متعلق جغرافیائی چیزوں کو بھی ضبط تحریر میں لاتے اور اس جگہ کا مکمل نقشہ پیش کرتے ،اس چیز نے واقدی کو ان کے ہم عصر محدثین اور سیرت نگاروں کے درمیان ایک نمایاں اور ممتاز مقام عطا کر دیاتھا۔
واقدی محدثین کی عدالت میں :
لیکن ان سب کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ واقدی کی شخصیت علمائے جرح وتعدیل کے درمیان کافی متنازع فیہ رہی ہے ۔محدثین کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو انہیں ضعیف گردانتی ہے،بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تو فرمایا کرتے تھے کہ واقدی حدیثیں اُلٹ پھیر کر بیان کرتے ہیں۔در اصل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جن کا شمار محتاط محدثین میں ہوتاتھا،نے صرف واقدی کو ہی ضعیف نہ قرار دیا بلکہ ان جیسے وہ تمام مورخین اور ارباب سیرت جو ہر راوی کا الگ الگ بیان نقل کرنے کے بجائے سب راویوںکی معلومات کو یکجا کرکے بیان کرتے تھے وہ اُن کی نظر میں غیر مستند تھے۔اس کی مرکزی وجہ یہ تھی کہ محدثین کیلئے ایسی کتابوں میں یہ تعین کرنا دشوار ہوجاتا تھا کہ اس پوری روایت بلکہ قصہ یا مجموعہ ٔ روایت میں کون سا لفظ کس راوی نے بیان کیا ہے،لیکن واقدی نے خود اپنے اس طریقہ تصنیف کی وجہ یہ بتائی کہ اس سے واقعات کا تسلسل اور مرتب و مربوط انداز قائم رہتا ہے ۔اکابرمحدثین جن میں امام نسائی ،شافعی ،احمد بن حنبل ،علی بن المدینی ،اسحاق بن راہو (رحہم اللہ) ا وردیگر سرکردہ علماء کا نام نامی شامل ہے، کی ان تحفظات کے باوجود علمائے وصلحائے اُمت کی ایک بڑی جماعت نے و اقدی کو عادل ،مستند اور ثقہ قرار دیا ہے ۔اس فہرست میں امام صغانی ،محمد ذہلی ،مصعب زبیری ، یزید بن ہارون ،ابراہیم الحربی ، القاسم بن سلام (رحہم اللہ )،ودیگر کا نام قابل ذکر ہے۔ امام ذہلی تو قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ اگر واقدی ہمارے نزدیک مستند نہ ہوتے تو ائمہ اربعہ ان سے کبھی حدیثیں بیان نہ کرتے ،البتہ اس کی صفائی دینا دشوار ہے کہ بعض تاریخوں کے بارے میں واقدی کی تحقیق نظرثانی کی محتاج ہے۔
کتاب المغازی :
واقدی نے بہت ساری قابل قدر تصنیفات چھوڑی ہیں۔ابن ندیم نے ’’الفہرست‘‘ میں واقدی کی ۲۷؍ تصنیفات کا ذکر کیا ہے،البتہ ان سب میں’’ کتاب المغازی ‘‘کو واقدی کی شہرت کا سنگ بنیاد ماناجاتاہے۔اس کتاب کو واقدی نے جس جانفشانی اور عقیدت ومحبت کے ساتھ جمع کیا ہے وہ اس کے حرف حرف سے عیاں ہوتاہے ۔اس کتاب کے ابتدائی دس صفحات میں واقدی نے پہلے تمام غزوات کا ایک خلاصہ پیش کیا ہے،اس میں ۲۷ ؍غزوات اور ۴۷؍ سرایاکا ذکر موجود ہے ۔غزوہ بدر کا بیان اس کتاب کے ۱۵۳ صفحات پر مبسوط ہے جوکہ سیرت کی کسی بھی کتاب سے زیادہ مفصل ہے،اس کے علاوہ اس کتاب کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزوات وسیر پر فقہی آراء پیش کی ہیں ۔وہ خود حدیث کے بڑے عالم تھے اور اختلاف حدیث پر کتاب بھی لکھی ہے،ان کے تلامذہ خاص میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والے مشہور محدث ،مورخ اور’’ کتاب الطبقات‘‘ کے مصنف ابن سعدرحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ واقدی مغازی ،سیرت ،فتوحات ،احکام اور علماء کے اجماعی واختلافی مسائل کے بڑے عالم تھے۔واقدی کی سیرت اس اعتبار سے بھی قابل قدر ہے کہ اس میں عہد نبویؐ کے بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت کا مفصل ذکر ہے۔اس موضوع پر واقدی کی ایک مستقل تصنیف بھی ہے جو آج ہمارے پاس دستیاب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی ضخیم تصنیف ’’کتاب الام‘‘ کی چوتھی جلد میں سیر الواقدی کے نام سے اس کو محفوظ کرلیا ہے۔’’کتاب المغازی‘‘ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ واقدی نے ضمنا بہت ساری ایسی معلومات جمع کردی ہے جس سے اس عہد کے مدینہ منورہ کی عام معاشرتی زندگی اور ثقافتی امور پر روشنی پڑتی ہے۔مثال کے طور پر اس دور میں قافلے اور تجارتی کاروان کیسے جایا کرتے تھے،مدینہ منورہ میں زراعت کا نظام کیسا تھا،کون کس زمین کا مالک تھا،زمین میں کیا کاشت ہوتاتھا،یہودیوں کے پاس کون سی زمینیں تھیں،کن کن قبائل کے ساتھ کون کون سے قبائل کی تجارت تھی وغیرہ ۔یہ معلومات اگرچہ کوئی خاص دینی اہمیت نہیں رکھتیں لیکن تاریخی دلچسپی کے پیش نظر واقدی نے ان کوبھی محفوظ کردیا ہے۔’’کتاب المغازی‘‘ ایشیاٹک سوسائٹی بنگال میں ۱۸۵۵ء میں چھپی تھی۔اس کتاب کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں ۔اردو میں بھی اس کا ترجمہ شائع شدہ ہے۔
انتقال پر ملال:
واقدی کی تاریخ وفات کے سلسلہ میں کئی سارے اقوال مذکور ہیں ۔ابن خلکان نے ذکر کیاہے کہ ان کی وفات ۲۰۶ھ میں ہوئی ہے،جب کہ ابن سعد نے ۲۰۷ھ کا ذکرکیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ واقدی کی وفات بغداد میں سہ شنبہ کی شب ذی الحجہ کی گیارہویں تاریخ ۲۰۷ھ میں ہوئی ،اورسہ شنبہ کے دن میںمقام خیزران میں ان کی تدفین عمل میں آئی ۔ ابن سعد کی یہ رائے ابن قتیبہ ،ابن ندیم ،سمعانی اور ابن عساکر کی رائے کی بھی موافقت کرتی ہے، لہٰذا اسی کو راجح قول مانا گیا ہے