آج آر ایس ایس اور دیگر کٹر ہندوتوادی عناصر اپنے دورِ عروج میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کو قبول کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے سے کھلم کھلا انکار کررہے ہیں۔ گوکہ راجیو گاندھی کے دور میں شاہ بانو کے بدنام زمانہ کیس کی مخالفت کی گئی تھی لیکن مسلم علماء اور دانشور یہ مسئلہ لے کر سڑکوں پر اس طرح نہیں نکل آئے تھے جس طرح سبری ملا مندر میں ہندووتوادی عناصر سڑکوں پرنکلے ہیں۔ راجیو گاندھی نے قانون سازی کے ذریعے پارلیمان میں قانون پاس کرکے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کردیا تھا لیکن سبری ملا کی مندر میں خواتین کے داخلہ پر لگی پابندی کو توڑنے کے لئے عوامی مظاہروںبلکہ تشدد آمیز مظاہروں کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ کیا یہ کھلی توہین عدالت نہیںہے ؟ مبصرین کی رائے میں سپریم کورٹ کے سبری ملا کے فیصلہ کی مخالفت بظاہر خواتین کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت کی وجہ سے کی جارہی ہے مگر اس کا در پردہ مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب سے سپریم کورٹ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ بابری مسجد کے مقدمہ کا فیصلہ صرف اور صرف ’’حق ملکیت’’Right of Property‘‘کی بنیاد پر کیا جائے گا نہ کہ کسی اور بنیاد پر(آستھایا عقیدہ!)، کٹرپنتھیوں کی نیندیں اُچاٹ گئی ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ عدالتی فیصلے دستور کی روشنی میں کئے جاتے ہیں نہ کہ روایات اورمن گھڑت مفروضوں کی بنا پر۔ چونکہ یہ ایک مسلم الثبوت امر ہے کہ جس جگہ بابری مسجد قائم تھی، اس جگہ سری رام چندر جی کی پیدائش کا کوئی ثبوت رام مندر بنانے کا آندولن چلانے والے پیش نہیں کرسکے ہیں۔ 2010 ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو اسی بناپرسپریم کورٹ نے عجیب و قریب اور ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کردیا تھا کیونکہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اپنا فیصلہ مفروضوں اور روایات کی بنیاد کیا تھا۔ بابری مسجد کی زمین کا فیصلہ حق ملکیت کی بنیاد پر کرنے کا اعلان نے سپریم کورٹ میںرام مندر بنانے کا دعویٰ پیش کرنے والوں کو بے آرام کیا ہوا ہے کیونکہ حق ملکیت کے بجائے اُن کے پاس صرف عقیدے یا آستھا کا سہارا رہ گیا ہے۔ اس خطرہ کے پیش نظر کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں آسکتا، ان لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی مخالفت کو اپنا شعار بنادیا ہے۔ سبری ملا کے فیصلہ کی مخالفت اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے تاکہ کل اگر بابری مسجد کا فیصلہ ان کے لئے قابل قبول نہ ہو تو اس کی یہ کہہ کر مخالفت کی جاسکے کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کی مخالفت ہوناکوئی نئی بات نہیں۔ اصولی طور سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عدم اطمینان ظاہر کر نے پر ایک مستند طریق کار عدالت عظمیٰ میں ہی نظرثانی کی عرضداشت پیش کرنے کا ہے لیکن اس کے بدلے ہنگامے کئے جائیں یا توڑ پھوڑ کیا جائے تو کیا کہئے۔ ان ہنگاموں کا ایک اور ذیلی مقصد یہ بھی بتا یا جاتاہے کہ کیرالہ میں کٹر ہندوتو عناصر کو بی جے پی کا ہم نوا بنایا جاسکے کیونکہ کیرالہ وہ ریاست ہے جہاں مدتوں کوشش کے باوجود بھاجپا کے پیر جم نہیں سکے ہیں۔ اس لئے سنگھ پریوار کیرالہ پر اس بار خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ سنگھ کی ان حرکات کو کامیاب نہ ہو نے دینا چاہیے تاکہ مستقبل میں سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کی مخالفت کر نے کی ہمت کوئی اور نہ کرسکے۔