ہم تو کولگام کا سوگ ہی منا رہے ہیں۔ماناکہ یہ ضلع ’’کولہ گوم‘‘ ہے یعنی ندی نالوں کی آ ماج گاہ ۔ہم تو اس کے شفاف پانیوں کی تعریف کرتے مگر ہمیں کیا پتہ تھا کہ انہی ندیوں میں تازہ میٹھے پانی کے بدلے انسانی خون رواں ہوگا۔تیر وتلوار کی جھنکار سنتے ہوئے کسے معلوم تھا دہشت و وحشت کا خون خوار دیو چشم زدن میں سات جانوں کو نگل جائے گا۔ایسے میں وزیر داخلہ راج ناتھ نے چپکے سے ملک کشمیر کے گلیاروں میں داخل ہو کر یہاں کی سیاسی بھول بھلیوں کا سیر سپاٹا کیا، فراغت ملی تو دربار عالیہ جمایا، یہاں کے سیاست دان آملے ، صاحبان اقتدار مشرف بہ دیدار ہوئے۔ مالکانِ تیرو سنان نے اپنی داخلی حالت کا گوشوارہ پیش کیا کہ وہ کیسے کیسے اہل کشمیر کی رَگ رَگ میں گھس کر خون نچوڑ لیتے ہیں کہ روز جنازے اُٹھتے ہیں ، جگر گوشے کٹے ہوئے پیڑوں کی طرح فرش ِزمین گر جاتے ہیں ،کہیں پیلٹ ،لاٹھی، بندوق کے بٹوں سے ان کے اندرون و بیرون کا سرمہ بناتے ہیں اور اب تو کولگام میں بم بارود ایسا پھٹا کہ درجن بھر وہیںڈھیر ہوئے اور الزام ان ہی پر لگا جو اپنی اٹھتی جوانی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم نے الزام کا تانا بانا کچھ اس طرح بُن لیا تا کہ دنیا مانے کہ جوشیلے نوجوانوں کو اپنی زندگی پیاری نہ تھی ، اس لئے جان بوجھ کر آشیانۂ بارود میں جا گھسے، جہاں سے بس موت کا فرشتہ پاش پاش کر کے اپنے شکار کو چھوڑے۔ خیر یہ تو صاحبان اختیار و اقتدار کا داخلی معاملہ ہے کہ کس طرح بات کو کیا موڑ دیں ، بیان کو کہاں مروڑ دیں، الفاظ کو سکیڑ دیں تاکہ حالات کی داستان من موافق جھنجوڑ دیں۔بھلے ہی کوئی کان دھرے نہ دھرے مگر کوئی کوئی ستم گر پوچھتا ہے بھئی یہ خاکی پوش کولگام میں میدانِ جنگ کی صفائی کرائے بغیر نکل گئے، مگر کیوں؟کس کے آدیش پر بم بارود کا معاینہ ملاحظہ کرنے کے بجائے انہوں نے جیت کا جشن منایا؟بنگڑے ڈالے؟ لفظوں کے جامے میں کامیابی کا ڈول تاشہ بجائے ؟ مبارکباد یاں شاباشیاں بٹوریں ؟ وہ اصل کام کیوں نہ کیا جو افسپا کی مہربان دیوی نے اُن کے سپر د کر دیا ہے کہ جھڑپ کے بعد ملبہ چھا ن مارنا۔ بھائی لوگو! یہ سوال عام خام کی بے تکی ہے ، کشمیری لوگ بھلا کس کھیت کی مولی ، اُن کی اناپ شناپ کا جواب سرکارِ لاجواب کیوں دینے لگے ؟ انہیں تو صاحبان اقتدار و اختیار عام مولی سمجھ کر پروٹھے میں ڈال کر چٹ کر جا تے ہیں ، پھر ڈکار بھی نہیں لیتے بلکہ پیٹ پر ہاتھ گھما کر ٹانگیں پسار کر یوں دراز جاتے ہیں کہ دیر تک بادِ شکم خارج کرکے آس پاس کے واتاورن کوآلودگی میں اضافہ کرتے ہیں ، یعنی ایک طرف بم بارود ، پاوا شل،مرچی گیس، جو خدا خدا کر کے ان سے بچا وہ پھر انسانی گیس کی بارش سے کہاں بچے؟ہو نہ ہو وزیر داخلہ کو یہ ساری داخلی ڈفلی سمجھ آگئی ہو لیکن کیا کریں داخلہ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ مداخلت بے جا ممکن نہیں ۔ دل جلے کہتے ہیں راجناتھ کیا کریں ،ا نہیں اندر کی بات معلوم ہے کہ داخلی معاملات کے تابع ملک ِکشمیر کی چٹنی بنا کر ہی اگلے الیکشن کی مزیدار ضیافت تیار ہوسکتی ہے اور اس میں اگر ملک کشمیر کے درجنوں کم عمر جوان نمک، مرچ، تیل، مصالحہ جات کے بدلے دیگچی میں انڈیل دئے گئے ہوں تو کوئی گناہ نہیں۔ بقول گبر سنگھ میں کہتا ہوں کوئی گناہ نہیں ؎
لت پت لہو سے ہے اسی قاتل کی آستین
امن و اماں کی کرتا ہے اکثر جو گفتگو
پھر سے وطن کی آن پر قربان ہوئے پھول
یارب ہے تیرے ہاتھ میں گلشن کی آبرو
(مانوس)
خیر یہ تو ارباب ِداخلہ جات کی بات ہے مگر اپنے ہل والے نیشنلی بھی کوئی بقول اہالیانِ کشمیر چھوٹی ماں کے سوپتر نہیں کہ اتنا خون بہے اور وہ احتجاج نہ کریں ۔فوراً لنگر لنگوٹے کس کر میدان کار زار میں اُترآئے۔نیشنلی فوج کے ہیڈ کوارٹر قلعۂ نوائے صبح سے نکل کر کیمپ آفس گپکار کی طرف مارچ کرڈالا اور گورنر سے لے کر دلی دربار تک کو لفظی بارود سے جھنجھوڑ دیا ۔ ’’راج کرے تاج کرے گا، شیر کرے شیر کرے گا ‘‘والا نعرہ ٔکرسی پرستانہ بلند کرکے اس قدر زور زور سے جوتے گھسیٹے کہ پکی سڑک سے بھی دُھول اُڑا دی۔سنا ہے اس مارچ سے تارکول والی دو فرلانگ سیاہ سڑک پر ہل بردار جوتوں کے ایسے گہرے زخم پڑے ہیں کہ دلی کے ایوان اب مرہم کاری کے لئے عالمی ادارۂ صحت سے رجوع کر نے پر غور وفکر کر رہے ہیں۔نیشنلی فوج کے خاصہ بردار دستے کے کماندان اعلیٰ نے یا د دلایا : خبردار! کشمیری خون کا سودا ہمارے بغیر کرنے کا کسی کو بھی حق نہیں، یہ کارخیر کر نے کے جملہ حقوق ہل بردار پارٹی کے پاس بابائے قوم نے تاقیامت محفوظ رکھے ہوئے ہیں، اپنے الہ وانگن کشمیریوں کا پیارا پیارا خون بہانے کا پٹہ بھی نوے برس تک کے لئے ہمارے پاس محفوظ وسلامت ہے، یقین نہ آئے تو آتش چنار کے شعلوں اور ایکارڈ کے ریکارڈ سے دریافت کرو۔اسی لئے تو ۲۰۱۰ میں ہم نے ایک سو چالیس کے قریب لاشیں گرادیں اور (بقول اہل کشمیر سُر بنہِ کاو تہِ ووتھ نہ کہیں سے کوئی آواز گونجی نہ ہم پر خون بہا کا دعویٰ کیا گیا۔
اپنے قائد ثانی کو معلوم ہے کہ دلی دربار کو، بھاجپا سرکار کو، مودی تیز طرار کو، سنگھ پریوار کو، جیٹلی یار کو وہ کس حد تک اپنی لفظی بغاوت کی اداکاری کر سکتے ہیں ، جبھی تو دلی میں انہوں نے بتکرار بھارت ماتا کی جے سے سنگھ کے خشک وسخت دل میں اپنے لئے پیار بھر دیا ۔ قائد ثانی یا نیشنل کا ٹویٹر ٹائیگر خود اس مارچ میں شامل نہ ہوئے بلکہ نیشنل کے پرانے حاشیہ بردار ، شیر کشمیر کے چہیتے سڑک چھاپ وظیفہ خوار، ہل اور کنول کی یاری کے راز دار دندناتے پھرے ۔دروغ بر گردن راوی جس نے یہ اطلاع دی کہ پولیس والوں کو بھی ہدایت ہی نہ تھی بلکہ پیشگی چائے سموسہ کھلایا گیا تھا کہ نیشنل کی پیادہ فوج کو زیادہ دور پیدل جانے کی تکلیف نہ دیں، نہیں تو بیچ سڑک میں تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے کیونکہ کئی برس سے کرسی کے بغیر لاغر وکمزورہوگئے ہیں۔ ستم گر کہتے ہیں کہ بغیر کرسی کے جینا کتنا دشوار ہوتا ہے اور جسم بھی نرم و نازگ گدی کے بغیر کس قدر ناتواں ہوجاتا ہے ، یہ کوئی قلم دوات اور ہل والوں سے ہی نہیں نواز شریف اور زرداری سے پوچھے۔اور کیا پتہ کسی نے نیشنل کے من چلوں کو یہ چبھتا سوال کر ہی ڈالا ہو کہ بھائی لوگو ۲۰۱۸ میں تو احتجاج کرتے ہو بھلا ۲۰۱۰ میں کتنے جلوس نکالے تھے پھر تو ان بے چاروں کی سٹی پٹی گم ہوجائے گی ؎
واہمے چینل و اخبار سے لگ جاتے ہیں
اک نظر پڑتے ہی آزار سے لگ جاتے ہیں
سرف ایکسل سے بھی دھونے سے مٹا کرتے نہیں
داغ جو چہرے پہ سرکار سے لگ جاتے ہیں
اسے ہم کیا عنوان دیںکہ اپنے قلم دوات والوں کو بھی کشمیری خون اب بڑ ا قیمتی بلکہ بیش قیمت لگ رہا ہے ۔جو کبھی دودھ ٹافی لینے گئے اور واپس نہ آئے ،وہ بھی اس دور میں پیارے ،دلارے ،نیارے محسوس ہوتے ہیں ۔چلو اپنا اپنا ٹائم ہے اور ٹائم کے ساتھ کیا کچھ نہیں بدلتا ۔کرسیاں بدلتی ہیں، نام بدلتے ہیں ۔خواب بدلتے ہیں اور خواب دیکھنے والے مرد مومن کی نگاہیں بدلتی ہیں۔شمال و جنوب کا ملاپ بدلتا ہے یعنی بار ش بدلتی ہے اور بدلتی دھوپ ہے ۔واجپائی کی انسانیت اپنارنگ بدلتی ہے ، مودی کی سیاحت روپ بدلتی ہے، یوں اپنے قلم والوں کا الم بدلتا ہے ۔ دوات کے ساتھ اوقات بدلتے ہیں۔اسی لئے تو دودھ ٹافی بھلے ہی چند روپے میں ملتی ہو لیکن لینے والے آج کل بڑے معاوضے کے حقدار دکھتے ہیں ؎
میڈم کا شکریہ نہ کریں لوگ کیوںادا
میڈم کی کوششوں سے یہ دربار بنا ہے
سولہ کا وہ دشمن نارتھ سائوتھ میں
سَن اٹھرہ میں اچانک سردار بنا ہے
اور وہ جو وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہیں ،انہیں تو فی کس کشمیری کے خون کی قیمت پانچ لاکھ سمجھ آتی ہے ۔یوں وہ بھی دیکھا دیکھی میں حاتم صاحب کی قبر پر لات مار کر لہو کا بدلہ سکہ رائج الوقت میں ادا کرنے کا اعلان کرگئے ۔انہیں تو معلوم ہے کہ بہتے لہو کی قیمت ملک کشمیر کا دم بھرنے والی سیاسی پارٹیاں بھی سمجھتی ہیں ،پھر بانہال پار والوں کے کیا کہنے۔ اپنے ملک کشمیر کے ملک صاحب کو آئے دن پکڑ کر جیل تھانے کی بند ہوا میں ہوا نہیں کھانے دیتے پر اُدھر تو بانہال پار سے بھی ایک ملک صاحب اِدھر وارد ہوئے ہیں ۔وہ تو کبھی ملک کشمیر کے جوانوں کی بات کرتے تھے، پر اب تو ملک صاحب کی بات ہی چھو ڑو خود دلی دربار کی گیت سنگیت میں حصہ لینے والے ہل ،قلم، ہتھوڑا برداروں کو بھی چیتائونی دے بیٹھے کہ سرحد پار والوں سے ملک کشمیر کی بات کرنے پر زور دینے کا حق آ پ لوگوں کو بالکل نہیں،یعنی زیادہ ٹر ایا تو دلی کا وظیفہ بند۔حقہ پانی بند۔نان نفقہ بند۔مطلب یہ کہ کشمیر کی بات کی تو روٹی کپڑا مکان سے ہاتھ دھو لو گے پھر دیکھتے ہیں ننگی نہائے کیا نچوڑے کیا۔ہو نہ ہو اسی ڈر سے نیشنل والے ٹویٹر ٹائیگر کو جان بچی لاکھوں پائے کے راستے میں اٹانومی کی دیوی نظر آئی کہ اسی کی دوبارہ پوجا شروع کردی۔اسی داسی کی آرتی اُتارنے میں لگ گئے ، اسی کے اوپر یہ کہہ کر پھول پتیاں نچھاور کردیں : ہے ہماری سیاسی ضرورت ماتا اٹانومی !اب تو ہل کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے ،اسے بچائے رکھو۔ میں تین سو ستر کی مالا تمہارے گلے میں ڈال دوں اور ساتھ میں پینتیس ۔اے کا لوبان پیروں تلے سلگا دوں تاکہ زیرو برج سے لے کر گپکار تک ہل برداروں کے نتھنوںپر قیاسی خوشبو کا چھاپہ پڑے۔
بانہال پار والے ملک صاحب بھی دلچسپ ہیں اور باتیں بھی صاف و شفاف سپر رِن سے دُھلی کرتے ہیں ۔مودی سرکار کے یار جانی امبانی کا انشورنس کور کشمیر سے نا نا کر کے واپس لوٹادیا۔ جبھی تو کہہ ڈالا کہ بات صاف کروں گا تو حریت ہوجائوں گا۔ہو نہ ہو اب کی بار ہڑتال کال دینے سے پہلے حریت کے تکون کو مربع ہونا پڑے گا کہ اس میں چوتھا کونا جمع ہونے جا رہا ہے کیونکہ آج نہیں تو کل ملک صاحب کو سچ بولنا ہی پڑے گا۔ آخر ستیہ جو ٹھہرے۔کچھ عرصے سے گورنر ملک صاحب کہتے رہے ہیں کہ کشمیر معاملے میں دلی دربار سے غلطیاں سرزد ہو ئی ہیں ۔کیا پتہ دیر سویر ہمیں نیوتا دیں چلو مل بیٹھیں ستر سالہ مسئلہ نئی غلطیوں کی نئی شروعات سے حل کرنے کی دماغی ورزش کریں اور آغاز بھی یک عدد محبوب ومقبول ہڑتال کال سے ہی کردیں۔ باقی اللہ مالک!
رابط ([email protected]/9419009169)