اردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان ہے اور اس کو ہم ریاست کی دوسری بڑی زبان بھی کہہ سکتے ہیں او ر یہ بنا کسی شک کے ہندوستان کی دوسری بڑی بولی جانے والی زبان ہے اور ادبی سطح پر بھی اس زبان نے اپنی دھاک بٹھائی ہے ۔ اردو ایک شاندار و وقیع ادبی سرمایہ رکھتی ہے جس نے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنائی ہے ۔ ریاست میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ۱۸۸۹ء میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور حکومت میں ملا ۔ ریاست جموں و کشمیر کے تینوں خطوں میں اگرچہ مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کی اپنی اپنی مقامی ثقاتیں و رسومات ہیں لیکن اردو نے ہمیشہ ان تینوں خطوں کے بیچ رابطے کی زبان کا رول ادا کیا اور ان خطوں کے عوام کو جوڑے رکھاہے۔اور یہی وجہ ہے کہ اردو زبان ان تینوں خطوں میں مقبول ہے اور ان تینوں خطوں سے اردو زبان و ادب کو بہت سے ایسے مشہور و معروف ا دیب و شاعر اورزبان دان نصیب ہوئے ہیںجو اردو دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیںاور اردو کی کوئی بھی تاریخ ان تینوں خطوں کے ذکر کے بغیر پوری نہیں کہی جاسکتی۔
اردو کے حال اور مستقبل کے حوالے سے بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ اردو کی اتنی ترقی کے بعد بھی آج اردو کو کون سے مسائل درپیش ہیں ، بالخصوص ریاست جموں و کشمیر میں۔ان میں سے چند ایک پر مندرجہ ذیل میں بات ہوگی اور ساتھ ہی اس میں کچھ تجاویز بھی پیش کی جائیں گی:
۱۔اردو چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی سرکاری زبان ہے اور یہاں کا بیشتردفتری کام اردو زبان میں ہوتا ہے یا موجود ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست میں ہر سرکاری دستاویز کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ان اہم دستاویزات کو اردو میں بھی دستیاب رکھا جائے تاکہ یہاں کا کم پڑھا لکھا یا انگریزی سے نابلد طبقہ بھی اس کو سمجھ سکے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سرکاری سطح پر ایک ترجمہ سیل کا قیام عمل میں لایا جائے جو بروقت اور بنا کسی دِقت کے تما م سرکاری فرمانوں و دستاویزات کو اردو میں مہیہ رکھے۔
۲۔ ریاست کے بیشتر اسکولوں میں اردو بطور ایک کلیدی مضمون کے پڑھایا جاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سکولی نصاب کو ساتھ ساتھ اپڈیٹ کیا جائے اور اس پر نظر ثانی کی جائے، جن میں نئے نئے ماہرین تعلیم کو مدعو کیا جائے۔عموماََ دیکھنے میں آتا ہے کہ سکولی نصاب بالخصوص دسویں، گیارہویں اور بارہویں پر پچھلے بیس سال سے کوئی نظرثانی نہیں کی گئی ہے۔کتابوں کے جعلی ایڈیشن بھی ایک مسئلہ ہے جس پر روک لگنی چاہیے۔سرکاری کی طرف سے کوئی ایسا میکانزم تیار ہونا چاہیے جس سے اس کالے کاروبار پر روک لگ جائے ا ور ایک طالب علم کے ہاتھ میں صحیح کتاب آ جائے ، جس میں متن درست ہو۔کیوں کہ زبان کا کو صحیح طور پر سیکھنے کا سب سے اہم زینہ ادبی متن ہی ہوتا ہے۔
۳۔اتنی بات تو طے ہے کہ اردو ایک وقیع ادبی سرمایہ رکھتی ہے لیکن ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آج کے دور میں کوئی بھی زبان محض شعر و ادب سے ترقی نہیں کرسکتی بلکہ دوسرے علوم کا اس زبان میں ہونا زبان کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اردو زبان میں دوسرے علوم مثلاََ تاریخ، سیاسیات، معاشرت، عمرانیات، سماجیات وغیرہ جیسے علوم کو بھی میسر رکھا جائے۔اس اہم کام کو انجام دینے کے ریاست میں ایک ترجمہ اکیڈمی کی اشد ضرورت ہے تاکہ دوسرے علوم جو لوگ انگریزی سے نابلد ہونے یا انگریزی کمزور ہونے کی وجہ سے نہیں پڑھ پاتے ہیں، وہ بھی ان علوم کو بآسانی پڑھ سکے۔
۴۔ ریاست میں اردو انجمنیں تو نام کی ہیں لیکن ان کا کیاکارنامہ ہے وہ کوئی نہیں جانتا۔ان کا سب سے پہلاکام یہی ہونا چاہیے کہ سکول سے لے کر یونیورسٹی تک جو نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ اس پر نظر رکھیںاور جدید ضرورتوں اور عصری تقاضوں کو مد نظر رکھ کر اس پر نظر ثانی کروایں اور متعلقین کو اپنی تجاویز سے نوازیں۔اس کے ضروری ہے کہ ان انجمنوں میںکسی بھی فرد کا تقرر قابلیت کی بنیاد پر ہو نہ کہ چاپلوسی یا دلالی کی بنیاد پر، جیسا کہ اردو دنیا میں ہوتا چلا آیا ہے ۔ساتھ ہی اس اہم کام کے لیے ہمیں مختلف وقتوں میں ورکشاپ منعقد کرنے کی ضرورت ہے جس میں بین الاقوامی سطح کے ماہرین کو دعوت دینی چاہیے۔
۵۔جموں و کشمیر میں اب تک جو بھی اردو ادب لکھا جاتا ہے ، جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تمام ادب کو انٹرنیٹ پر دستیاب رکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کسی بھی آفت میں یہ ادب محفوظ رہ سکے۔جیسا کہ ۲۰۱۴ء کے سیلاب میں کشمیر کی مختلف لائبریریاں زیر آب آگئیں اور ان میں موجود ہزاروں کتابیں تباہ ہوگئیں۔ہمیں ایسا دوبارہ ہونے سے روکنا چاہیے۔اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے علمی سرمایہ کو لائبریریوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بھی محفوظ رکھیں۔انٹرنیٹ پر محفوظ رکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس ادب کو دنیا کے کسی بھی کونے میں پڑھا سکتا ہے اور اس کے قارئین میں کروڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔
۶۔اردو تعلیم و نصاب سے متعلق قومی اور ریاستی سطح پر مختلف وقتوں میں سمینار و ورکشاپ منعقد کرنے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ ہندوستان کے اردو کے بڑے بڑے ادارے مثلاََ قومی کونسل فروغ اردو زبان اس میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ان سمیناروں و ورکشاپوں میں مختلف ماہرین کو دعوت دینی چاہیے ۔
۷۔پاکستان کی طرح یہاں بھی ایک سائنس بورڑ کی ضرورت ہے جس میں مختلف ماہر ین سے سائنس سے متعلق کتابیں دوسری زبانوں سے اردو میں کتابیں ترجمہ کرائی جائیں۔ایک بات کی وضاحت کرنا یہاں ضروری ہے کہ اردو دنیا میں ایک غلط فہمی یہ پھیلائی جارہی کہ ترجمہ سے اصل مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔یہ وہی لوگ دہرارہے ہیں جن کا مطالعہ آج بھی دیوان ظفر یا سجاد حیدر یلدرم سے آگے نہیں بڑھا ہے۔ان لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ دنیا میں جس تیزی سے ترجمے ہورہے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔
آخر پر اردو ادب سے متعلق کچھ خیالات پیش کیے جاتے ہیں۔عموماََ ہمارے یہاں یہ غلط فہمی یا جان بوجھ کر پھیلایا گیا جھوٹ یا مغالطہ ہے کہ ادب محض تفریح کا ذریعہ ہے اور جس کا جو جی چاہے وہ لکھے۔ ان باتوں نے اردو معاشرے میں بہت گمراہی اور خامیاں پھیلارکھی ہیں۔محض طوطا مینا کی شاعری اور قنوطیت پرست شاعری سے نہ اردو ادب کا کچھ بھلا ہورہا ہے اور نہ اردو والوں کا۔سب سے پہلی بات تو حیران کرنے والی یہ ہے آپ ایک ایسے نقاد، جو سماجی حالات و مقامی حالات سے نابلد ہے یا سرکاری نقاد سے ادب کے متعلق مشورے لے رہے ہیں جو حکومت کا ٹٹو ہے۔اگر یہ بات ثابت ہے کہ فلاں نقاد سرکاری آدمی ہے یا ’’بیروکریٹک تنقید‘‘ میں وہ کوئی ثانی نہیں رکھتا ہے تو ظاہر سی بات کہ ایسا نقاد یا بکاؤ آدمی ’’چیتن بھگت ‘‘ جیسے ادیب کو بھی نوبل انعام دینے کے حق میں ہوگا۔دوسری بات یہ کہ اس آدمی سے ادب کے متعلق غیر جانبدارانہ رویہ کی امید رکھنا مد فضول سے کچھ نہیں۔ سرکاری و بیروکریٹک تنقید کا نمونہ ملاحظہ ہو:
سرکاری نقاد: اصل بات تو یہ ہے کہ چونکہ وہ (فیضؔ) انقلابی اور ترقی پسند وغیرہ تھے ۔ اس لیے ان کے کلام کو سیاسی معنی پہنانے میں ایک طرح کا لطف ہے۔ورنہ یہی شعر انھوں نے اگر دردؔ کے زمانے یا غالب ؔکے زمانے میں کہے ہوتے تو انہیں کوئی گھاس نہ ڈالتا۔
اس کے جواب میں اردو کے ایک بڑے اور مستند نقاد قمر رئیس کی رائے ملاحظہ ہو: ’’ خواجہ میرؔ چونکہ صوفی اور متصوفانہ خیالات کے مبلغ تھے ،اس لیے ان کے کلام کو صوفیانہ معنی پہنانے میں ایک طرح کا لطف ہے۔ورنہ یہی شعر انہوں نے اگر قلی قطب شاہ کے زمانہ میں کہے ہوتے تو انہیں کوئی گھاس نہ ڈالتا۔‘‘
ایسی ہی مثالیں ہزاروں میں دی جاسکتی ہیں جس کے لیے نہ یہاں وقت ہے اور نہ ہی فضول میں کاغذ خرچ کرنے کی ضرورت۔تنقید پڑھنا یا لکھناکوئی بری بات نہیں لیکن تنقید کی آڑ میں صحیح ادب کو بھلا دینا اور ادب کا غیر جانبدارانہ مطالعہ نہ کرنا ،’’ادب پڑھنا نہیں‘‘ بلکہ ایک وقت گزاری کامشغلہ ہے اور اس میں زیادہ تر دوسروں پراپنی برتری ثابت کرنا شامل ہوتاہے۔دوسرے یہ سمجھ لینا کہ تنقید نگار وہی ہے یا اُسی کی بات ماننی چاہیے یا حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے جس نے تنقید کے موضوع پر ’پی ایچ ڈی‘ کیا ہو، یا جو اتشبیہ و استعارے کی بات کرتا ہو،گمراہی اور جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ایسا وہی لوگ کر رہے ہیں جن کو نہ عالمی ادب سے کچھ واقفیت ہے اور نہ ہی آنے والے وقت میں اُن کی کچھ وقعت رہنے والی ہے اور اُن کے اُدھار کی اینٹوں سے بنائے گئے محل جلد مسمار کیے جائیں گے کہ اب بہت سرکاری و چاپلوسی تنقید ہوگئی۔اب ادب اور اپنے آپ کو سماج و معاشرے کے ساتھ جوڑنے کا وقت آگیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ ادب کا کام محض امن پھیلانا نہیں جیسا کہ یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اردو ادب کو امن پھیلانا ہے یا پھیلارہا ہے۔اگر ہم کچھ منٹ لے لیے مان بھی لیں کہ اردو ادب کو برصغیر میں امن پھیلاناہے تو ایسا کہنے والوں کو پھر ایسی مثالیں پیش کرنی چاہیے جہاں دکھائی دے کہ ادب کا کام امن پھیلانا ہے اور اس امن پھیلانے والے پیمانے کیا ہوں گے ؟حال ہی جنوبی ایشیا ء کے ایک ادبی انعام میں شامل ادبی انعام کے لیے نامزد مصنفین کی فہرست جاری کی گئی۔ یہ انعام جنوبی ایشیا کے لکھنے والوں کے لیے مخصوص ہے۔اس فہرست میں ہندی و تامل اور دیگر مقامی زبانوں کے ادیب شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے اس میں اُردو کا کوئی ادیب یا فن پارہ شامل نہیں۔اتنی بات تو طے ہے کہ اردو ادب و امن اور تصوف کی بات کرنے والے وہی سرکاری افراد ہیں جنہوں نے ہندوستان میں بالخصوص مسلمانوں کو تصوف کا پاٹھ پڑھانے کی سرکاری ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔لیکن ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ امیر ؔخسرو اور آج کے زمانے میں بہت فرق ہے ۔ ہاں اگر ہم واقعی ادب سے امن کا پیغام والا کام لینا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں افغانستان کے ادیب خالد حُسینی کے ناولوں و دیگر تحریروں کا مطاالعہ کرنا چاہیے۔مختصر اًیہ کہ ہم حقیقت سے آنکھ چراکر امن کا پیغام نہیں دے سکتے ہیں۔ہم قتل ہوکے قاتل کو کس امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تلوار ہماری گردن پر ہے اور طوطے کی طرح امن امن کی رَٹ لگائے بیٹھے ہیں ۔ اسے تو جاہلانہ غفلت یا بزدلانہ ا قدام ہی کہا جاسکتا ہے یا پھر خودکشی۔ امن یا تصوف کی بات کرنا کوئی بُری بات نہیں لیکن جب یہ چیزیں ایک پروپگنڈے کے تحت انجام دی جائیں تو یہ اپنی معنویت کھودیتی ہیں اور عوام کو غلامی کی طرف لے جاتی ہیں اور اس سے نہ ادب کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ سماج کو۔
ادب کا کام سماج کو آئینہ دکھا نا ہے اور سماج کی عکاسی ہے۔کیا ہندوستان میں جو اس وقت حالات چل رہے ان سے آنکھ بند کرکے کوئی اچھا یا بامعنی ادب لکھ سکتا ہے؟ایسا کوئی دیوانہ ہی ہوسکتا ہے یا پھر مشاعرے کا شاعر جن کو آج کے غیر اعلانیہ ایمرجنسی اور مسلمانوں کے روزانہ قتل کے دوران بھی جشن جمہوریت منانے میں کوئی شرم نہیں آتی ۔کیا سماج سے الگ ہوکر یا کٹ کر کوئی جاندار ادب لکھا جاسکتا ہے ؟ اس کا صحیح جواب کوئی سرکاری نقاد نہیں بلکہ وہی ادیب و شاعر دے سکتے ہیں جنہوں اپنی تخلیقات سے عالمی پیمانے پر اپنی شناخت بنائی ہو اور یقینا اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ادب چاہے جدیدیت کا ہو یا ترقی پسند وں کا یا پھر مابعد جدیدیت کا، یہ بہرحال اپنا خمیر سماج سے ہی حاصل کرتا ہے۔آج دنیا کے بہت بڑے مصنفین اس بات پر متفق علیہ ہے کہ فکشن دراصل حقیقت کا ہی اظہار ہوتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فکشن میں دراصل حقیقت کو مختلف اندازا ور تکنیکوں سے پیش کیا جاتا ہے۔جتنا ناول ، افسانہ یا شاعری اچھی ہوگی اتنی ہی اس میں حقیقت کا رس گھل مل گیا ہوگا۔اس وقت اردو ادب کو ترقی پسند والوں جیسی مزاحمت کی ضرورت ہے۔اس کے لیے اب کوئی مارکس یا لینن پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ عالمی ادب یا کم سے کم انگریزی ادب کے مطالعے کی اشد ضرورت ہے۔ایک وقت میں ہندوستان میں اردو ادب مظلوموں و دبے کچلے سماج کے لیے ایک آواز تھا ،لیکن آج اس کا وہ مقام نہیں رہا۔ہاں کچھ ادیب اچھا ضرور لکھ رہے ہیں لیکن زیادہ تر بس اپنے آپ کو دوہرارے ہیں یا ان کی تخلیقات کا معیار بہت پست ہے۔ بیشتر اردو ادیب چاپلوسی یا سرکاری پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں یا صرف مشاعروں میں بریانی کا مزہ لیتے ہیں اور واہ واہ کا شور مچاتے ہیں۔ہم سب ارد و والوں کو اس طرف توجہ دینی ہوگی اور عالمی تنقید اور مختلف تنقیدی تھیوریز کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب اور جنوبی ایشیا میں دوسری زبانوں کے ادب پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں اور کیا نہیں لکھ رہے ہیں۔ہمیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ڈگری کالج اسلام آباد ( اننت ناگ )میں منعقدہ قومی سمینار بعنوان’’ برصغیر میں اردو زبان و ادب: حال اور مستقبل ‘‘ میں پیش کیئے گئے مقالے کا خلاصہ ہے۔
رابطہ : جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی