سیدنا بلال بن رباح ؓاصل میںحبشی تھے ۔اپنی اہلیہ حمامہؓ کے ہمراہ مکہ آئے اور یہیں کے ہو کے رہے۔مکہ میں خاندان قریش بنو جمح کے غلام بن گئے۔بعث نبویؐ سے اٹھائیس سال قبل رباح کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ۔ماں باپ نے اس کا نام بلال رکھا۔بلال فطرتاََنیک نفس اور پاک باز تھے۔بعث سے پہلے ہی وہ محمدعربیؑ کے اخلاق کریمانہ اور اوصافِ حمیدہ کے گرو یدہ تھے۔طلوع اسلام کی پہلی کرن سے بلال کا وجود ایمان کے نور سے منور ہوا اور وہ عاشقان اسلام کے ہر اوّل میں شامل ہو گئے۔ان کا شمار سات سعد الفطرت میں ہوتا ہے جو سابقون الاولون میں امتیازی مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ ان کا آقاامیہ بن خلف حجمی ایک ظالم ،بے رحم اور سفاک آدمی تھا۔ایک غلام زادے کا اسلام قبول کرنا ناقابلِ معافی جرم ماناجاتا تھا۔ اُمیہ نے جو رو جفا،جبر و تشددّ کے تمام ممکنہ حربے استعمال کئے مگر صہبائے تو حید سے مخمور بلالؒ چٹان کی طرح اپنے ایمانی موقف پر قائم رہے۔ اپنے ظالم مالک اُمیہ بن خلف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہہ دیا کہ’’ میرے جسم پر تمہارا زور چل سکتا ہے مگر میں اپنا دل اور اپنی جان محمدؒؒ اور محمدؒ کے خدا کے پاس رہن رکھ چکا ہوں‘‘۔ اُمیہ بلالؓ کو جھلستی دوپہر کو گھر سے نکال کر حرہ کی تپتی ریت پر لٹا کر ایک بھاری پتھر سینے پر رکھ دیتا تاکہ وہ جنبش تک نہ کر سکیں ۔کبھی انہیں بھوکا پیاسا رکھ کر تپتی ریت پر لٹایا جاتا۔لات و عزیٰ کو مبعود منوانے کے لئے غیر انسانی سلوک کیا جاتا مگر اس مرد آہن اور مومن کامل کی زبان پر احد احد کی صدا بلند ہوتی۔کبھی گردن میں رسی ڈال کر اوباش قسم کے لونڈوں لفنگوں کے حوالے کیا جاتا۔ وہ مکہ کی گھاٹیوں میں جلتی ریت پر انہیں اوندھے منہ گھسیٹتے۔ظلم کی چکی جس قدر تیز چلتی اتنے ہی ایمان ، عزم اور حوصلہ سے بلال ؓ کے لبوں پہ احد احد کی صدا بلند ہوتی۔اﷲ کو اپنے مظلوم بندے کی عاشقانہ ادائیں پسند آئیں۔اﷲ کے رسولؒ بلال کا صبر و شکر،عزم و استقلال دیکھ کر اس کو ہر نایاب کو مظالم کی چکی میں پستے دیکھ کر دِل گرفتہ ہو جاتے۔آخر ابو بکر صدیقؓ نے منہ مانگی قیمت پر اُمیہ سے بلال خرید کر آزاد کرایا۔ اب بلالؓ تپتی ریت سے نجات پاکر محمدعربیؒ کے دامانِ رحمت کی ٹھنڈی چھائوں میں چلے آئے۔تب سے سایہ کی طرح اپنے محبوبؐ کے مبارک قدموں سے لگے رہے۔سفر و حضر میں ہمہ وقت ساتھ رہتے۔ہجرت مدینہ کا حکم ملا تو نبی کریمؒ کے حکم کی تعمیل میں مہاجرین کے اولین گروہ میں شامل ہوئے۔غزوہ بدر میں اُمیہ بن خلف مارا گیا۔مسجدنبویؐ کا پہلا موذن ہونے کا اعزاز بلال ؓ نے پایا۔یوں بلال ؓ اسلام کا سب سے پہلا موذن بنے۔مدینہ منورہ میں مہاجرین اور انصار میں پیغمبراسلام ؐ نے مواخاۃ کرائی تو حضرت بلالؒ کو حضرت ابورویحہؓ کا بھائی بنایا۔غزوہ بدر سے آخری غزوہ تک بلال ؒ کو محمد عربیؒ کی ہمر کابی کا شرف حاصل ہوا۔۸؍ہجری میں فتح مکہ کے موقعہ پر نبی کریم ؐنے بلال ؓسے فرمایا’’ اے بلالؒ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر تو حید کی صدائے تکبیر بلند کرو‘‘۔قریش کے بڑے بڑے سردار اور جلیل القدر اصحاب رسولؒمطاف کعبہ میں کھڑے ہیں اور بلال حبشی کعبہ کی چھت پر کھڑے ہیں۔یہ مقام کبریا بلالؓ کو مل گیا سو مل گیا۔حضرت انسؒ روایت کرتے ہیں کہ رسولؒ نے فرمایا اﷲ کے راستے میں مجھے اتنا ڈرایا دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اتنا نہیں ڈرایا گیااور اﷲ کی راہ میں مجھے اتنا ستایا گیا کہ کسی اور کو نہیں ستایا گیا اور ایک دفعہ تیس۳۰ رات دن مجھ پر ایسے گزرے کہ میرے اور بلالؒ کے لئے کھانے کی کوئی چیز ایسی نہ تھی کہ جس کو کوئی جاندار کھا سکے۔سوائے اس کے جو بلالؒ نے اپنی بغل کے نیچے چھپارکھا تھا‘‘۔(ترندی شریف)
حضرت بلال نے حضور ؒ کا معتمد خاص ہونے کا مقام حاصل کیا اور نبی کریم ؒ نے بیشتر خانگی اموراُن کے سپرد کر دئے تھے۔حضرت بلالؓ کو بارگاہِ رسالت میں خاص قرب حاصل تھا ،اس لئے وہ تمام صحابہ کرمؒ کی نگاہوں میں نہایت محبوب و محترم تھے۔حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے:’’ ابوبکر سید نا واتق سید نا یعنی بلالا‘(صیح بخاری) ابو بکرؓ ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردا یعنی بلالؒ کو آزاد کر دیا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؒ سے روایت ہے کہ ایک دن فجر کی نماز کے وقت حضور ؒ نے حضرت بلالؒ کو بلا کر پوچھا:’’اے بلال !مجھے تم پر اپنا کوئی ایسا عمل بتائو جس پر سب سے زیادہ اجر و ثواب کی اُمید ہو کیونکہ میں نے اپنے آگے جنت میں تمہارے پاؤں کی چاپ سنی ہے۔‘‘ حضرت بلالؒ نے عرض کیا کہ’’ یا رسول اﷲ! میں نے تو ایسا عمل تو کوئی نہیں کیا، البتہ رات دن میں مرا کوئی وضو ایسا نہیں ہے جس کے بعد میں نے نماز نہ پڑھی ہو۔‘‘
نبی کریم ؒ کے وصال کے بعد بلالؓ مدینہ سے باہر جہادفی سبیل اﷲ میں مجاہدین کے ساتھ ہر لمحہ حیات گزارنا چاہتے تھے مگر خلیفہ الرسول حضرت ابوبکر ؓ ان کو اپنے سے دور نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ بلالؒ نے اس شرط پر حامی بھر لی کہ انہیں اذان کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا کیونکہ رسول ؒ کو سامنے نہ دیکھ کر اذان دینا ان کے لئے مشکل تھا۔حضرت عمر ؓکے عہد خلافت میں مجاہدین کے ساتھ شام چلے گئے۔ کئی معرکوں میں حصّہ لیا اور وہاں کے ایک گائوں خولان میںاقامت پذیر ہوئے۔ایک رات خواب میں رسولؐ کا دیدار ہوا۔حضورؐ ان سے فرمارہے تھے:
’’ اے بلالؒ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لئے آئو‘‘۔اب اس عاشقِ رسول صادقؐ کو صبر و قرار کہاں؟ بے تابانہ کوئے محبوبؐ کا رخ کیا ۔روضہ اقدسؐ پر حاضر ہوئے اور فراق حبیب ؐ میں اتنا روئے کہ دیکھنے والوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔اس موقع پر نواسہ رسول ؒحضرت حسنؓ بھی موجود تھے۔محبوب کے جگر گوشوں کو سینے سے لگایا۔ بھینچ بھینچ کر والہانہ پیار کیا ،بار بار چومتے کہ بے قرار دل کو قرار آئے۔رسول ؐ کے جگر گوشوںؓ نے روضہ رسولؐ پر فجر کی اذان دینے کی خواہش کی۔ رسولؐ کے پیارے نواسوں کی خواہش ٹالناعاشقِ رسول کے لئے ناممکن تھا۔وصالِ نبی ؐ کے بعد پہلی بار موذن رسول ؐ روضہ رسولؐ پر اذان دینے کے لئے کھڑے ہو گئے ۔سارا مدینہ دم سادھے ادب سے گوش بر آواز تھا۔جونہی حضرت بلال ؓکی صدائے دلنواز بلند ہوئی ،مدینہ کی فضا حشر ساماں ہو گئی۔ساری آبادی گھروں سے باہر آگئی اور جب بلالؓ نے حسب عادت روضہ اطہر کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے نام پاک دہانِ مبارک پر لایا تو اہل مدینہ کے جذبات بے قابو ہو گئے۔ہر سو ہچکیاں اور آہیں تھیں،ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل نم ناک تھا۔شدت گر یہ وزاری سے سینے پھٹے جا رہے تھے۔ہوائیں اشکبار اور فضائیں سوگوار تھیں اور لوگوں کو حیات طیبہؐ کا عہد مبارک یاد آیا۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رسول کائناتؒ نے آج ہی وصال فرمایا ہے۔بیت المقدس کے ستوط کے موقع پر عیسائی پادریوں نے درویش خلیفہ کے لئے شہر کے دروازے کھول دئے ۔عیسائیوں سے صلح کا معاہدہ مرتب ہوا اور قبلہ اول پر توحید کا پرچم لہرایا۔اس مبارک موقعہ پر امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے فصیح و بلیغ خطبہ دیا اور حضرت بلال ؓسے اذان دینے کی گزارش کی ۔وصال النبیؐ کے بعد بلال ؓ اذان نہ دینے کا عہد کر چکے تھے مگر اس عظیم موقع پر وہ خلیفہ ثانیؓ کی خواہش رد نہ کر سکے اور جب حضرت بلالؓ کے لبوں پر اﷲ اکبر کی صدا بلند ہوئی تو صحابہ کرام ؓ کو نبی ؐ کا مبارک زمانہ یاد آیا اور وہ فراق محبوبﷺ کی یاد میں مرغ نیم بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔حضرت فاروق اعظمؓ حضرت ابو جنیدؓ اور حضرت معادؓ کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ایک مرتبہ قریش کے رئو سا ء کا وفد ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔اس اثناء میں حضرت بلال ؓ بھی اتفاق سے وہاں پہنچے، حضرت فاروق عظمؓ نے اکا برین قریش کو نظر انداز کر کے سب سے پہلے حضرت بلالؓ کو باریابی کا موقع دیا اور قریش کے شرفاء انتظار کرتے رہ گئے۔حضرت بلال ؓنے اپنی زندگی میں کئی نکاح کئے۔ ان کی بیویاں عالی نسب تھیں ،ان کا تعلق عرب کے شریف اور معزز خاندانوں سے تھا۔ عرب کی شرفاء ان کو اپنا داماد بنانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ان کی کسی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔یہی بلال ؓاسلام لانے سے پہلے غلام ابن غلام تھے ، ان کا باپ حبشی نژاد اور غریب الدیار تھا۔مکان نہ زمین،دوست احباب تھے نہ کوئی عزیز و اقارب،نہ مال نہ دولت اور نہ ہی شکل و صورت۔سیاہ رنگت،موٹے موٹے ہونٹ اور لاغر جسم۔اس کا مالک اُمیہ بھی اس کے خریدار حضرت ابو بکرؓ پر حیران تھا ۔اس زمانہ میں غلام ایک بے زبان جانور کی طرح ہوتا تھا۔انسان نما جانور بلالؓ کو تو غلامی کا طوق باپ کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا ۔ یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہتے تھے۔ان کی اپنی کوئی پسند اور نا پسند نہیں ہوتی ۔۲۸ ؍بر س کی عمر تک بلال ؓ اپنے مالک اُمیہ بن خلف کے اصطبل کا جانور بنا زندگی گزارتا رہا اور جب ان کے اندر کا بلال ؓ نور ایمان سے چمک اٹھا اور ان کے بدن مبارک میں خوبصورت دل حب رسولﷺ سے مہک اُٹھا۔طالب ہاشمی رحمتہ اﷲ کے الفاظ ہیں:’’حضرت بلال ؓ کے گلشن اخلاق میں سبقت فی الاسلام محمل شداد عشق رسول ﷺ ، شوق جہاد،شغف عبادت اور ایمان سب سے خوش رنگ پھول ہیں۔‘‘
’’قبول اسلام کے بعد حضرت بلالؓ زہد و فقر میں ہمیشہ اپنے آقا و مولا ﷺ کے شریک رہے‘‘۔ امیہ بن خلف کا حبشی غلام جب محمدﷺ کے دامانِ رحمت میں آیا تو سید کہلایا،ٹھیکرا کندن بن گیا ، سیاہ رنگت والا انسان انمول رتن اور اُجلا ہیرا بن گیا اور جب نکاح کی خواہش کی تو مہاجرین و انصار کے شرفاء نے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔حضرت بلالؓ نے عہد فاروقیؓ میں عمر میں وفات پائی۔ دمشق میں باب الصغیر کے قریب تدفین ہوئی ۔ان کا مزار آج بھی مر جع خلائق ہے۔‘‘امیرالمو منین حضرت عمر فاروقؓ بلالؓ کی وفات کی خبر سن کرزار زار روئے اوربار بار فرماتے جاتے’:’آہ! ہمارا سر دار بلال ؓ بھی ہمیں داغ جدائی دے گیا۔‘‘
7051170031/8825051001