ترک نژاد خاشقجی خاندان سعودی شہری تھے۔ ترکی و فارسی میں چمچ کو قاشق کہتے ہیں اور جمال کے اجداد ترکی میں چمچ سازی کے کاروبار سے منسلک تھے، اسی لئے ان کے خاندان کی شناخت ان کے موروثی کاروبار سے ہونے لگی ۔ عربی میں قاشق جی سے وہ خاشقجی ہوگئے۔ مقتول جمال کے دادا پیشے سے طبیب تھے۔ انہوں نے ترک سلطنت عثمانیہ کے دور میں حجاز مقدس کی طرف نقل مکانی کی تھی۔ بعد ازاں مدینے میں شورش کی وجہ سے شام منتقل ہوئے اور موجودہ سعودی سلطنت کے بانی عبدالعزیز آل سعود کے ذاتی معالج ہونے کے ناطے سعودیہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ جمال خاشقجی انہی کا پوتا تھا، جو مدینہ میں پیدا ہوا۔ خاشقجی خاندان کے سعودی شاہی خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔ شہزادہ ترکی الفیصل جب امریکہ میں سعودی سفیر کی حیثیت سے تعینات تھے تو جمال خاشقجی سال 2005ء میں ان کے مشیر تھے۔ برطانوی شہزادی ڈیانا جس ڈوڈی الفائد کے ہمراہ کار حادثے میں ہلاک ہوئیں، وہ ڈوڈی بھی جمال خاشقجی کا کزن تھا۔ عدنان خاشقجی مرحوم جمال کے چچا تھے۔
جمال خاشقجی نے امریکی انڈیانا اسٹیٹ یونیورسٹی سے صحافت میں ڈگری سطح تک کی تعلیم 1982-83ء میں مکمل کی تھی۔ انگریزی روزنامہ’’ سعودی گزٹ‘‘ سے بحیثیت خبرنگار انہوں نے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں انہوں نے متعدد عرب اخبارات کے لئے کام کیا اور بالآخر ان کی شہرت بیرون ملک صحافتی خدمات انجام دینے والے نمائندے کی حیثیت سے ہوئی۔ 1990ء کے عشرے میں انہوں نے افغانستان، الجزائر، سوڈان اور مشرق وسطیٰ سے خبرنگاری کی۔ انہوں نے اُسامہ بن لادن سے کئی مرتبہ انٹرویوز بھی کئے جب کہ اُسامہ بن لادن انہیں اپنا صحافی دوست سمجھتا تھا۔ 1999ء تا 2003ء وہ سعودی عرب کے انگریزی اخبار ’’عرب نیوز‘‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر اِن چیف رہنے کے بعد ’’الوطن‘‘ کے ایڈیٹر اِن چیف مقرر کئے گئے، البتہ وہ نوکری صرف دو ماہ چل سکی۔ اس ملازمت سے برطرفی کے بعد ہی وہ شہزادہ ترکی الفیصل کے میڈیا ایڈوائزر بنے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سال 2007ء میں الوطن کے ایڈیٹر اِن چیف کے عہدے پر انہیں بحال کر دیا گیا تھا اور وہ ملازمت تین سال چلی۔ سال 2010ء میں بحرین کے دارالحکومت منامہ سے عربی نیوز چینل’’ العرب ‘‘میں انہیں جنرل منیجر کے عہدے پر رکھا گیا تھا، لیکن محض گیارہ گھنٹے کی نشریات کے بعد وہ چینل بند کر دیا گیا، کیونکہ اس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ جمال کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ گیارہ نہیں بلکہ صرف چھ گھنٹوں کے بعد ہی چینل پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
سعودی عرب کے ذرایع ابلاغ میں جمال خاشقجی کی تحریر اور گفتار شایع اور نشر کرنے پر البتہ کوئی پابندی نہیں تھی، تا آنکہ سال 2015ء میں شہزادہ محمد بن سلمان کو حکمران خاندان نے اہم عہدے پر فائز کیا ۔ اس جوان شہزادے کے منظر عام پر آتے ہی شاہی خانوادے کے ساتھ جمال خاشقجی کے معاملات خراب ہونا شروع ہوئے۔ ان کے ٹوئٹر استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی اور سعودی ذرایع ابلاغ کو بھی ان کی تحریر یا گفتار شایع و نشر کرنے سے منع کر دیا گیا۔ جب ولی ٔعہد سلطنت محمد بن سلمان نے ناقدین پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا تو گرفتاری سے بچنے کے لئے جمال خاشقجی نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی۔ وہ واشنگٹن میں اس گھر میں رہنے لگےجو انہوں نے سابق سعودی سفیر کی مشاورت کے دور میں خریدا تھا۔ ان کے چار بالغ بچے امریکہ سے ہی فارغ التحصیل ہیں جب کہ دو امریکہ کے شہری بھی ہیں۔ مغربی ذرایع ابلاغ میں بھی انہیں سعودی حکومت کے نقاد کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی اور ان دنوں وہ امریکی روزنامہ ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں کالم لکھا کرتے تھے، جس کا نہ صرف انگریزی بلکہ عربی متن بھی شایع ہوتا تھا۔ 2؍اکتوبر 2018ء کو وہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ کی عمارت میں داخل ہوئے اور اس کے بعد ان کے بارے میں مختلف اور متضادخبریں آئیں۔ آخر ی اطلاعات یہ تھیں کہ سعودی قونصلیٹ میں انہیں قتل کر دیا گیا، ان کی لاش کے ٹکڑے کرکے لاش ٹھکانے لگا دی گئی ۔ اس کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور ان کی حکومت نے سعودی عرب کے حکومتی افراد کے ملوث ہونے پر اصرار کرکے ان سبھی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی حکومت بہت محتاط ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی نپے تلے بیانات دیتے رہے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ سی آئی اے کے ڈائرکٹر ترکی میں ہیں اور ان کی حتمی رپورٹ کے بعد وہ کوئی فیصلہ کرسکیں گے۔ اس ساری صورت حال میں جو سب سے زیادہ اہم واقعہ رونما ہوا، وہ یہ تھا کہ ترکی نے اس امریکی پادری اینڈریو برنسن کو رہا کر دیا کہ جسے دو سال سے قید میں رکھا گیا تھا اور جس کو رہا نہ کرنے کے سبب امریکی صدر ٹرمپ ترکی سے شدید ناراض تھے۔ امریکی وسط مدتی انتخابات نومبر میں ہو رہے ہیں اور امریکی پادری کی رہائی سے امریکی ری پبلکن حکمران جماعت انتخابی مہم کے دوران فائدہ اُٹھا رہی ہوگی۔ اردگان کے وہ طرف دار جو امریکہ مخالف تھے، ان کی تمام تر توجہ جمال خاشقجی کی گمشدگی اور اس کے بعد قتل کی خبروں پر رہی اور کہیں سے بھی کوئی آواز بلند نہ ہوئی کہ اردگان امریکہ کی بات خواہی نہ خواہی مان چکے ہیں۔ اب اردگان صاحب اس قضیے سے فائدہ اٹھا کر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر پر مشتمل مثلث کے مقابلے میں رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، نہ صرف ان کی اپنی حکومت کے لئے بلکہ قطر کے لئے بھی۔ اس کے لئے انہوں نے ایک ماحول بنا دیا ہے۔ سعودی عرب کی حکومتی شخصیات پر تنقید کی ہے، لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کا نام نہیں لیا اور مطالبات بادشاہ سلمان سے کئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں مذکورہ مثلث امریکہ کی نظر میں اہمیت کی حامل ہے، اس لئے اردگان امریکی اتحادیوں میں ترک حکومت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ سعودی، اماراتی اور جعلی ریاست اسرائیل وہ امریکی اتحادی ہیں جو چاہتے ہیں کہ ان کا اتحاد ایران دشمنی پر توجہ مرکوز رکھے جب کہ ترک حکومت کی ترجیحات ان سے مختلف ہیں۔
جمال خاشقجی بنیادی طور پر اخوان المسلمین سے منسلک رہ چکے تھے اور امریکہ و سعودیہ کے حمایت یافتہ افغان جہاد کے پس پردہ حقائق سے آگاہ تھے۔ اُسامہ بن لادن بھی اخوانی تھے۔ افغان جہاد کی حقیقت جمال نے خود بیان کی تھی کہ سعودی حکومت نے یہ طریقہ کار وضع کیا تھا کہ اپنے انٹیلی جنس ادارے کے دیگر ممالک میں نیٹ ورک کے ذریعے فوجی نوعیت کے کاموں کی مدد خود کرتی تھی اور مخیر افراد اور مذہبی کارکنوں کو امدادی سرگرمیوں میں مصروف رکھا تھا اور یہ سب کچھ ایک اور ملک اور امریکہ کے ساتھ مل کر کیا جاتا تھا۔ جمال ہی وہ آدمی تھا جسے نائن الیون حملوں میں سعودی ہائی جیکروں کے نام آنے کے بعد کشیدگی ختم کرنے کے لئے سعودی شاہی خاندان نے اس پیغام کے ساتھ امریکہ بھیجا تھا کہ امریکی حکومت کو بتائے کہ سعودی عرب بادشاہت (قیادت) اب بھی امریکہ کی قابل بھروسہ اتحادی ہے۔ دیگر اخوانیوں کی طرح وہ بھی بیک وقت دو کشتیوں کے سوار تھے، ایک طرف حقائق سے باخبر بھی تھے اور آل سعود کی اصلیت بھی جانتے تھے، جب کہ امریکہ سے ان کے تعلقات کی نوعیت بھی ان پر پوشیدہ نہیں تھی، اس کے باوجود امریکی اور نیٹو اتحادی تُرک حکومت پر اعتماد کی وجہ سے استنبول میں سعودی قونصلیٹ آئے تھے۔
حکمرانوں کی سطح کے اس بڑے کھیل میں جمال خاشقجی جیسے افراد چھوٹے مہرے ہوتے ہیں، جنہیں بڑے مفاد کی خاطر قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ وہ کئی رازوں کے امین تھے، جو ان کے ساتھ ہی دفن ہوچکے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے اُسامہ بن لادن، ملا عمر، کرنل امام، خالد خواجہ اور ان جیسے کئی نامور اور ان سے بھی زیادہ تعداد میں گمنام کردار بڑے طریقے سے منظر سے ہٹائے گئے ہیں، گو کہ وہ صحافی نہیں تھے۔ اخوان المسلمین اور ان کی حامی جماعتوں سمیت اسلامی نظام کے نظریئے پر عمل پیرا ہر جماعت کے لئے جمال خاشقجی سمیت ایسے دیگر کرداروں کے اس انجام میں جو سبق پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد کہتے ہوئے اسی اتحاد کے دیگر ممالک کے آسرے پر آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ افغان جنگ میں بھی سعودی بادشاہت کے توسط سے امریکی اور مغربی بلاک نے آپ کو استعمال کیا۔ القاعدہ اور طالبان کے بہانے امریکہ نے افغانستان پر جو جنگ مسلط کی اس امریکی جنگ میں قطر اور ترکی بھی اس کے سہولت کار بنے اور ان پر تکیہ کرنے والے جب تک مکمل و جامع سچ کی بنیاد پر ان اتحادیوں پر بھروسہ کرنا نہیں چھوڑیں گے، تب تک انور السادات اور حسنی مبارک اور آل سعود جیسے امریکی اتحادی آپ کوجب چاہیں گے بیچ دیں گے اور اگر محمد مرسی جیسا کوئی آپ کا محبوب منتخب ہو بھی گیا تو جنرل سیسی جیسا کوئی بھی دوسرا اُس کا دھڑن تختہ کر دے گا۔ آپ سعودیہ یا امریکہ کی شکایت کس سے کریں گے؟ جب کہ آپ کے قطر اور ترکی بھی مرسی کی خاطر امریکی اتحاد سے باہر نہیں نکلیں گے۔
جمال خاشقجی کا قتل جن اہداف کے حصول کے لئے ان اتحادیوں کی سہولت کاری سے ہوا ہے، وہ حاصل کر لئے جائیں گے اور جمال جیسے بدقسمت افراد زندگی تو زندگی، مر کر بھی انہی کے ہی کام آرہے ہوں گے۔ یہ اس حقیقت کا ایک پہلو ہے۔ امریکی سی آئی اے کی خاتون سربراہ کو ترکی میں جمال خاشقجی قتل سے متعلق شواہد سے آگاہ کیا گیا ہے۔ تا دم تحریر امریکی حکومت سی آئی اے کی سربراہ کی حتمی رپورٹ کی منتظر ہے۔ متضاد افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ سعودی ولی عہد سلطنت کو ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ولید بن طلال کو ولی عہد بنانے کی کوئی سازش ہے۔ یاد رہے کہ جمال کی ولید سے بھی دوستی تھی۔ دوسری افواہ یہ ہے کہ موجودہ ولی عہد محمد بن سلمان کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ وہ اس قتل میں ملوث ہے۔ یہ اس حقیقت کا دوسرا رُخ ہے، جب کہ تیسرا پہلو دیکھا جائے تو یہ بیک وقت کئی حکومتوں اور خاص طور پر اخوان المسلمین کا امتحان ہے کہ وہ اس قتل پر وہ ردعمل کر پاتے ہیں یا نہیں، جس سے آئندہ ایسے قتل سے بچا جاسکے۔
اس مرتبہ پوری عرب دنیا میں سعودی عرب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ اگر جمال کو صحافی و دانشور مان لیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ امریکہ و مغربی ممالک سعودی بادشاہت کو اس قتل کی سزا دلوانے میں کردار ادا کریں گے؟ اظہار رائے کی آزادی کی خاطر سعودی عرب کے خلاف نمائشی نہیں بلکہ سنجیدہ عملی اقدامات کریں گے؟ سعودیہ کے ساتھ تعلقات منقطع کرکے اس کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں گے؟ پابندیاں لگائیں گے؟ اخوان المسلمین ترکی اور قطر کو امریکی اتحاد سے نکلنے پر مجبور کرسکے گی؟ جمال کے قتل کا مقدمہ آل سعود کے خلاف لڑسکے گی؟ سعودی بادشاہت سے ہر سطح پر تعلق ختم کرسکے گی؟ اس وقت امریکی بلاک کے جمہوری و شہری حقوق اور اظہار رائے کی آزادی سے متعلق اس کی ساکھ بھی داؤ پر لگ چکی ہے، کیونکہ جمال خاشقجی کو دنیا اخوانی نہیں سعودی بادشاہت کے نقاد دانش ور کی حیثیت سے جانتی ہے، جو عرب دنیا میں جمہوریت کے قیام کا حامی تھا!
����