اننت ناگ// جنوبی کشمیر کے سرکردہ مزاحمتی لیڈر اورتحریک حریت کے ضلع صدر برائے اننت ناگ میر حفیظ اللہ کو منگل کی صبح کار سوار پستول داروں نے گھر کے باہر گولیاں مار کرقتل کردیا ۔میر حفیظ کے سر میں گولیاں لگیں اور انہیں شدید زخمی حالت میں ضلع اسپتال اننت ناگ لیا گیا تاہم وہ تب تک دم توڑ چکے تھے۔انکی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی علاقے میں ہڑتال ہوئی اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ انکے آبائی گائوں پہنچ گئے جہاں ہلاکت کیخلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ بعد میں انکی نماز جنازہ میں لوگوں کی بھاری تعداد شریک ہوئی اور انہیں سپرد لحد کیا گیا۔
قتل کی واردات کیسے ہوئی؟
میر حفیظ اللہ کے بھائی فرید احمد میر اورمقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ میر حفیظ اللہ آجکل اپنے پرانے گھر واقع بڈرو اچھہ بل کے پرانے گھر کی مرمت کررہے تھے۔منگل کی صبح انہیں اینٹیں پہنچنی تھیں اور وہ اینٹ کے ٹپر کا انتظار گھر کے باہر سڑک پر کررہے تھے۔صبح کے قریب ساڑھے دس بجے اچھہ بل کی طرف سے ایک آلٹو یا ماروتی کار آئی جس میں 3نوجوان سوار تھے۔ان کا کہنا ہے کہ گاڑی کا رنگ کالا تھا اور گاڑی کے شیشے بھی کالے تھے جس پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں تھا۔اس میں سے دو نوجوان نیچے اترے جبکہ ڈرائیور گاڑی میں ہی بیٹھا رہا۔2 نوجوان،جن کے چہرے بالکل عیاں تھے، میر حفیظ اللہ کے بالکل قریب آئے اور ان میں سے ایک نوجوان نے بغل گیر ہونے کے لئے بانہیں پھیلائیں۔میر حفیظ اللہ کی بیٹی، جو کھڑکی سے اپنے والد کو دیکھ رہی تھی، نے بتایا کہ اسکے والد نے ان نوجوانوں کیساتھ مصافحہ کیا اور ایک کے کندھے پر اپنی بازو رکھی تو اسی دوران دوسرے نوجوان نے پستول سے فائرنگ کی۔پستول سے چلای گئی گولیوں میں سے ایک گولی انکے دل پر جالگی جبکہ 2 گولیاں انکے سر پر جا لگیں اور وہ گر پڑے۔ وہاں سڑک پر کئی لوگ چل رہے تھے اور ایک موٹڑ سائیکل سوار بھی موجود تھا، جنہوں نے انہیں اٹھا۔ لیکن اس دوران 2بندوق بردار گاڑی میں دوبارہ سوار ہوئے اور وہ کوکر ناگ کی طرف فرار ہوئے۔ اس دوران میر حفیظ اللہ کی اہلیہ گھر سے باہر آگئی اور دیگر لوگ بھی دوڑتے ہوئے یہاں پہنچ گئے جنہوں نے اسے ڈسٹرکٹ اسپتال اننت ناگ لیا لیکن وہ تب تک دم توڑ چکے تھے۔قابل ذکر ہے کہ میر نے گذشتہ ہفتے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے نامعلوم افراد کی جانب سے انہیں ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔میر حفیظ اللہ کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں اور پچھلے کئی روز سے رات کے دوران انکے مکان کی کھڑکیوں اور دروازے پر دستکیں بھی ہوتی رہتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس کار میں قاتل سوار تھے،وہ گذشتہ ایک ماہ سے انکے گھر کے آس پاس گھومتی رہتی تھی۔جس کے بارے میں انہوں نے اچھہ بل پولیس تھانے کو تحریری طور پر بھی مطلع کیا تھا۔میر حفیظ اللہ کے ایک قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنی ڈیوٹی پر جارہے تھے تو اس نے یہ کالے رنگ کی کار پولیس تھانے کے علاقے میں آگے کی طرف جاتی ہوئی دیکھی تھی۔
نمازجنازہ و ہڑتال
میر کے قتل کی خبر جونہی پھیل گئی تو سینکڑوں لوگ بڈرو پہنچ گئے اور انہوں نے احتجاج کیا۔بعد میں نماز عصر کے بعد انکی نماز جنازہ ادا کی گئی اور انہیںمقامی قبرستان میں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں نم آنکھوں سے سپرد لحد کیا گیا،جس دوران اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بلند کئے گئے۔انکی تین بار نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ جنازہ سے قبل سید علی گیلانی نے بھاری عوامی جلسہ سے خطاب کیا۔اس بیچ ہلاکت کیخلاف برنگ علاقہ کے ساتھ ساتھ اچھہ بل و اسکے ملحقہ علاقوں میں تعزیتی ہڑتال رہی ۔
پولیس کا رد عمل
پولیس بیان میں کہا گیا ’’ بڈور اچھ بل گائوں میں دہشت گرد رہائشی مکان میں گھس گئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کی جس کے نتیجے میں حفیظ ا ﷲمیر نامی شخص شدید طورپر زخمی ہوا اگر چہ اُس کو علاج ومعالجہ کی خاطر نزدیکی اسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا، فائرنگ کے اس واقعے میں مبینہ طورپر مہلوک شخص کی بیوی بھی زخمی ہوئی ہے اور اسپتال میں اُس کا علاج ومعالجہ جاری ہے، پولیس نے اس سلسلے میں مختلف دفعات کے تحت کیس درج کرکے مزید تحقیقات شروع کی‘‘ ۔
کون تھے میر حفیظ اللہ؟
52سالہ میر حفیظ اللہ جنوبی کشمیر میں مزاحمتی خیمے کے سرکردہ لیڈر تھے۔اُن پر نصف درجن سے زائد پی ایس اے عائد کئے گئے تھے جسکے سبب اُنہوں نے زندگی کے14سال جیل میں کاٹے۔ میرحفیظ اللہ 90کی دہائی میں حزب المجاہدین کے سرگرم جنگجو رہے تھے۔ انہوں نے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد 1989میں سرحد پار کی راہ اپنائی اور وہ2سال تک مظفر آباد میں رہے۔1990کے آخیر میں وہ واپس آگئے اور یہاں 1995تک سرگرم رہے۔ اس دوران وہ بیمار ہوئے اور جب انکا علاج اکنگام میں چل رہا تھا تو فورسز نے مکان پر چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کیا۔دو سال کے بعد 1997میں جب وہ رہا کئے گئے تو اس وقت اننت ناگ میں اخوان کا راج تھا۔لہٰذا رہائی کے فوراً بعد اس نے سرینگر ہجرت کی۔سرینگر میں وہ 2004تک عیال سمیت رہے،اور یہاں وہ پرائیویٹ سکول میں ٹیچر کے طور بچوں کو پڑھاتے رہے۔2004میں وہ تحریک حریت کیساتھ وابستہ ہوئے اوروہ تادم مرگ اسکے ضلع صدر رہے۔میر حفیظ اللہ نے قریب ساڑھے 13سال جیل میں کاٹے۔ وہ حال ہی میں 2016کی ایجی ٹیشن کے بعد 2سال بعد کوٹ بلوال جیل سے رہا کئے گئے تھے۔ 2اہ قبل جیل سے رہا ہونے کے بعد انہیں 20روز قبل اچھہ بل تھانے میں دوبارہ بند کیا گیا اور محض دو روز قبل ہی انہیں چھوڑ دیا گیا تھا۔میر حفیظ اللہ اپنے پیچھے اہلیہ ، تین بیٹوں، ایک بیٹی اور ضیف العمر والدہ کو چھوڑ گئے ہیں۔انکی بڑی بیٹی آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔