یہ زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے کہ عورت کو ماں ، بہن ، بیٹی ، بیوی کے رشتوں میں محدود نہیں کیا گیا ۔ کسی بھی قوم یا معاشرے میں عورت کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ دراصل قوم کو بنانے کے لئے صرف ماں ہی اپناکردار ادا نہیں کرتی بلکہ بیٹی ، بہن اور بیوی جیسے عظیم رشتوں میں ڈھل کر بھی اس کا کردار وہی ہوتا ہے جو قدرت اور فطرت نے اسے ازل سے ابدتک عطا کیا ہوا ہے ۔ عورت اپنے ہر رنگ اور ہر رشتے میں صبر ، برداشت ، قربانی ، محبت اور سچائی کی ضامن ہوتی ہے ۔کسی مفکر کا قول ہے کہ کسی قوم کی حالت دیکھنی ہو اس ملک کی ٹریفک کا انتظام دیکھو۔ سوچئے جو قوم ابتری اور افراتفری کی شکار ہو ، جو لوگ کسی کو رستہ دینا نہ جانتے ہوں ، اس قوم کی عورت پر کتنی بھاری ذمہ داری ہوگی کہ قوم کو تحمل ، برداشت ، محبت اور رواداری شائستگی کیسے سکھائے ۔ مجھےنپولین کا قول یاد آتاہے ’’تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دیتا ہوں‘‘۔ اچھی قوم کے لئے صرف اچھی ماؤں تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ میں اسے یوں ادا کروں گی’’تم مجھے اچھی عورتیں دو میں تمہیں اچھی قوم دیتی ہوں‘‘ ۔
قرآن پاک میں بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کی زیادہ زمہ داری عورت کو دی گئی ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ عورت کو خدا پاک نے تخلیق کا وصف عطا کیا ہے ۔ جیسے وہ خود بہ حیثیت خالق اپنی مخلوق کے ہررمز اور ہرضرورت کو جانتا ہے ،اسی طرح عورت اس عطا کردہ وصف کی وجہ سے مردوں کے مقابلے میں انسانی نفسیات سے زیادہ واقف ہوتی ہے اور اپنی فطری ہمدرد طبیعت اور پرور ش سے اپنے ارد گرد کی دنیا کو بڑی توجہ سے سنوارتی رہتی ہے ۔ عورت قوم کے صرف لڑکوں کو ہی نہیں سنوار تی بلکہ لڑکیوں کو بھی سنوار تی ہے تاکہ وہ آئندہ نسلوں کو سنوار سکیں ۔ عورت کی قابلیت دیکھئے وہ دونوں کو الگ الگ طریقے سے ایک ساتھ پروان چڑھاتی ہے ۔یہی بچے بڑے ہو کر قوم بنتے ہیں ، سو ان کی تربیت بہت اہم اور دوررس اثرات کی حامل ہے ۔ آج کل ان کی تربیت گاہ میں صرف گھر ہی نہیں بلکہ اسکول ، کالج ، یونورسٹی بھی شامل ہے ۔ تحقیق نے ثابت ہوا ہے کہ عورت بہ حیثیت اُستاد ، ڈاکٹر ، منیجر مردوں سے کئی زیادہ محنتی ، صابر اور ہمدرد ہوتی ہے جولگن اور توجہ کے ساتھ اپنی ذمہ داری پورا کرتی ہے اور ان سے منسلک لوگ بھی ان سے خوف نہیں کھاتے بلکہ بلا جھجھک اپنی پریشانی اور غلطیوں کا اعتراف کر لیتے ہیں جس کے نتائج کامیابی کی صورت میں نکلتے ہیں۔ اسلام نے عورت کے اسی بے مثال کردار کی وجہ سے اسے بڑا مقام دیا ہے مگر افسوس ابھی بھی کئی ممالک ہیں جہاں عورت کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا ، وہاں لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں ، ووٹ ڈالنے کاحق تک انہیں حاصل نہیں ہے ۔جب عورت پڑھی لکھی ہو گی، گھر کی فضا صحت مند ہو گی ، وہ گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ خاندان کے لئے معاشی میدان میں بھی ہاتھ بٹا سکے گی ۔ورلڈ بنک کے مطابق ایک سال کی پڑھائی زیادہ کرنے سے عورتوں میں شعور اور ادراک کی وجہ سے بچوں کی شرح اموات میں کمی آ جاتی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ہزار بچوں میںاٹھارہ بچے بچائے جا سکتے ہیں اور پھر ان کی بہترین تربیت سے بہترین قوم بنائی جا سکتی ہے ۔ اسلام وہ جدید دین ہےمگر اس سے قبل عرب میں جب کوئی عورت تجارت نہیں کرتی تھی ،اُس وقت بھی عرب کی ملکہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ ؓ عرب کے صحراؤں سے لے کر چین کی سرحدوں تک ریشم کی تجارت کرتی تھیں ۔ جناب سیدہ خدیجہ ؓنے حضور پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقد نکاح کی خواہش کی جو ہمارے لئے پیغام ہے کہ عورت کو اسلام میں اپنی مرضی بتانے کی آزادی حاصل ہے ۔ اس ترقی پسند دین کی بنیاد کمال کی ہے لیکن اس کے باوجود بھی عورت کو پسماندہ اور دوسرے درجے کا شہری سمجھاجائے تو کیا کہیں ؟ پوری دنیا میں 3۔6 ملین لڑکیاںاسکول نہیں جا پاتیں ۔ دنیا میں امن ، تحفظ، منظم معاشرے کے لئے برداشت اور تحمل لانےمیں عورتوں کو آگے لانا پڑے گا، ورنہ دنیا برباد ہو کر رہ جائے گی ۔ سوچئےذرا ہمارےا سلام نے عورت کو پسماندگی نہیںبلکہ عزت و وقاردیا بلکہ دنیوی قانون اور معاشرتی سلوک نے عورت کو پسماندہ رکھا ہواہے۔خوشی کی بات یہ کہ ان حالات کے باوجود اب بھی مسلم خواتین نے ہر میدان میں کمالات دکھائے ۔ شکر خدا کا گزشتہ 20 برسوں سے لڑکیوں کی اسکول جانے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ ایران عراق جنگ کے بعد جب ایران میں مردوں کی تعداد کم ہوگئی تو ایرانی عورت نے احساس ذمہ داری سے لیس ہوکر ہر شعبۂ زندگی میں کام کیا اور ٹیکسی سے لے ہوائی جہاز تک اُڑایا ۔ علم و ادب میں کمال حاصل ، چنانچہ اُ نیس سال کی عمر میں وفات پانے والی ایرانی شا عرہ پروین اعتسامی ’’اشکِ یتیم‘‘ لکھ کر امر ہو گئیں اور دور حاضرہ کی شریں ایرانی مصورہ کون بھول سکتا ہے ۔ غرض معاشرے میں جب تک عورت کو اس کا اسلامی مقام ومرتبہ بحال نہیں ہوتا،اسے عزت نہیں دی جاتی، تب تک اچھی قوم سامنے نہیں آ سکتی ۔ اچھی لڑکی سے اچھی عورت تک کا سفر بنت حوا کو تعلیم ، ہنر اور عزت دئے بغیر طے نہیں ہو سکتا ۔