شیکھر گپتا انگریزی کے مشہور صحافی ہیں۔چند برس پہلے تک اقتدارمخالف مشہورانگریزی اخبار’’اِنڈین ایکسپریس‘‘کے مدیر اعلیٰ تھے۔اب قومی انگریزی چینل’’این ڈی ٹی وی‘‘پر ایک مشہور شو’’واک دِی ٹاک‘ ‘پیش کرتے ہیں۔واضح رہے کہ این ڈی ٹی وی کو بھی موجودہ حکومت اپنا مخالف ہی سمجھتی ہے۔یہی بات اب شاید’’ انڈین ایکسپریس ‘‘کے تعلق سے نہیں کہی جا سکتی۔خیر’’ واک دِی ٹاک‘ ‘میں شیکھر گپتا کئی نامور ہستیوں کو لا چکے ہیں ۔اس شو کا خاص پہلو یہ ہے کہ وہ ٹہلتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں اور مہمان ہستی بھی اسی انداز میں جواب دیتی ہے۔زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد(celebreties) ان کے شو کا حصہ بنتے ہیںلیکن گزشتہ دنوں جس شخص اظہرمخصوصی سے انہوں نے ناظرین کی ملاقات کروائی،وہ نہ تو کوئی سِلیبرِٹی ہے نہ ہی کوئی جانا پہچانا نام۔اُس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ روزانہ ۱۲۰۰؍ لوگوں کو مفت میں کھانا کھلاتا ہے اور وہ بھی ہندوستان کے مختلف صوبوں میں۔ یہ سلسلہ ۲۰۱۲ء سے چل رہاہے۔اس کا نعرہ ہے’’بھوک کا کوئی مذہب نہیں،انسانیت زندہ باد‘‘۔پہلے پہل تو اس نے حیدر آباد سے چند بھوکے لوگوں کو کھلانا شروع کیاکیونکہ وہ خود حیدر آباد میں رہتا ہے لیکن بعد میں اپنے این جی او کے ذریعے ،تندور،کڈپّہ، رائچور،اورنگ آباد،جھارکھنڈوغیرہ دور دراز علاقوں میں بھی یہ نیک کام کرنے لگا۔ہر جگہ مقامی رضاکاراس کے لئے کام کرتے ہیں۔ وہ یہ تعداد بڑھانا چاہتاہے اور اس کی تمنا ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھوکا نہ رہے ، اس مشن کی تکمیل وہ اپنی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے۔اس کی عمر کوئی ۴۰-۴۲؍برس ہے۔شیکھر گپتا اُس سے پوچھتا ہے : اگلا نشانہ کون سی جگہ ہے؟ وہ بے ساختہ کہہ اُٹھتا ہے :یو پی۔ شیکھراس سے پوچھتا ہے : یو پی ہی کیوں؟اس کا جواب یہ دیتا ہے :آج ہندوستان میں سب سے زیادہ یوپی کے نوجوانوں کو انسانیت کی ضرورت( بتلانے کی) ہے کیونکہ وہاں جس قدر نفرت کی آگ بڑھتی جا رہی ہے ،لوگ خاص طور پر نوجوان انسانیت کا سبق بھولتے جا رہے ہیں۔
حالانکہ اظہر مخصوصی کوئی سیاسی آدمی نہیں ہے بلکہ سیاست سے کوسوں دور رہتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس کی پیٹھ تھپتھپاتی ہیں۔اس نے یہ بھی کہا کہ سیاسی پارٹیاں خود ہی سمجھ جاتی ہیں کہ میں ان کے کام کا نہیں ہوں کیونکہ میرا نشانہ کچھ اور ہے۔ اس نے اپنی پوری بات چیت میں کہیں بھی اسلام یا مسلمان کا نام نہیں لیابلکہ اس کافوکس انسانیت ہی رہا اور اس نے زور دے کر کہا کہ انسانیت ہی مقدم ہے۔وہ چاہتا ہے کہ یوپی کے نوجوانوں کو ایسے کاموں میں لگایا جائے تاکہ ان کا رُجحان بدلے اور ملک کے سامنے جو گمبھیر مسائل ہیں،نوجوان ان کے سد باب کیلئے آگے آئیں۔مخصوصی کا اگلا پڑاؤ یوپی ہی ہے اور وہ وہاں کے نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر بھوکوں کو کھانا کھلانے کا کام انجام دینا چاہتا ہے ۔ اُس کے حوصلے تو کافی بلند ہیں لیکن ڈر ہے کہ یو پی میں کہیں اس کے کام میں رکاوٹ نہ پیدا ہوکیونکہ ایسی باتوں یا کاموں سے موجودہ یوگی حکومت کے ووٹ بنک تباہ ہو سکتے ہیں۔خود یوگی کی’ ’واہنی‘‘ والے اس میں کوئی’ ’لو جہاد‘‘ جیسا پہلو نہ دیکھ لیں۔حالانکہ اسی گفتگو سے پتہ چلا کہ امیتابھ بچن سے لے کر سلمان خان تک اظہر مخصوصی کا انٹرویو کر چکے ہیں اور ان کے نیک کام کی ستائش کر چکے ہیں۔انہیں امریکہ کی ایک تنظیم کا’’گرافے ہیروز ‘‘ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔پھر بھی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اُن کے دماغ میںفی الحال رام( اصل رام چندر جی نہیں ) سمائے ہوئے ہیں اوراس (سیاسی ) رام کے نام پر وہ کچھ بھی کر گزرنا چاہتے ہیں۔دیوالی کے موقع پر انہوں نے رام کی ’’پرتیما‘‘ کی تعمیر کا اعلان کیا ہے ۔سننے میں یہ آیا ہے کہ اس کی اونچائی ؍لمبائی پٹیل کے مجسمے ۱۸۲؍میٹر سے بھی زیادہ ہوگی۔بعد میں یہ بھی پڑھنے میں آیا کہ وہ مورتی’’اِن ہاؤس‘‘ ہوگی یعنی دیواروں اور چھت کے اندر ہوگی۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب مورتی ۶۰-۶۵؍منزلہ عمارت کی اونچائی کے برابر ہوگی تو وہ در و دیوار اور چھت کیسے ہوں گے جن کے اندر وہ نصب ہوگی؟اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ رام مندر کے احاطے میں نصب نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی جگہ کہیں اور ہوگی جو ایودھیا ہی میں ہوگی۔اسی لئے فیض آباد ضلع کا نام ایودھیا رکھا گیا ہے۔ایودھیا کے رقبے کی توسیع کا یہ طریقہ تودنیا کے جدید انجینئر بھی نہیں جانتے۔ فیض آباد کا نام یوں مٹا دینے سے کیا تاریخ بھی مٹ جائے گی کہ مسلم نوابوں نے اسے اپنا دارالخلافہ بنایا تھا؟
اس سے پہلے الہٰ آباد اور مغل سرائے کا نام بھی یوگی جی نے بدل دیا ہے اور بالترتیب پریاگ راج اور دین دیال اپادھیائے رکھا ہے۔ لگتا ہے کہ کسی گلی کا نام لیا جا رہا ہے اور اسی طرح گڑگاؤں کی جگہ’’ گروگرام‘ بھی ملی گرام اور سینٹی گرام کی طرح معلوم پڑتا ہے اور لوگ باگ نیا نام لینے سے گریزکر رہے ہیں۔یہ المیہ نہیں تو کیا ہے؟اس دوران نامور اور بزرگ مورخ جاوید حبیب نے نفرت پر مبنی اِن ’’نامنترن‘ ‘پر ایک فصیح لیکن پُر مغز چٹکی لی ہے کہ بی جے پی کو چاہئے کہ پہلے اپنے صدرامیت بھا ئی کا نام تبدیل کرے کیونکہ ان کا سرنیم’’شاہ‘‘ فارسی ا لاصل ہے۔جب سے ذرا خاموشی چھائی ہوئی ہے کیونکہ اسمرتی ایرانی کا سر نیم بھی ایران سے مستعار ہے۔ایسے بہت سارے نام مل جائیں گے جو عربی ،فارسی اور اردو سے مشتق ہیں۔خود ہمارے وزیر اعلیٰ کا سر نیم ’’فرنویس‘‘ بھی تبدیلی کے زمرے میں آجائے گا۔اور تو اور ہندو ، ہندی اور ہندوستان کا کیا کریںگے؟ یہ بھی تو مسلمانوں کے رکھے ہوئے ہیں۔چلئے ہندوستان کو’ ’ہندو دیش ‘‘ کر لیں گے لیکن اس میں لفظ ’’ہندو‘‘ کا کیا کریں گے؟اور ویسے بھی ’’بھارت‘‘ تو پہلے سے موجو د ہے ۔ بہر حال مندر کے مہنت کو یوپی کا وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی اور آرایس ایس جو سگنل دینا چاہتے تھے وہ اب پوری طرح عیاں ہو گیا ہے۔ایک جمہوری ملک میں ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ سرکاری اعزاز و اکرام کے ساتھ دیوالی مناتا ہو اور صرف ایک طبقے کی فلاح کی بات کھلے عام کرتا ہو، ملک کا انصاف پسند طبقہ خاموش ہو مگر ملک کا میڈیااس کے پروگرام کو راست ٹیلی کاسٹ ہی نہیں کرتا ہوبلکہ بڑھا چڑھا کر پیش بھی کرتا ہو تو ملک میں’’تبدیلی‘‘ یقیناً آگئی ہے۔یوگی کا دیوالی منانے کا یہ دوسرا سال ہے۔تو کیااقلیتوں کا تہوار کوئی تہوار ہی نہیں ؟اگر کوئی جمہوری حکمران دیوالی مناتاہے تو اسے عید اور کرسمس بھی منانی چاہئے کیونکہ آئین میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔جب مذہب نہیں ہوگا تو اس کا تہوار بھی نہیں ہوگا!انصاف پسند لوگ ڈر اور خوف کی وجہ سے خاموش ہیں کیونکہ انہیںملک سے غداری کے الزام میں اندر ہونے کا ڈر ہے۔ایسے لوگوں کو یہ حکومت ’’اَربن نکسلائٹ‘ ‘ کہتی ہے اور کچھ لوگوں کو اندر ڈال بھی چکی ہے۔ اُدھرجیسے ہی چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے بابری مسجد؍ رام مند مقدمے کی اگلی شنوائی جنوری میں رکھی ،پورا سنگھ پریوار آپے سے باہر ہوگیا۔آرایس ایس کے بھیا جی جوشی نے ایک پریس کانفرنس میںیہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ ۱۹۹۲ء کا’’ ری پلے‘‘ کرنے سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا، ورنہ مودی حکومت رام مندر کی تعمیر کے واسطے ایک عدد آرڈیننس پارلیمنٹ میں لائے اور مندر کیلئے عدالت عظمیٰ کی پروا کئے بغیر قانون سازی کرے۔بی جے پی کے سینئر لیڈر بھی آگے آئے اور ڈھکے چھپے انداز میں چیف جسٹس کو متعصب کہنے لگے اور یہاں تک کہا کہ سپریم کورٹ میں کپل سبل ہی کی چلتی ہے۔اس لئے کہ ایک بار کپل سبل نے بابری مسجد ؍رام جنم بھومی معاملے کی عدالتی کارروائی کو ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ کے بعد کرنے کی مانگ کی تھی جب چیف جسٹس دیپک مشرا تھے۔اُس وقت بھی بی جے پی اور سنگھ سے وابستہ تنظیموں نے کافی شور غوغا کیا تھا۔معاملہ اتنا حساس ہے کہ چیف جسٹس کوئی بھی ہو،اُسے ملکی سا لمیت پیاری ہے اور اسے عقیدے پر نہیں بلکہ شواہد کی بنیا د پر فیصلہ صادر کرنا ہے ۔بہر کیف ممکن ہے کہ یوپی کے عوام رام مندر کی تعمیر کے جھانسے میں آجائیں اور ایک بار پھر بی جے پی کو گلے لگا لیں اور پارلیمانی انتخابات میں اچھی خاصی نشستیں دے دیں اور ممکن ہے کہ گجرات میں بھی ایسا ہی ہو کیونکہ وہ مودی کا ہوم اسٹیٹ ہے لیکن بی جے پی کو سمجھنا چاہئے کہ صرف یوپی اور گجرات ہی ہندوستان نہیں ہے کیونکہ ۳؍ہندی بھاشی صوبوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جاری انتخابات میں رام مندر کوئی موضوع ہی نہیں ہے اور تلنگانہ اور میزورم میں یہ کوئی ایشو ہو ہی نہیں سکتا۔اس لئے رام مندر چھوڑ کر بی جے پی کو چاہئے کہ کوئی اور گرما گرم نعرہ ایجاد کرے تبھی وہ مرکز میںدوسرے ٹرم کے لئے چن کے آسکتی ہے۔اگر یوپی میں مایاوتی اور اکھلیش کا اتحاد ہو جاتا ہے تو یوپی بھی ہاتھ سے جا سکتا ہے اور کانگریس نے گجرات میںگزشتہ اسمبلی الیکشن کے مقابلے میں ذرا اور محنت کی تو مودی جی کا گھر بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا ۔پھربی جے پی کے خوابیدہ’’ ہندو دیش‘ ‘میں کیا بچے گا؟شایدیوگی آدتیہ ناتھ کا بھگوا لباس!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883