کوئی اتحاد بنتا تو سب کچھ برباد ہوتا،بھاجپا کے کہنے پر نہیں عید پر فیصلہ لیا
جموں// ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے ریاستی اسمبلی تحلیل کئے جانے کے فیصلہ کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ریاست اور یہاں کے عوام کے وسیع تر مفادات کو مدِ نظر رکھ کر لیا گیا ۔راج بھون میںمنعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اسمبلی تحلیل کرنے میں میراکوئی ذاتی مفاد نہیں ہے اور یہ فیصلہ ریاست و عوامی مفاد میں جموں کشمیر کے آئین کے عین مطابق لیا گیا ‘۔گورنر نے کہا کہ اگر مخلوط سرکار تشکیل پا جاتی تو جاری پنچایتی انتخابات کو منسوخ کئے جانے کا بھی امکان تھا کیوں کہ یہ جماعتیں ان انتخابات کے حق میں نہیں تھیں اس لئے انہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ریاست میں سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کے طفیل آیا استحکام بھی خطرہ میں پڑ جاتا۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن امن کے ساتھ اختتام کو پہنچ گئے ، خدا کے فضل سے ابھی تک پنچایتوں کاانتخابی عمل بھی تشدد سے پاک رہا ہے ، لیکن اگر اس ’ناپاک اتحاد‘ کوبر سر اقتدار آنے دیاجا تا تو موقعہ پرست جماعتوں، جن کا مقصد صرف اقتدار پر قبضہ کرنا تھا، کی خانہ جنگی کی وجہ سے سب تباہ ہو کر رہ جاتا۔گورنر نے مزید کہا کہ اپنی تقرری کے روز اول سے ہی میں واضح کرتا آیا ہوں کہ میں دل بدلی اور خرید و فروخت کے نتیجہ میں بر سرا قتدار آنے والی حکومت کے حق میں نہیں ہوں، اس کے بجائے میں چاہتا ہوں کہ انتخابات کے ذریعہ باضابطہ منتخب حکومت بنے لیکن پچھلے 15روز سے مجھے رپورٹس مل رہی تھیں کہ ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ محبوبہ مفتی نے بھی مجھے از خود شکایت کی تھی کہ ہمارے ممبران اسمبلی کو این آئی اے کے نام پر دھمکایا جارہا ہے ، دوسری جماعت کا کہنا تھا کہ ان کے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اس لئے میں اس سب کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ اگر میں کسی کو بھی اکثریت ثابت کرنے کا موقعہ دیتا تو اس سے بڑے پیمانہ پر خرید و فروخت کا اندیشہ تھا جس سے پورے سیاسی سسٹم کو نقصان پہنچ سکتا تھا ،اور ریاست اس سب کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی‘۔نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی طرف سے ان کی ای میلز اور ٹویٹ وغیرہ کا جواب نہ دئیے جانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گورنر ملک نے کہا کہ ’میرے ساتھ کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا، نہ تو مجھے ممبران اسمبلی کی فہرست دی گئی تھی اور نہ میرے سامنے ان کی پریڈ کروائی گئی۔’نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کے پاس پانچ ماہ کا وقت تھا اور اب جب کہ گورنر راج کو صرف دو ہفتے باقی بچے ہیں، اچانک یہ اٹھ کھڑے ہوئے‘۔ گورنر نے کہا کہ میں نے کسی کو بھی فیور نہیں کیا ، مجھے فیصلہ کیلئے نہ تو دہلی کی طرف دیکھنا تھا نہ پارلیمنٹ کی طرف، یہاں تک کہ صدر جمہوریہ سے بھی منظوری لینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ انہیں صرف اپنے فیصلہ سے مطلع کرنا تھا، میں نے عید میلادؐ کا مبارک دن چنا اور اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔جب ان سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمہوریت کا قتل کرنے کے الزام کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے صرف وہی کیا جس کا یہ جماعتیں مطالبہ کر تی آ رہی تھیں، انہیں تو اس کیلئے خوش ہونا چاہئے۔ محبوبہ مفتی کی طرف سے گزشتہ رات راج بھون میں فیکس وصول نہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو گورنر نے کہا کہ عید کے موقعہ پر ان کا دفتر بند تھا،عام تعطیل ہونے کی وجہ سے کوئی بھی ملازم فیکس مشین پر نہیں تھا اسلئے انہیں محبوبہ مفتی کا فیکس نہیں ملا لیکن سابق وزیر اعلیٰ ان سے ایک دن پہلے بھی مل سکتی تھیں۔ اپنے خطوط سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر گورنر ملک نے کہا کہ حکومتیں سوشل میڈیا پر تشکیل نہیں پاتیں۔ انہوں نے کہا وہ نہ تو ٹویٹر استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی اسے فالو کرتے ہیں ، محبوبہ مفتی کو رات آٹھ بجے کا وقت ہی کیوں ملا اس سے قبل سرینگر سے کئی فلائٹیں جموں آئیں وہ اپنا خط دستی بھی بھیج سکتی تھیں۔ اسمبلی تحلیل کے فیصلہ کے لئے بی جے پی کو اعتمادمیں لئے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پر گورنر نے کہا کہ اگر وہ بی جے پی ہیڈ کوارٹر سے ہدایات لے رہے ہوتے تو یقینی طور پر انہوں نے دوسرے (سجاد لون) گروپ کو حکومت سازی کی دعوت دی ہوتی لیکن وہ کسی کی نہیں سنتے اور ریاست و عوام کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر فیصلے لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے عدالت سے رجوع کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر گورنر نے کہا کہ یہ ان کا حق ہے اور وہ عدالت میں جانے کے لئے آزاد ہیں۔ اسمبلی انتخابات کے بارے میں پوچھے جانے پر گورنر نے کہا اس کا فیصلہ لینا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے ، وہ ریاست کی تعمیر و ترقی پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔