حیدرآباد//اردو سے عشق ہے تو اردو زبان کو زندہ رکھیے اور اسے نظر انداز نہ کریں۔ کیونکہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی اور وہ ہندوستانی زبان ہے۔ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر، نغمہ نگار وفلم ساز جناب گلزار نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں ایک روزہ قومی سمینار ’’احساس کا سفیر: گلزار‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے کی۔ گلزار نے جو اردو بالخصوص مرزا غالب سے اپنے عشق کے لیے شہرت رکھتے ہیں مشورہ دیا کہ اردو کے مروجہ الفاظ ضرور استعمال کریں ورنہ اردو مٹ جائے گی۔ اُردو نے ہمیشہ مختلف زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمویا ہے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ اردو کا دامن پراکرت ، سنسکرت حتیٰ کے انگریزی الفاظ سے مرصع ہے۔ بالی ووڈ فلموں میں استعمال کی جانے والی 90 فیصد زبان اردو ہی ہے۔ بطور خاص ہندی والے اردو زبان کا بڑا شوق رکھتے ہیں۔ مگر وہ اس کا صحیح تلفظ نہیں جانتے اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی رہنمائی کریں۔ اس سے اردو رسائی میں اضافہ ہوگا۔ گلزار نے گذشتہ دور کی معروف اداکارہ وجینتی مالا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اردو ڈائیلاگ ٹامل رسم الخط میں لکھ کر ازبر کیا کرتی تھیں۔ کسی بھی زبان کو کسی اور رسم الخط میں لکھ کر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ انہوں نے اپنی نئی صنف ’’تروینی‘‘ کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مختلف اصناف کی مشق کرتے ہوئے انہوں نے تروینی لکھنی شروع کی دریافت کی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنی مشہور نظمیں، ’’کتابیں‘‘، ’’یہ کیسا عشق اردو زباں کا‘‘ ، ’’ٹیبل لیمپ‘‘ اور ’’بَلّی ماران‘‘مخصوص انداز میں پیش کرتے ہوئے حاضرین سے زبردست داد وصول کی۔ گلزار نے جو خود کو غالب کا ’’تیسرا خادم‘‘ مانتے ہیں، نظم ’’گلی قاسم جان‘‘ کے ذریعہ اپنے پیر و مرشد کو زبردست خراج عطا کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو یونیورسٹی سے گلزار کا رشتہ کافی پرانا ہے۔ گلزار کو یونیورسٹی نے 2012ء میں اعزازی ڈاکٹریٹ عطا کی تھی۔ گلزار نے 2014 میں اردو یونیورسٹی کا مقبول عام ترانہ تحریر کیا۔ گلزار یونیورسٹی کی ایگزیکیٹو کونسل کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ جب تک یونیورسٹی رہے گی۔