اردو زبان میں اسلامیات کی حد تک بیسویں صدی میں جن مفکرین و مصنفین نے بہترین تصنیفی ذخیرہ فراہم کیا،ان میں ایک خاص نام علامہ سید سلیمان (۱۹۵۳ء ۔۱۸۸۴ء) بھی ہیں ۔مولانا سید سلیمان ندی ایک ہمہ گیر اور بحر بے کراں شخصیت کے مالک تھے ۔ وہ بیک وقت ایک سیرت نگار ، مورخ ، ادیب ،عالم دین اور مفکر تھے ۔وہ جوہرِ قابل شخصیت تھے ۔ان کی تصنیفات میں سیرۃ النبیﷺ ایک شاہکار کتاب ہے اگر انھوں نے اہی ایک علمی کارنامہ انجام دیا وتا تو بھی یہ ان کے تعارف کے لئے کافی ہوتا اور انہیں دور جدید کے بڑے مصنفین میں شمار ہوتا ۔ان کا شمار ان چند علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے دنیا کی نعمتوں کو خیر باد کہہ کر علمی اور تصنیفی کاموں کو چن لیا ۔ انھوں نے اسلامی لٹریچر میں قیمتی اضافہ کہ اس سے عوام و خواص وسیع پیمانے پر مستفید ہو رہے ہیں ۔ مولاناسید سلیمان ۲۲ /نومبر ۱۸۸۴ء میں پٹنہ کے ایک گاؤں دسینہ میں پیدا ہوئے ۔ مولانا نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔مزید تعلیم پھولواری شریف اور مدرسہ امدادیہ دربھنگہ حاصل کی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد الندوۃ اور الہلال سے وابستہ ہوئے ۔ اس کے بعد ۱۹۰۱ء میں دار العلوم ندو العلماء میں داخلہ لیا اور ۱۹۰۶ء میں فضیلت کی سند حاصل کی ۔ان کی یہ خوش نصیبی تھی کہ انھوں نے مولانا فاروق چریا کوٹی ، مفتی عبداللطیف اور مولانا حفیظ اللہ جیسے کہنہ مشق اساتذہ سے فیض یاب ہوئے ۔ ان کے علاوہ انھوں نے دیگر اساتذہ سے سے بھی مختلف علوم میں مہارت حاصل کی ۔سب سے بڑھ کر انھوں نے علامہ شبلی نعمانی سے علمی استفادہ کیا ۔ان کی صحبت میں رہ کرسید سلیمان کے علم و فکر کے زوق میں مہمیز کا کام کیا ۔ علامہ شبلی بھی ان کے خلوص محنت لگن سے بے حد متاثر تھے۔ شبلی کی جوہر شناس نگاہ نے سید سلیمان کی شخصیت کو پہچان لیا، اسی لئے ان کو اپنی تربیت و نگہداشت میں رکھا اور ان کو اپنا دست بازوں اور خصوصی مشیر کار بھی بنا لیا ۔ سید صااحب کو طالب علمی سے ہی ادب اور مضمون نگاری کی رغبت تھی ۔طلبہ کی ادبی انجمن دارالمکالمہ نمایا رول ادا کرتے تھے ۔ان کا پہلا مکمل مضمون ۱۹۰۴ء میں علی گڈھ منتھلی میں شائع ہوا تھا اس کے ان دوسرا مضمون’الندوہ ‘ میں ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا اور یہی سے تحقیق و تصنیف کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ۔اس طرح سے انھوں نے طالب علمی کے دور ہی سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ مولانا ابو الکلام آزاد بھی ان کے صلاحتیوں سے واقف ہوچکے تھے ۔انھوں نے علامہ موصوف کو’ الہلال ‘کے مجلس ادارت میں شامل کیا ۔سید سلیمان نہایت محنت اور لگن کے ساتھ الہلال کے لئے مضامین لکھتے تھے ،۔علامہ سید نے سیرت پر بھی مدلل کام کیا تاسلامی تاریخ پتر بھی ،ادب پر بھی ۔ ان کا اہم کام یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے استاد علامہ شبلی نعمانی ؒکے ادھوے کام کو مکمل کیا ۔ان کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے کا کام سید صاحب کا سب سے بڑاس کارنامہ ہے ۔اس کے علاوہ علامہ شبلی ؒنے جن جن پہلوؤں پر کام کرنا چاہا ،سید صاحب نے ان ہی پہلوؤں پر دارالمصنفین کوآگے بڑھایا اور اپنے دوسرے رفقاء سے بھی یہی کام لیا ۔ مولانا ندوی کا سب سے پسندیدہ مشغلہ تحقیق و تصنیف تھااور زندگی کے آخری دم تک اس کے ساتھ جڑے رہے ۔انھوں نے قرآنیات ، احادیث ، سیرت، فقہ ،تاریخ، کلام اور ادب کو تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا اور ان ہی موضوعات پر لکھا اور خوب لکھا ۔ دارالمصنفین کے ایک مایہ نازمحقق سید صباح الدین عبدالر حمٰن ان کے موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قرآنی علوم پر جب کوئی مضمون لکھتے تو معلوم ہوتا کہ ان کے علم وفن کے شالیمار میں قرآن کی آیتوں کی نہر بہشت بہہ رہی ہے ، احادیث پر کوئی تحریر قلمبند کرتے تو ظاہر ہوتا کہ اس شالیمار میں حدیث کے رموز و نکات کے گل کدے دے رہے ہیں ، کلامی رنگ کی کوئی چیز لکھتے تو ان کے خیالات کی سوسن ویاسمین کھلتے نظر آتے ، تاریخ کا کوئی موضوع اختیار کرتے توتحقیق و تدقیق سرو شمشاد نظر افروز ہوتے ، شعر و ادب پر کچھ لکھنے کی طرف ماء ہوتے نکتہ سنجی کے پھول بکھرے دکھائی دیتے معاصر مشاہیر کی موت پر نوحہ کرتے تو ان کی سوگواری کی گھٹائیں چھائی دکھائی دیتیں ،کسی کانفرنس کے لئے خطبہ لکھتے تو یہ ان کے نظر و فکر کا شیش محل بن جاتا ۔ ‘‘اردو زبان میں اسلامیات کی حد تک سیرت النبیﷺ کی تکمیل ان کا ایک بڑا علمی کارنامہ ہے ۔ اس کے علاوہ ارض القرآ ن ،سیرت عائشہؓ ،خطبات مدارس ،عرب و ہند کے تعلقات ،نقوش سلیمانی، یادِ رفتگاں ،مقالاتِ سلیمان ،رحمتِ عالم ،حیات ِشبلی، حیاتِ امام مالک، بہایت اور اسلام ، خیام ، عربوں کی جہاز رانی ،مقالات سلیمان ،اہل سنہ و الجماعہ ،برید فرنگ ، مکاتیب سید سلیمان ،مکتوبات سلیمانی ذکر ہیں۔یہ سبھی تحقیقات اپنے اپنے فن میں ایک وقیع سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انھوں نے اپنی تصنیفات میں اعلی ٰ معیار قائم کیا ہے ۔ان کی تصنیفات میں جدت طرازی بھی خوب پائی جاتی ہے ۔وہ ایسے موضوعات پر ذرہ بھر بھی دلچسپی نہیں رکھتے تھے جن پر ماقبل تحریریں موجود ہوتی تھیں ۔وہ خانہ پوری کے لئے یا محض زوق پسندی کے لئے نہیں لکھتے تھے ۔انھوں نے ان علمی تحقیقات کو منصئہ شہود پر لایا جنہیں امت شدت سے ضرورت محسوس کرتی تھیں ۔ ان کا ایک فکری کارنامہ یہ بھی ہے کہ عیسائیوں ، یہودیوں اور مستشرقین کی طرف سے اسلام پر اٹھائے گئے اعتراضات کا مسکت جواب بھی لکھتے تھے ۔بعض اوقات متجددین کی کارستانیوں کا بھی جواب دیتے تھے مثلاََ نیاز فتح پوری عقائد اور مسلمات پر بے بنیاد تنقید کرتے تھے ،اس کے خلاف مولانا ندوی نے معارف ۱۹۱۳ ء میں ایک مستقل مضمون لکھا ،اس مضمون کی افادیت آج بھی برقرار ہے ۔انھوںنے پچاس سال تک علوم اسلامیہ کی بے لوث خدمات انجام دی ہے ۔ اس کے علاوہ آپ خلافت کمیٹی کے بھی رُکن تھے ، اس کے اجلاسوں میں برابر شرکت کرتے تھے اور اپنی تحریروں سے بھی اس تحریک کو تقویت پہنچاتے رہے ۔ تقسیم سے پہلے جمعیت علمائے ہند کے نہ صرف متحرک کارکن بلکہ ورکنگ کمیٹی کے بھی رکن تھے۔ ان کی زندگی کا ایک اہم فیصلہ ہجرت کے تعلق سے ہے ۔وہ جون ۱۹۵۰ء کو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے ۔
دارالمصنفین کا قیام :دارلمصنفین ایک علمی فکری اور تحقیقی ادارہ ہے برصغیر میں مسلمانوں کی حد تک اس اہمیت آکسفورڑجیسے اداروں سے کچھ کم نہیں ہے ۔علامہ شبلی اس ادارے سے ایسے ماہرین پیدا کرنا چاہتے تھے جو الگ الگ نظام شمسی قائم کر کے وسیع پیمانے پر علمی فکری اور تحقیقی خدمات انجام دے سکیں ۔ وہ اس ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے کہ بیت الحکہ کی طرح کوئی ایسا ادار ہو جو یہ کام منظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دے ۔ اس کے لئے انھوں نے دارلمصنفین کا خاکہ پیش کیا تھا جس میںفکری اور علمی کام سے دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کو تصنیف و تالیف کی تربیت دی جائے اور نت نئے موضوعات پر کتابیں لکھوائی جائیں ۔ لیکن وہ اس کواپنی زندگی میں عملی جامہ نہیں پہنا سکے ۔ لیکن بعد اس خاکے کو ان کے تلا میذ ہاور رفقاء نے ان اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کیا اور چند بر صوں ہی میں یہ ادارہ نوجوان مصنفین اور محقین پیدا کرنے کا ایک عظیم گہوارا گیا ۔سید سلیمان ندوی نے جب پروفیسر شپ کو چھوڑ کر دارالمصنفین میں ہمہ وقت کارکن کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیااور تعلق بتیس سال تک رہا ۔اس دوران انھوں نے خود بھی اور اپنے ساتھیوں سے بھی کئی اہم موضوعات پر سینکڑوں کتابیں تیار کیں ۔انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے دار المصنفین کو بام عروج پر پہنچا دیا ۔ یہ ادارے کی خوش نصیبی تھی کہ اسے ان جیسے منتظم اور محقق مل گیا ۔
معارف : ایک علمی رسالہ جاری کرنا علامہ شبلی نعمانی کے منصوبے میں شامل تھا ۔ اسی لئے علامہ ندوی نے دارالمصنفین کے قیام کے فوراََ بعد جولائی ۱۹۱۶ء سے’ معارف ‘کے نام سے ایک تحقیقی رسالہ شائع کرنا شروع کیا جو دارلمصنفین کا ترجمان بھی بن گیا ۔علامہ سید ندوی اس کے مدیر مقرر ہوئے ۔تب سے لے کر آج تک یہ تحقیقی رسالہ علم و حکمت کی افق پر چھایا رہا ۔ مولانا سید سلیمان ندوی چالیس سال تک اس کے مدیر رہے ۔ انھوں نے اس کا بلند معیار قائم کر رکھا تھا کہ بعد کے مدیران نے بھی انہی کے خطوط، معیار اور نہج کو آگے بڑھایا ۔ علامہ ندوی اس میں شذرات کے علاوہ تحقیقی مضامین اور یاد رفتگاں کے نام سے بھی کالم لکھتے تھے ۔اس کے علاوہ انھوں نے چالیس سالہ ادارت میں سینکڑوں کتابوں پر تبصرے لکھے ۔ اس رسالے نے بیسویں صدی میں علم و تحقیق کی جو آبیاری کی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے ۔اپنے جنم سے کر آج تک یہ تحقیقی رسالہ علم و حکمت کی افق پر تابناک اور درخشندہ ستارہ کی طرچھایا رہا ۔شذرات کے نام سے جو ادارے لکھتے تھے ان کی درد بھری آہیں آج بھی ہم محسوس کرتے ہیں ۔بقول ماہرالقادری ـ’معارف ‘ کوجو و قار ،مرتبت اور اونچے علمی حلقوں میں قبولیت حاصل ہوئی وہ سب کچھ سید صاحب کی کامیاب ادارت کا ظہور تھا۔
ذیل میں ان کی چند کتابوں کو تعارف پیش کیا جا رہا ہے :
تاریخ القرآن :تاریخ قرآن اپنے موضوع پر ایک اہم علمی کاوش ہے ۔مولانا ندوی نے کتاب کے دیباچے میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ مستشرقین نے قرآن مجید سے عجیب و غریب نتائج استنباط کر کے قرآن مجید کی تعلیمات کو پاما ل کیا اور قرآن کی مخالفت میں غلط معلومات پیش کئے اور جن اقوام کا ذکر قرآن میں ہے ان کو غیر تاریخی قرار دیا ۔ مولانا نے ان اعتراضات کا مدلل جواب دیا ۔ انھوں نے اس کتاب میں قرآن مجید کی تدوین پر بھی گفتگو کی اور اس کے تاریخی پس منظر بھی بیان کیا اس کے ساتھ ساتھ مستشرقین کی کارستانیوں کا مفصل جواب بھی دیا ۔اس کتاب میں مصنف مستشرقین بالخصوص نولدیکے ، رابڑسن اسمتھ ، اور ڈنکن کی تاریخی تحقیقات اور تلبسات کا پردہ چاک کیا ۔یہ مولانا کی پہلی باقائدہ تصنیف ہے اور اس میں انھوں نے تحقیق اور غیر جانب داری کا اعلی ٰ معیار قائم کر رکھا ۔ بقول سید صباح الدین اس کتاب میں سید صاحب بڑی حد تک ابن حنیفہ دینوری ، ابن قتیبہ ، اور ابن جریر طبری نظر آتے ہیں ۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔
سیرت النبی ﷺ:علامہ شبلی نے سیرۃ النبی ﷺ جیسے ضخیم پروجکٹ پر کام کرنا شروع کیا تھا تو صرف اس کے دو جلدیںمکمل کر پائیں ۔ انھوں نے زندگی کے آخری لمحات میں سید سلیمان ندوی کو بلایا ۔اس وقت وہ انتہائی ضعف کی حالت میں بستر مرگ پر پڑے ہوئے تھے ۔ انھوں نے سید سلیمان سیرۃ النبی کی تکمیل کی تاکید کی ۔ انہیں معلوم تھا کہ علامہ ندوی کے بغیر اس کام کو تمام لوازمات اور خوبیوںکے ساتھ نہیں کر سکتا ۔سید ندوی ان کے تربیت یافتہ شاگرد بھی تھے اس لئے ان کی صلاحیتوں سے وہ بخوبی واقف تھے ۔انھوں نے اپنے مکرم استادکی آخری خواہش اور وصیت پر عمل کرنے کا تہہ کر لیا اور اور سیرۃ النبی ﷺکی بقیہ جلدیںمکمل کر لیں ۔ یہ جلدیں ۳۲۸۶ صفحات پر مشتمل ہے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا صخیم کام تھا ۔سیرۃ النبی ﷺ اب سات جلدوں میں شائع ہوتی ہے ۔ علامہ ندوی نے اس میں سیرت کے ہر پہلو پر بڑا علمی ذخیرہ جمع کیا ہے ۔سیرت پر یہ کتاب ایک مکمل انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ۔دور جدید میں سیرت پر اس جیسی کتاب ملنا بے حد مشکل ہے ۔
خطبات مدارس : یہ سیر ت کے مختلف پہلوؤں پر آٹھ خطبات کامجموعہ ہے۔یہ خطبات انھوں نے اکتوبر ،نومبر ۱۹۲۵ء میں دیئے تھے ۔ اس میں ہر خطبہ علمی گہرائیوں سے بھرا ہواہے ، اسلوب بھی نہایت دلکش ہے اور زبان بھی عمدہ ۔ اس کتاب کا ہر خطبہ انسان کو علم و حکمت کی بصیرت عطا کرتی ہے ۔ان لکچرس میں مولانانے مغربی فکر و تہذیب نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے اور ان ہی کی نفسیات اور زبان کو مد نظر رکھ کر ان سے مخاطب ہوئے ہیں ۔انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی کاملیت ، جامعیت ، عملیت اور ان کے پیغام پر مدلل روشنی ڈالی ۔ اس کتاب کی جو افادیت ۱۹۲۹ء میں تھی وہ آج بھی برقرار ہے ۔
سیرت عائشہ ؓ:حضرت عائشہ ؓکی پوری زندگی علمی ، ادبی اور عملی زندگی اور تقویٰ شعاری سے مالا مال تھی۔ ان کی سیرت میںہر مسلمان عورت کے لئے نہ صرف آئینہ خانہ بلکہ ہر عورت کے لئے قابل تقلید ہیں۔ایک مسلمان عورت کے واسطے رول ماڈل حضرت عائشہ ؓ میں صاف نظر آئے گا ۔ان کی سیرت کا مطالعہ دنیا کے پیغمبر آخر الزمان، عظیم ترین انسان اور رہنمائے انسانیت کی زوجہ مطہرہ تھیں بلکہ ان کی زندگی میں کامل باحیا و باعلم خاتون کی تمام اعلیٰ ترین صفات موجود تھیں ۔ اس کتاب میں سید صاحب نے حضرت عائشہ ؓ کی سیرت کے متنوع پہلوؤں گفتگو کی اور انہیں ایک آئیڈیل خاتون کے طور پر پیش کیا ۔
حیات امام مالک ؒ:یہ کتاب فقہیہ مدینۃ الرسول حضرت امام مالکؒ کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے ۔انہیں شائد امام مالک اور ان کی مؤطا سے بے حد عقیدت تھی،ا سی لئے ان کی خوبیوں اور ان کے نمایا ں کارناموں کو اجاگر کیا ۔
حیات شبلی ؒ:حیات شبلی ایک اعلی ٰ درجہ کی تصنیف ہے ۔فن سوانح نگاری پر یہ ایک شاہکار کتاب ہے ۔یہ نہایت ضخیم کتاب ہے اور ۸۴۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب صرف علامہ شبلی کی حیات و خدمات پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس میںاس دور کی پوری علمی تاریخ موجود ہے ۔اس میں جہاں علامہ شبلی کارناموں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے وہیں ان کے معاصرین کے احوال اور اس دور کی سیاسی ،سماجی اور تعلیمی صورت حال پر بھی رووشنی ڈالی گئی ۔ سید سلیمان نے پیش لفظ میں اس تعلق سے لکھا ہے کہ’’ یہ کتاب نہ صرف ایک ایسی ہستی کے اوراق ِ سونح ہیں بلکہ مسلمانان ِ ہند کے پچاس برس کے علمی ،ادبی ،سیاسی ،تعلیمی مذہبی اور قومی واقعات کی تاریخ بن گئی ہے ‘‘۔
عرب و ہند کے تعلقات :مولانا ندوی نے مارچ ۱۹۲۹ء میںالہ آباد اکیڈمی کی فرمائش پر عرب و ہند کے تعلقات پر مفصل اور محققانہ لکچرس دیئے تھے جن کو بعد میں دارالمصنفین نے اسی نام سے کتابی صورت دے دی ۔ اس کتاب میں ہندوستان اور عرب کے درمیان تجارتی ، علمی اور مذہبی تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے اوردکھایا گیا کہ کس طرح عرب و ہند کے تعلقات مضبوط تھے ۔
عربوں کی جہاز رانی : اسلامک ریسرچ ایسوسی سیشن کی فرمائش پر ممبئی میں مارچ ۱۹۳۰ء میں عربوں کی جہاز رانی پر عالمانہ لکچرس دئیے جن کو بعد میں افادہ عام کی خاطرکتابی صورت میں شائع کیا گیا ۔
نقوش سلیمانی :یہ کتاب اردو زبان و ادب سے متعلق ان مضامین ، مقدموں اور خطبوں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے گاہے بہ گاہے لکھے تھے ۔
وفات : بزم شبلی کا یہ دیدہ ور شخصیت کراچی میں ۲۲ نومبر ۱۹۵۰ء کو انتقال کر گئے ۔ اناللہ و انا للہ راجعون ۔ ان کااسلامیات پر لکھے گئے لٹریچر پریہ ایک مختصر تعارف ہے ۔ان کا یہ عرق ریزی سے تیار کیا ہوا لٹریچر سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
فون نمبر 6397700258