سرینگر// پیپلز کانفرنس چیئر مین سجاد غنی لون نے کہا ہے کہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس کی طرف سے جامع اتحاد کی تخلیق تیسرے محاذ کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے کی گئی۔انہوں نے پی ڈی پی سے کہا کہ اگر پارٹی میں دم ہے تو ریاستی اسمبلی کی تحلیل کو لے کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔سرکاری رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سجاد غنی لون نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر وار کرتے ہوئے کہا کہ کہ یہ دونوں جماعتیں ریاست کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں،اور کسی اور جماعت کو ابھرنے کا موقعہ کھبی نہیں دیتے۔انہوں نے کہا’’ مجھے بھاجپا کے ساتھ اتحاد کرنے پر سوال کئے جاتے ہیں،تاہم اس کی شروعات عمر عبداللہ نے کی تھی جو واجپائی سرکار میں پوسٹر بوائے تھے‘‘۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا’’ محبوبہ جی کا بتائیں،وہ گزشتہ3برسوں سے بی جے پی کی مدد سے اقتدار میں تھیں‘‘۔سجاد لون نے پی ڈی پی کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اگر پارٹی میں دم ہے تو ریاستی اسمبلی کے تحلیل ہونے پر وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر دکھائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریاست میں حکومت سازی کے لئے درکار مطلوبہ تعداد پیپلز کانفرنس کے پاس ہے تاہم اس کے باوجود بھی پارٹی گورنر کے فیصلے کو قبول کرتی ہے۔ پی ڈی پی پر برستے ہوئے سجاد غنی لون نے بتایا کہ ریاست میں حکومت سازی کے حوالے سے پی ڈی پی نے جو ڈرامہ شروع کیا وہ سب دھوکہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی حکومت سازی کے حوالے سے کبھی بھی مخلص نہیں تھی اور اب جو کچھ بھی وہ کہہ رہے ہیں وہ سب جھوٹ ہے۔لون نے کہا’’ریاست کی خصوصی شناخت کے تحفظ کی خاطر جو اتحاد کا نعرہ انہوں نے دیا وہ ایک بھونڈا مذاق تھا‘‘۔ انہوں نے کہا’’میں محبوبہ مفتی سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا لوگوں کو فریب نہ دیں،اورپی ڈی پی، این سی اور کانگریس کی طرف سے اتحاد کا جوڈرامہ کیا گیا اُس سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں نے ریاست جموں وکشمیر کو اپنی جاگیر سمجھ کے رکھا ہے اور یہاں حکومت سازی کے حوالے سے کسی اور کو جگہ فراہم کرنے کے خواہاں نہیں ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ جن کانگریس والوں کے ساتھ پی ڈی پی اتحاد کرنا چاہتی تھی انہوں نے 95مرتبہ ریاست کی خصوصی شناخت کو زک پہنچایا جبکہ اس دوران 52مرتبہ انہوں نے ریاستی آئین میں ترامیم کیں۔ لون نے بتایا کہ میرے پاس گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران موجودہ تعداد مہیا نہیں تھی تاہم رفتہ رفتہ میں نے اس تعداد کو حاصل کرلیا۔ انہوں نے بتایا پی سی کے پاس تعداد مزید بڑھ رہی ہے اور ہم کسی کو بھی پارٹی کے اندر آنے سے روک نہیں سکتے۔ سجاد لون نے بتایا کہ 1987میںمسلم متحدہ محاذ کے بینر تلے منعقدہ انتخابات کے بعد ہی یہاں بندوق وار دہوئی جو تاحال یہاں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔وادی میں جاری جنگجو مخالف آپریشنوں پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بندوق کسی کی زبان نہیں سمجھتی، ایک دفعہ بندوق میدان میں آگئی تو لازمی ہے کہ اس کے مقابل میں دوسری بندوق جگہ بناتی ہے۔ریاست کو خصوصی پوزیشن فراہم کرنے والی دفعہ 35Aسے متعلق ایک سوال کے جواب میں سجاد لون نے بتایا کہ دفعہ 35Aہمارے لئے مقدس ہے۔