۔20نومبر۲۰۱۸ء کو ریاست جموں وکشمیر میں حکومت سازی کے حوالے سے دنیا کو ایک ڈرامائی ہلچل دیکھنے کو ملی جو صبح سے شام ہوتے ہوتے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے ماسٹرا سٹروک سے انٹی کلائمکس پر ختم ہوئی۔ گورنر موصوف نے ہند نواز جماعتوں کی جانب سے حکومت سازی کی کوششوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا بلکہ علاقائی ہند نواز سیاسی جماعتوں، لیڈروں اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ ریاست جموں و کشمیر میں جمہوری اصول اور عوم دوست سیاسی قدریں ایک محدود Limit تک ہی کام کرتی ہیں اور جہاں سے دلی کی برسر اقتدار جماعتوں کے مفادات کی سرحد شروع ہوجاتی ہے‘ وہاں سے ریاستی حدود میں آئین، جمہوریت اور اصولوں کی سیاست کے لیے راستے مسدود ہوجانے شروع ہوجاتے ہیں۔۲۰؍نومبر کو دن بھر ریاست کی سیاسی گلیاروں میں یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ بی جے پی کا راستہ روکنے کے لیے تین سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس ریاست میں حکومت سازی کے لیے صلاح مشورے کررہی ہیں اور عنقریب ریاست میں حکومتی سازی کا حتمی اقدام ہونے والا ہے۔ ان گرماگرم خبروں نے سرینگر سے دلی تک بی جے پی اور ریاست میں اس کے لیے کام کرنے والے سیاست دانوں کو دن میں ہی تارے دکھانے شروع کردئے۔ بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھونے یہاں تک فتویٰ دیا کہ’’ پی ڈی پی، این سی اور کانگریس نے پاکستان کے کہنے پر ریاست میں حکومت سازی کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘اسی بیچ سہ پہر کو پی ڈی پی کی سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے گورنر کے نام لکھے جانے والے اُس خط کو منظر عام پر لایا جس میں اُنہوں نے ریاست میں حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش کرنے کے لیے گورنر سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں دعویٰ بھی کیا کہ پی ڈی پی کو حکومت تشکیل دینے کے لیے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹ میں یہ عجیب انکشاف بھی کر ڈالا کہ اُنہوں نے فیکس کے ذریعے اس خط کو راج بھون ارسال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہاں کا فیکس بے کار پڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے گورنر سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ فون پر دستیاب ہی نہ تھے۔ محبوبہ مفتی نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ ان کے ساتھ78 رُکنی اسمبلی میں56ممبران حمایت حاصل ہے جب کہ حکومت سازی کے لئے انہیں صرف44 ارکان اسمبلی کی حمایت مطلوب تھی ۔ان کی جانب سے حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرنے کے کچھ ہی لمحات بعد ایک اور دعویٰ پیپلز کانفرنس کے سجاد لون کی جانب سے سامنے آیا۔ اُنہوں نے بھی ایک ایسا ہی خط گورنر کے نام سوشل میڈیا پر ڈال دیا جس میں حکومت سازی کا دعویٰ پیش کیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں بھاجپا کے 26 ممبران اسمبلی کے علاوہ بقول ان کے پی ڈی پی کے 18باغی اسمبلی اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ حکومت سازی کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں کے خطوط راج بھون تو نہیںپہنچ پائے ہیں اور نہ ہی گورنر صاحب نے اپنے آپ کو حکومت بنانے والی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے لئے فون پر دستیاب رکھا، البتہ اُنہوں نے الگ سے ایک حکم نامے میں ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کرکے حکومت سازی کی کوششوں اور دعوؤںپر پانی ضرور پھیر دیا۔شام دیر گئے راج بھون کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس بیان میں کہا گیا:’’ جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے انہیں حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے۔‘‘گورنر نے اپنے اقدام کے لیے ایک عجیب قسم کا Logic پیش کیا کہ ’’متضاد فکر کی حاملین جماعتیں کی حکومت پائیدار ثابت نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے انہوں نے اسمبلی کو تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ گورنر کے اس فیصلے کا جہاں بھاجپا نے خیرمقدم کیا ، وہاں پی چدمبرم سے لے کر ممتابینر جی اور دوسری سیاسی شخصیات نے اسے جمہوریت کش قدم بتایا ۔ اُدھر تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ریاست میں نئی حکومت بنانے کا یہ دعویٰ پیش کرنا اصلاً نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کا ایک سیاسی داؤ تھا جس کوکھیل کر یہ جماعتیںدلی کو اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کرنا چاہتی تھیں تاکہ ریاست میں کوئی تیسرا فرنٹ وجود میں آکر حکومت پر قابض نہ ہوجائے۔ اپنے اس مبینہ گیم پلان میں یہ تینوں جماعتیں کامیاب رہیں، ورنہ دنیا جانتی ہے کہ وادی میں اپنا کچھ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی ہند نواز جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ کس حد تک سخت رویہ اختیار کرتی چلی آئی ہیں۔
۱۹ ؍جو ن ۲۰۱۸ء سے ریاست میں گورنر راج نافذ العمل ہے۔ مرکز میں بی جے پی سرکار نے اس دوران یہاں اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بہار کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کو بحیثیت ریاستی گورنر تعینات کردیا جس پر بی جے پی کے ریاستی صدر نے برملا کہہ دیا کہ یہ ’’بی جے پی کا اپنا آدمی ہے‘‘۔ بہر حال گزشتہ پانچ ماہ کے دوران بی جے پی جوڑ توڑ کرکے ریاست میں اپنی من پسند سرکار تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھی۔ اسی پس منظر میں کچھ عرصہ سے سجاد لون کی قیادت میں بی جے پی سرکار وجود میں آنے کی قیاس آرائیاں اُس وقت صحیح دکھائی دینے لگی تھیںجب پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ نے سجاد لون کی سربراہی میں تیسرے فرنٹ کا حصہ بننے کا اشارہ دیا تھا۔ان کوششوں سے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس تینوں جماعتوں کی صفوں میں اضطراب پیدا ہونا یقینی تھا، اس لیے کسی بھی ایسی سرکار کا راستہ روکنا تینوں جماعتوں کا مشترکہ مقصد بن گیا تاکہ ایسی ممکنہ صورت حال کے نتیجے میں خود ان جماعتوں کا وجود خطرے میں پڑجانے کا اندیشہ پیدا نہ ہو۔ جبھی ایک دوسرے کی شدید مخالف جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی وقتی اتحاد پر راضی ہوئیں۔
دلی کی تاریخ یہی رہی ہے کہ اس نے ہمیشہ کشمیرمیں کسی بھی متحدہ سیاسی طاقت کو پنپنے نہیں دیا بلکہ جب بھی کوئی جماعت کشمیر کی سیاست پر حاوی ہونے لگی تو اس نے اُس کے مدمقابل ایک اور جماعت کو لاکھڑا کرکے یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اس حد تک کمزور بنا کر رکھ دیا کہ وہ مرکز کے رحم وکرم پر رہیںاورانہیں دلی کے سامنے سر اُٹھا کر بات کرنے کی جرأت ہی نہ ہو۔ نیشنل کانفرنس کے مدمقابل پی ڈی پی کو کھڑا کرکے دونوں جماعتوں کو دلی کے سامنے جولی پھیلانے کی پوزیشن میں لاکھڑا کردیا گیا لیکن جب یہ دو جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے سوچنے لگیں تو یہ دلی کے پالیسی سازوں کے لیے غیر متوقع خبر تھی، اس لیے دلی سرکار نے راج بھون کے ذریعے فٹافٹ ریاستی اسمبلی کو ہی تحلیل کرواکے وقتی طور بی جے پی کا راستہ روکنے والی بلا کو ٹال دیا لیکن اس اہم فیصلے سے ریاست کے سیاسی مستقبل پر دور رس اہمیت کے اثرات مرتب ہونے کا بھی احتمال موجود ہے۔دلی کی حکومتیں بار بار کہہ رہی تھیں کہ گزشتہ ادوار میں کشمیر اُمور میں بے جا مداخلتوں اور غلطیوں کی وجہ سے ہی کشمیری عوام ناراض ہیں اور اب وقت بدل چکا ہے، آئندہ ایسی مداخلتیں اور غلطیاں نہ کرکے وہ کشمیریوں کا دل جیت جائیں گی، لیکن اپنی عادت سے مجبور دلی سرکار نے ہمیشہ روایتی انداز اپنا کر متواتر ثابت کردیا کہ کشمیریوں کا دلی پر بھروسہ نہ کرنا صحیح ہے اور کشمیری عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست میں حکومتیں اور سرکاریں دلی کی ہی آشرواد سے بنتی بھی ہیں اور گرتی بھی ہیں، اور وہ جو کچھ کرتی ہیں دلی کے کہنے پر ہی کرتی ہیں ، حتیٰ کہ کبھی کبھی یہاں کی سرکاریں دلی دربار کے سامنے اتنی بے بس کردی جاتی ہیں کہ وہ بے دست وپا ہو کر رہ جاتی ہیں۔ بنابریں ۲۰۱۰ء میں عمر عبداللہ نے اور ۲۰۱۶ء میں محبوبہ مفتی نے بہ حیثیت ریاستی چیف منسٹر اپنی بے بسی کا برملا اظہار کرکے اعلاناً کہہ دیا کہ نہ ہی دلی میں اُن کی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہی یہاں کام کرنے والی ایجنسیاں اُن کے احکامات کو خاطر میں لاتی ہیں۔گزشتہ ستر سال سے خاص کر یہاں کے پورے سسٹم کو ’’کٹھ پتلی‘‘ بناکر رکھ دیاگیا ہے۔
۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک کشمیرکی سیاسی حالات پر اگر تجزیاتی نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلے گا کہ ہر مرحلے پر دلی کی بے جا مداخلتوںسے ریاستی کی سیاسی و آئینی حیثیت کو کمزور کرنے اور اپنے مفادات کی خاطر دغا بازیوں، فریب کاریوں اور سیاسی چالبازیوں سے کشمیرکوگہرے زخم دئے گئے۔ ۳۵ء کے بعدشیخ محمد عبداللہ کے سیاسی قد کاٹھ کے باوجود حکومت ان کے لئے شجر ممنوعہ بنانے کی بات ہو یا پھر صادق، بخشی اور مفتی جیسے کرداروں کی تخلیق کرکے اُنہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بطور مہرہ استعمال کرنے کی داستان ہو یا پہلے استعمال کرو پھر بے آبرو کر کے سراہ چھوڑ دو پالیسی سے جڑی کہانیاں ہوں، ہر ہر مرحلے پر دلی میں اقتدار پر براجمان سیاسی لیڈرو ں نے کشمیر میں عالمی قوانین، جمہوریت اور سیاسی اخلاقیات کو بیک بینی ودوگوش اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔علی الخصوص۱۹۸۷ء کے الیکشن میں تاریخ ساز دھاندلیاں کرواکے جس بے مروتی سے دلی کے ایماء پر شکست خوردہ اُمیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا، اُس نے نہ صرف کشمیریوں کا ہندوستانی جمہوریت سے اعتبار ختم کردیا بلکہ دنیا کے غیر جانبدار ادارے اور سیاسی ماہرین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ریاست جموں و کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والوں کی جمہوریت محض فریب اور ڈھکوسلہ بن کر رہ گئی ہے۔ نوے کی دہائی میں ریاستی عوام نے سڑکوں پر آکر اپنے حقوق کی مانگ کرکے کشمیر کاز کو از سر نو زندہ کیا تو بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ انڈین سول سوسائٹی، صحافی اور دانشور چیخ چیخ کر یہ قبول کرنے لگی تھے کہ کشمیر میں دلی کی جانب سے بے شمار کہہ مکرنیاں ، غلطیاں، دھاندلیاں سرزد ہوئی ہیں جن کو آئندہ نہیں دوہرایا جائے گا، یہاں تک کہ اٹل بہاری واجپائی نے اپنیmusings میں دلی غلط کاریوں کا اعتراف کیا جیسے گورنر ملک بھی کئی بار کشمیر میں مرکز کی غلطیاں مان رہے ہیں ۔بایں ہمہ حالات اورگردش ِ دوران نے ثابت کردیا کہ دلی ریاست کے معاملات میں اپنادیر ینہ کا وطیرہ تبدیل کر نے پر سرے سے تیار ہی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی ہند نواز سیاسی جماعتیںہیں جن کی کرم فرمائیوں سے یہاں بھارت کی رِٹ قائم ہے۔چنانچہ ایک موقع پر عمر عبداللہ نے سمبلی میں اپنے دورِ اقتدار میں خود کو دلی کا ڈیلی ویجر کہا ، جب کہ محبوبہ مفتی نے صاف کہہ دیا کہ اگر ہم نہ ہوں گے تو کشمیر میں کوئی ترنگا لہرانے والا نہ ہوگا ۔ یہ جماعتیں اپنے عوام کی خواہشات، اُمنگیں اور آرزؤں کو نظر انداز کرکے اُن کو سبز باغ دکھاتی چلی آئی ہیں ، اوریہی دلی میں بننے والی ہر کشمیر مخالف پالیسی کو عملانے کے لئے شاہ سے زیادہ وفاداری کا مظاہرہ بھی کرتی رہی ہیں۔ فاروق عبداللہ اپنے ہندوستانی ہونے پر نہ صرف فخر کرتے رہتے ہیں بلکہ بھارت ماتا کی جے کرکے ہندوستانی ہونے کا ثبوت علی الاعلان دے چکے ہیں، لیکن پھر بھی کشمیری النسل ہونے کی وجہ سے اُنہیں کئی بار پاکستانی ہونے کا طعنہ بھی دے جاتے رہے ہیں۔نوے کی دہائی میں جس وقت کشمیر کی گلیاروں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، وردی پوش کپواڑہ، ہندواڑہ، سوپور، بجبہاڑہ، گاؤ کدل، زکورہ ، حول وغیرہ جیسے درجنوں قتل عام کر چکے تھے، اُس وقت ہوم منسٹری کی کرسی پر مفتی محمد سعید بیٹھے ہوئے تھے اور وہ اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرواکے مرکز سے داد تحسین حاصل کررہے تھے، انہی کی پی ڈی پی کواب بھارتی عوام کے سامنے ہندوتوا شدت پسند پاکستانی حمایت یافتہ سیاسی جماعت ثابت کر نے میں دورکی کوڑیاں لانے میں ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچا رہی ہیں۔اگر چہ اپنی جی حضوریوں کا یہ صلہ ملنے پر ہندنواز جماعتوں او ر ان کے لیڈروں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے، لیکن کیا کریں اقتداری حرص اور سیاسی سودا گری کی عادت کے صدقے باوجود یہ اپنے ہی عوام کا استحصال کرتے ہوئے دلی کے گماشتے بننے اور بشری حقو ق کے حوالے سے ظلم کی کلہاڑی کا دستے بن جانے کبھی تیار ہی نہ ہوئے۔ بہرصورت اقوام عالم کو کشمیر کے ان سیاسی حالات کو بہ نظر غائر دیکھ لینا چاہیے۔ جہاں دنیابھر کی اقوام جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں ، وہاں اُنہیں کشمیر کے حدود و قیود میں اپنی ہی تخلیق کردہ اس ’’جمہوری دلہن ‘‘کی عزت تار تار ہونے کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اس حقیقت کا فہم و ادراک کرنا چاہیے کہ کشمیر میں کسی حکومت کا بننا اور کسی کاگرنا محض ایک کھیل تماشہ ہے جو کشمیر کاز کو ظلم و جبر کے دست ِ آہن سے کچلنے اور اہل کشمیر کو سیاسی dis-empowerment کی سزا دینے کے لئے وقفے وقفے سے کھیلا جارہاہے ۔ بہر کیف کشمیر میں امن ،آدمیت ، آشتی اور جمہوریت کا اصل راستہ کشمیر حل سے ہوکر گزرتا ہے۔ جب تک اس مسئلے کا کوئی پائیدار، قابل قبول ، منصفانہ اور آبرومندانہ حل نہ نکالا جائے، یہاں منصبِ حکومت عوامی استحصال کا ہم معنی ثابت ہوتارہے گا ، یہاں جمہوریت کا قتل ہوتا رہے گا ، یہاں انسانیت بھی رُسوا ہوتی رہے گی ، یہاں ریاستی عوام مصائب و مشکلات میں پستے رہیں گے۔ اس گھمبیر حقیقت کے اثرات ومضمرات کو سمجھتے ہوئے کشمیر حل کے لیے تینوں فریقوں کو مذاکرات کی میز آمنے سامنے آنے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔