علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے غالباً یہ شعر لل دید جیسی شخصیتوں کے بارے میں ہی کہا ہے ؎
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
لل دید کو لل عارفہ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ لل دید مختلف قسم کی لوک کہانیوں میں لپیٹ دی گئی ہے ،اس لئے اس کی شناخت پر ابہام کا ایسا دبیز پردہ پڑگیا ہے جو تحقیق کے خنجر سے بھی چاک نہیں ہو پاتا، مگر اس بات میں شبہ نہیں ہے کہ لل دید عرفان کے اس مقام پر پہنچی تھی جہاں فنائیت میں قیام ہوتا ہے اور یکتائی میں سفر۔ یہی وجہ ہے کہ لل دید کے کلام میں یاسیت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس کے کلام میں تھامس ہارڈی کی قنوطیت کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ وہ کسی دماغی انتشار اور جذباتی افراتفری کا شکار بھی نہیں ہے بلکہ لل دید نے وہاں جھانکا جہاں چشم ِظاہر بین کی رسائی ناممکن ہے۔ لل دید کی شاعری کا زیادہ تر حصہ اس کے روحانی تجربات اور عارفانہ کیفیات پر مشتمل ہے اور وہ عرفان کے چھاؤں تلے مستی کا جھولا جھولتی نظر آتی ہے۔ تاہم اس کے واکھوں میں اصلاح اور فلاح کی تدریس بھی ہے۔
ہر قوم اپنی شناخت کو اپنے کسی شاعر یا فن کار سے متعلق کردیتا ہے۔ انگریز اپنی حیثیت کو شیکسپیئر سے جوڑتا ہے تو جرمن گوئٹے سے اپنی شناخت بناتا ہے۔ بنگالی ٹیگور کو، ایرانی سعدی کو، ہندو کالی داس کو، پنجابی وارث شاہ کو اپنی حیثیت کا وسیلہ گردانتا ہے جب کہ کشمیری نے اپنی شناخت اور حیثیت لل دید اور شیخ العالم سے بنالی ہے۔لل دید نے عرفان کا وہ مقام پالیا تھا جہاں وجدان اور تجربہ ایک ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ شیخ العالم رحمت اللہ علیہ نے فرمایا :
تس پدمان پورچہ للے
یمہ گلہ گلہ امرت چیوو
تمہ شو وچھ تھلہ تھلے
تیتھ مے ور دتم دوو
یعنی شیخ العالم رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’پانپور کی اس لل دید نے آب حیات گھونٹ گھونٹ پی لیا۔ وہ ہمیشہ مشاہدہ ٔ حق میں رہی۔ خالق کبھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا۔ اے میرے مولی، مجھے بھی اس مقام پر پہنچادے۔لل دید بت پرستی کی شدید مخالف تھی۔ اپنے ایک واکھ میں کہتی ہے:
دیو وٹا دور وٹا
پیٹھ بون چھے ییکہ وٹھ
پوز کس کرکھ ہوٹہ بٹا
کر منس تہ پانس سنگھاٹھ
ترجمہ: دیوتا بھی پتھر کا ہے اور مندر بھی پتھروں سے بنا ہوا ہے۔ پتھر کے مکان میں پتھر مکین ہے۔ یہ تو محض پتھروں کا انبار ہوا!۔ اے ہٹ دھرم پنڈت!ان پتھروں کی پرستش بے کار ہے، اگر خدا کو پانا چاہتے ہو تو دل اور روح کو ملادے یعنی تن من کو اس کی لگن میں ایک کردے اور اپنا ظاہر باطن اس کی عبادت میں لگادے۔
ایک واکھ میں وہ خدا سے کچھ اس طرح فریاد کرتی ہے:
آمہ پنہ صدرس ناو چھس لمان
کتہ بوز دیے میون میتہ دیہ تار
ترجمہ:۔ میں کچے دھاگے سے اپنی کشتی کو دریا سے کنارے کی طرف کھنچ رہی ہوں۔ اے میرے مولی،!یہ تو ہی ہے جو میری کشتی کو پار لگا سکتا ہے۔
لل دید نے اس واکھ میں خام ڈور کو اپنے کمزور اسباب کی علامت کے طور استعمال کیا ہے یعنی وہ اپنی تپسیا اور خالق سے وصال کے لئے اپنی کوششوں کو غیر معتبر اور کمزور خیال کرتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ محض پوجا اور تپسیا کے وسیلے سے اس تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ بس یہ اس کا فضل وکرم ہی ہوسکتا ہے جس سے نجات مل سکتی ہے۔ چنانچہ خدا سے فریاد کرتی ہے کہ مجھے بس تیرے سے ہی اُمید ہے کہ تو مجھ سے کرم کا معاملہ کرے گا اور اپنا خاص قرب عطا کرے گا۔
اس واکھ میں دریا کو زمان ومکان کی علامت بنایا گیا ہے۔ دریا کناروں کی حدود میں بہتا ہے۔ دریا کا بہاو اگر وقت ہے تو اس کے حدود مکان۔ کشتی کو لل دید نے اپنی ذات کی علامت بنایا ہے۔لل دید کے واکھوں اور حافظ ؔکے تصوف میں کچھ موافقت محسوس ہوتی ہے۔ حافظؔ کا ایک خوبصورت سا شعر ہے:
کشتی شکستہ گانیم ای باد شرطہ برخیز
باشد کہ باز بینم دیدار آشنا را
یعنی میری یہ پرانی اور خستہ کشتی ان طوفانی موجوں کا کیسے مقابلہ کرسکتی ہے؟اس میں وہ طاقت اور استعداد کہاں؟اے ہواؤو، ذرا مناسب رفتار سے میرے بادبان سے لگ جاو تاکہ میں منزل پر پہنچ کر اپنے محبوب سے مل سکوں!
لل دید کا ایک واکھ ہے:
گورن ووننم کنوی وژن
نیبرہ ووننم اندر اژن
سوے گو للے مے وانکھ تو وژن
تویے ہیوتم ننگٔے نژن
یعنی میرے گورو نے مجھے ایک بات کی تعلیم کی اور کہا کہ تو باہر سے اندر چلی جا۔ بس یہ اسی تعلیم کا اثر ہے کہ میں بے لباس گھومنے لگی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ لل دید کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ بے لباس گھوما کرتی تھی۔لل دید کے مندرجہ بالا واکھ سے مجھے حضرت احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول یاد آرہا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں: ’’شہود، معروف اور حیرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب چیزیں صرف نفس میں ہیں، باہر کہیں بھی نہیں ہیں۔ جب تک ان تینوں سے باہر ہے، چاہے اپنے اندر ہی ہو، فنا سے بہرور نہیں ہوسکتا، تو بقا سے کیسے حصہ پاسکتا ہے؟ فنا اور بقا کا نہایت مرتبہ یہی ہے اور یہ فنا مطلق ہے اور مطلق فنا عام ہے‘‘۔
لل دید پر تحقیق کرنے والوں نے لل دید کا جو کلام مرتب کیا ہے اس کلام پر مشتمل ہر کتاب میں ذیل کے تین واکھ درج ہیں:
(I)
سریس ہیو نہ پرکاش کنے
گنگہ ہیو نہ تیرتھ کانہہ
بایس ہیو نہ باندو کنے
زنہ ہیو نہ سوکھ کانہہ
ترجمہ:۔ سورج کے مماثل کوئی روشنی نہیں ہے۔ گنگا کے مماثل کوئی تیرتھ نہیں ہے۔ بھائی کے مماثل کوئی رشتہ نہیں ہے۔ بیوی کے مماثل کوئی راحت نہیں ہے۔
(II )
اچھن ہیو نہ پرکاش کنے
کوٹھین ہیو نہ تیرتھ کانہہ
چندس ہیو نہ باندو کنے
کھنہ ہیو نہ سوکھ کانہہ
ترجمہ:۔ آنکھوں کے مماثل کوئی روشنی نہیں۔ ٹانگوں کے مماثل کوئی تیرتھ نہیں۔ جیب کے مماثل کوئی رشتہ نہیں۔ چادر کے مماثل کوئی راحت نہیں۔
(III)
مایہ ہیو نہ پرکاش کنے
لیہ ہیو نہ تیرتھ کانہہ
دیس ہیو نہ باندو کنے
بیس ہیو نہ سوکھ کانہہ
ترجمہ:۔ عرفان کے مماثل کوئی روشنی نہیں۔ عشق حقیقی کے مماثل کوئی تیرتھ نہیں۔ خدا کے مماثل کوئی رشتہ نہیں۔ خوف ِخدا کے مماثل کوئی سُکھ نہیں۔
ان تین واکھوں کے متعلق صرف تین باتیں مشہور ہیں اور وہی تین باتیں کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ مناظرہ لل دید اور اس کے پہلے گرو سدھ مول کے درمیان ہوا تھا ،جس میں پہلا واکھ لل دید نے کہا، دوسرا سدھ مول نے اور پھر تیسرے واکھ سے لل دید نے سدھ مول کو لا جواب کردیا۔دوسری روایت میں بتایا گیا ہے کہ پہلا واکھ شیخ العالم حضرت شیخ نورالدین رحمتہ اللہ علیہ کے ایک خاص مرید بابا نصیرالدین نے کہا، دوسرا شیخ نے اور تیسرا لل دید نے۔تیسری روایت کے مطابق پہلا واکھ لل دید کے شوہر نے کہا جو لل دید کے گھر بار تیاگ دینے پر اس کے گرو سدھ مول کے پاس یہ درخواست لے کر گیا تھا کہ وہ لل دید کو گھر جانے پر آمادہ کرے اور وہیں پر یہ مناظرہ ہوا تھا۔ روایت کے مطابق لل دید کے شوہر کے پہلے واکھ پر دوسرا واکھ سدھ مول نے کہا اور تیسرا واکھ لل دید نے۔
مجھے یہ تینوں روایتیں من گھڑت اور حقیقت سے بعید لگتی ہیں۔ ان تینوں واکھوں میں ایک دوسرے سے اتنی مماثلت ہے کہ یہ واکھ فکر کے تین نہاں خانوں سے خارج ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ ایک ہی فرد کا اظہار خیال لگتا ہے۔ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ واکھ تین مختلف شخصیتوں کے ہیں تو پھر لل دید کی تمام شاعری کی حیثیت ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے اور اس کے واکھوں کا اعتبار شبہات کی دُھول میں اَٹ جاتا ہے اور لل دید کے واکھوں کی الگ شناخت باقی نہیں رہتی بلکہ اس کے واکھوں کا پورا مجموعہ مختلف لوگوں کا کلام قرار پائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں واکھ واضح طور لل دید کے خیالات کی ہی لفظی صورت ہیں اور ان واکھوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ یہ شاعر کا تغیر مذاق ہے۔ لفظوں کے سانچے میں ڈھلے یہ نورانی قطرے لل دید کی حکیمانہ سوچ کے عکاس ہیں اور انہیں بھی باقی واکھوں کی طرح لل دید نے طہارت عطا کی ہے۔ ان تینوں واکھوں کا اسلوب وہی ہے جو لل دید کی شاعری کا خاصہ ہے۔ دراصل ان تین واکھوں کے درمیان Conflict کے ذریعے تہہ در تہہ معانی پیدا کرلئے گئے ہیں۔ الگ الگ حیثیت میں ان واکھوں کی نوعیت گو کہ خطیبانہ ہے مگر تسلسل میں ایک مکمل مکالمہ ہے اور Dialectical approach کی ایک بہتریں مثال اور اعلی معیار ہے۔
پہلے واکھ میں Thesis ہے، دوسرے واکھ میں Anti-thesisہے اور تیسرا واکھSynthesis پر منتج ہے۔ اس میں ایک عمدہOrchestration ہے۔ جس طرح ’’مکالمہ جبریل وابلیس‘‘ اور’’ شکوہ‘‘ ’’ جواب شکوہ ‘‘میں اقبال نے ڈرامائی انداز میں اپنا نکتہ نگاہ پیش کیا ہے، اسی طرح لل دید نے ان واکھوں کے ذریعے حق کی دلیل پیش کی ہے۔ اس مکالمے کے تین بند ہیں اور ہر بند کے شعر زندگی کی حقیقت، ماہیت اور اصلیت کی طرف بلیغ اور پرکشش اسلوب میں توجہ کی دعوت دیتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ لل دید نے ایک خاص مقام پر پہنچ کر اسلام قبول کرلیا تھا اور وہ حضرت میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئی تھی۔یوگندر سنگھ عرف ڈاکٹر کبیر’’اسلام اور کشمیر‘‘ کے حوالے سے اپنی انگریزی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ کچھ قلم کار لل دید کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ شو بھگت تھی اور یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ اس نے اسلام قبول کرلیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت سے صوفیوں سے ملی تھی اور بہت سی دوسری باتیں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ لل دید نے مذہب کے طور اسلام کو قبول کرلیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ مسلمان بننے کے بعد ہی اس نے یہ واکھ کہا تھا کہ:
کلمیے پورم کلمیے سورم
کلمیے کورم پنن پان
کلمیے ہنہ ہنہ موین تورم
ادہ لل بو واژس لامکان
یعنی میں نے کلمہ پڑھ لیا اور کلمہ کی تحقیق کی اور اپنے آپ کو کلمہ کے مصداق بنایا یہاں تک کہ کلمہ میری رگ رگ میں سما گیا اور اسی کلمہ کی بدولت میں نے منزل پالی۔
یہ صرف معانی کی خوبصورتی اور روحانی تجربے کی طاقتور تاثیر ہی نہیں ہے جو لل دید کے کلام کو شعری اعتبار بخشتے ہیں بلکہ لل دید کے واکھ فنی لحاظ سے بھی اعلی معیار کے ہیں۔ موزوں الفاظ کو وزن کے سانچے میں ڈھالنا سخن وری ہے اور لل دید کے واکھوں میں یہ خوبی نمایاں ہے اور ان سے لل دید کا یہ ہنر جھلکتا ہے۔ چونکہ اس کا یہ فن اور خوبی عطائی ہے، اس لئے اس کے کلام میں بے ساختگی ہے۔ علامتوں کا استعمال بھی اس کی شاعری کو فنی زاوئے سے اعلی معیار تک لے جاتا ہے۔ شعر کے جو فنی لوازمات متعین ہیں، اس کے اعتبار سے بھی لل دید کی شاعری اپنی نفاستوں اور نزاکتوں کے ساتھ پوارا اُترتی ہے۔
شاعری کی بہت اصناف ہیں: مثلا غزل، نظم، مسدس، رباعی، مثنوی، ثلاثی (یہ تین مصرعوں پر مشتمل صنف سخن ہے)، قطعہ (جو چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے)، ماہیا (پنچابی شاعری کی صنف اور پنجابی تہذیب کا حصہ ہے)، گیت، قوالی، معریٰ نظم، آزاد نظم، سانیٹ، ہائیکو وغیرہ۔ مگر لل دید کی شاعری کی اپنی الگ انفرادیت ہے۔ اس کی شاعری کے چار مصرعوں کو واکھ کہتے ہیں۔ واکھ کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ کشمیری شاعری کی اولین صورت کو واکھ کہتے ہیں اور یہ چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا تھا اور اگلے وقتوں میں کشمیری شاعر اپنے کلام کے لئے یہی صنف استعمال کرنا جانتا تھا۔ واکھ سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معانی گفتگو، تقریر، کلام، بیان اور اظہار خیال وغیرہ کے ہیں۔چونکہ لل دید نے اپنے واکھوں میں اکثر استعاراتی زبان استعمال کی ہے ،اس لئے اس میں فلسفے کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں مگر ساتھ ہی ان واکھوں میں معانی کا سمندر ڈال دیا گیا ہے۔ جہاں جہاں لل دید نے فلاحی، اصلاحی یا تدریسی زبان استعمال کی ہے وہ بھی بڑی با اثر ہے۔لل دید کی شاعری لفظوں کا انبار نہیں ہے بلکہ اس کے واکھوں میں ایک روح تھرکتی اور مچلتی محسوس ہوتی ہے اور یہی وجہ کہ اس کا واکھ سن کر بھلے ہی پہلے اس کا معنی سمجھ میں نہ آئے مگر اس میں ایسی انقلابی لہر دوڑتی محسوس ہوتی ہے کہ اس کا واکھ سیدھا دل میں اُترجاتا ہے۔ لل دید نے اپنے واکھوں میں زندگی کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے واکھوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے کیونکہ ان میں فکر کی بلندی اور تخیل کی پرواز اتنی اونچی ہے کہ اس کی شاعری کو سمجھنے کے لئے کسی معتبر صاحب علم اور دانائے راز سے مدد لینا ضروری ہے۔لل دید یا اور کچھ معتبر صوفی شاعروں کے کلام پر عام نقادوں نے جو لکھا ہے وہ محض ان کی عام ذہانت، قوت علم اور زور قلم کا نتیجہ ہے اور اسے ان کی قلمی مشقت کا نام دیا جاسکتا ہے، جب کہ صوفی قبیلے کے شاعروں اور دیگر عارفوں کے کلام کو جانچنے اور تجزیہ کرنے کے لئے ’’اذواقِ عالیہ‘‘ اور ’’احوال ِصحیحہ‘‘ حاصل ہونے چاہیں اور ناقدین خود عملی طور پر ان منازل سے گذرے ہوئے ہونے چاہئیں جن پر وہ بات کرتے ہوں۔ جہاں تحریر میں غیبی مدد شامل ہوتی ہے، وہاں اظہار خیال بے تکلف ہوتا ہے، جب کہ ان تحریروں میں جو ذہنی مشقت سے وجود میں لائی جاتی ہیں، وہاں قلم وزبان میں ایک بندش اور رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس کا احساس ذوقی ہے، منطق سے ثابت نہیں ہوسکتا۔ ایک اسلامی مفکر کا کہنا ہے کہ ’’جب عقول وتصورات میں وسعت ہوتی ہے تو عبارتوں میں بھی وسعت ہوتی ہے۔ جب دماغ تنگ اور تصورات محدود ہوتے ہیں تو انسان ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہ عقلی اور لسانی طور پر بھی محبوس ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جنہیں غیبی مدد نہیں ملتی وہ اپنے علم وبیان میں بڑے تنگ دامن اور اپنے تصور و تعبیر میں بڑے عاجز نظر آتے ہیں اور منطق کے اشتغال سے لوگوں کے ذہن وزبان پر قفل پڑجاتے ہی۔‘‘ایمان کی پختگی اور بزرگوں کی صحبت یقینا ایک صاحب قلم کی تحریروں اور تخلیقات پر اپنا اثر چھوڑدیتے ہیں اور ان میں حلاوت اور بلاغت نمایاں ہوجاتی ہے جو قاری یا سامع کے دل ودماغ میں بھی مسحور کن کیفیات اُبھارتے ہیں۔
نویں صدی کے ایک مفکر ابن خلدون کا کہنا ہے کہ ’’عقل ایک صحیح ترازو ہے، اس کے فیصلے یقینی ہیں جن میں کوئی جھوٹ نہیں لیکن تم اس ترازو سے نورِ توحید، امورِ آخرت، نبوت، صفات الہٰی اور وہ تمام امور وحقائق جو ماوراء عقل ہیں، تول نہیں سکتے۔ یہ لاحاصل کوشش ہوگی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے ایک ترازو دیکھی جو سونے کا وزن کرنے کے لئے ہے، اس کو اس ترازو میں پہاڑ کے تولنے کا شوق پیدا ہوا ،جو ناممکن العمل ہے۔ اس سے ترازو کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اس کی گنجائش کی ایک حد ہے۔ اسی طرح عقل کے عمل کا بھی ایک دائرہ ہے جس سے باہر وہ قدم نہیں نکال سکتی، وہ اللہ اور اس کے صفات کا احاطہ نہیں کرسکتی ،اس لئے کہ وہ اس کے وجود کا ایک ذرہ ہے۔
روحانی اعتبار سے لل دید کا کیا مقام ہے وہ اس کے ذیل کے اشعار سے بھی معلوم ہوتا ہے۔وہ کہتی ہے:
آمین ٹاکین پونی زن شمان
دل چھم برمان گھرہ گژھ ہا
یعنی میرے کچے کٹوروں میں جو پانی ہے وہ رس رہا ہے، اب جی چاہ رہا ہے کہ گھر جاؤں۔
یہاں بھی لل دید نے علامتی زبان استعمال کی ہے۔ پانی کو عمر کی علامت میں پیش کیا ہے اور کٹوروں کو دن اور رات یا وقت کا استعارہ بنایا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وقت گزر رہا ہے اور یوں میری عمر گھٹ رہی ہے۔ اب تو یہی تمنا ہے کہ اپنے محبوب سے مل لوں، یعنی موت کی تمنا کا اظہار کرتی ہے کیونکہ محبوب یعنی خدا سے موت کے بعد ہی ملا جاسکتا ہے۔موت کے حوالے سے یہاں کچھ باتوں کا ذکر لل دید کے روحانی مقام کا تعین کرنے میں مدد دے گا۔دنیا میں چار طرح کے لوگ ہیں۔ایک شخص وہ ہوتا ہے جو مرنا نہیں چاہتا اور موت سے ڈرتا ہے کیونکہ وہ اس مادی دنیا سے کچھ اس طرح جڑا رہتا ہے کہ اُسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ چونکہ خدا سے موت کے بعد ہی ملا جاسکتا ہے، اس لئے موت کو نا پسند کرنے سے مراد خدا سے ملنے کو نا پسند کرنا ہے۔ چنانچہ ایسے شخص سے خدا بھی ملنا پسند نہیں فرماتا، اس لئے ایسا شخص کافر مانا جاتا ہے۔دوسرا شخص وہ ہوتا ہے کہ وہ بھی مرنا نہیں چاہتا مگر اس کی وجہ اس مادی دنیا سے محبت نہیں ہوتی بلکہ اسے اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ میرے پاس آخرت کے لئے کوئی پونجی نہیں ہے اور یہ اس حساب وکتاب سے گھبراتا ہے جو مرنے کے بعد ہوتا ہے۔ یہ شخص مومن کہلاتا ہے مگر کم درجے کا۔تیسرا شخص وہ ہوتا ہے جو موت کے لئے بے تاب ہوتا ہے اور اسے پسند کرتا ہے کیونکہ اسے خدا سے ملنے کا اشتیاق ہوتا ہے۔ یہ شخص مادی دنیا سے کم جڑا رہتا ہے۔ ایسا شخص درویشوں، صوفیوں اور صالحین میں شمار ہوتا ہے۔لل دید کے جس شعر کا ذکر اوپر ہوا، اس کے اعتبار سے مندجہ بالا حقائق کی روشنی میں لل دید کے روحانی مقام کو تیسرا درجہ یعنی درویشوں، صوفیوں اور صالحین کا مانا جاسکتا ہے۔موت کے حوالے سے چوتھا شخص وہ ہوتا ہے جس نے اپنی مرضی خدا کی مرضی میں فنا کی ہوئی ہوتی ہے۔ اس شخص کو نہ مرنے ہی کی خواہش ہوتی ہے اور نہ جینے کی ہی طلب۔ یہ شخص خدا کی رضا کے تابع ہوتا ہے۔ خدا اگر چاہے کہ یہ زندہ رہے تو یہ زندہ رہنے میں ہی خوش رہتا ہے، اور اگر خدا چاہے کہ یہ مرجائے تو یہ مرجانے پر ہی خوش رہتا ہے۔ یہ چوتھا درجہ روحانی اعتبار سے سب سے بلند مانا جاتا ہے۔جب لل دید کی روحانی ترقی ہوئی تو وہ روحانیت کے اسی آخری اور بلند مرتبہ پر فائز ہوئی۔ چنانچہ اس نے کہا:
مرہ نیچھ تہ لسہ نیچھ
ترجمہ: مروں تو اچھا، زندہ رہوں تو اچھا۔