ہندوارہ//اے آئی پی سربراہ انجینئر رشید نے ریاستی گورنر ستپال ملک کی طرف سے ریاستی انتظامیہ کونسل کا سہارا لیکر جموں کشمیر بنک کو پبلک سیکٹر ادارہ قرار دئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر موصوف اپنے اختیارات سے از حد درجہ تجاوز کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ ڈوگری پورہ ہندوارہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا ’’یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ نئی دلی جموں کشمیر بنک کی خودمختاری کو ختم کرنے کی تاک میں عرصہ دراز سے لگی ہوئی تھی اور اب گورنر راج کی آڑ میں جموں کشمیر بنک کی خودمختاری پر شب خون مارا گیا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے ۔ گورنر کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اور ان کے غیر ریاستی مشیروں کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ ایسے اہم فیصلے لیں جو کہ ریاست کی خصوصی شناخت اور اس کے اہم اداروں کی خودمختاری کو چھیننے کا باعث بنیں۔ گورنر کی تقرری محض ایک عارضی قدم ہے اور انہیں اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بار بار کی حماقتوں سے باز آنا چاہئے۔جس طرح گورنر انتظامیہ اب اپنے فیصلے کو درست قرار دینے کیلئے تاویلات نکال رہی ہے وہ جہاں ناقابل قبول ہے وہاں اعتراف گناہ بھی ہے ۔ ‘‘ انجینئر رشید نے نئی دلی پر الزام لگایا کہ اس نے کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کیلئے وردی پوشوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ انہوں نے کہا ’’جس طرح صرف کچھ گھنٹوں میں 17کشمیریوں کو شہید کیا گیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نئی دلی کے نزدیک کشمیریوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور انکی جان لینا نئی دلی کیلئے قومی مفاد کا متبادل بن چکا ہے ۔ دکھ تو یہ ہے کہ کشمیریوںکے مارنے پر جشن منایا جا رہا ہے اور انہیں عسکریت پسند، علیحدگی پسند اور شر پسند کہہ کر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ وقت آ چکا ہے کہ اب نئی دلی ہٹ دھرمی چھوڑ کر پاکستان ، کشمیریوں کی عسکری قیادت اور سیاسی قیادت سے بلا شرط بات چیت شروع کرے تاکہ انسانی جانوں کے اتلاف کو روکا جا سکے‘‘۔ انجینئر رشید نے این سی اور پی ڈی پی کی طرف سے سرکار بنائے جانے کے دعوئوں کے بعد اُن کے درپردہ عزائم کی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اگر گورنر ستپال ملک نے انہیں سرکار بنانے سے روک لیا تو بھلا ان تینوںجماعتوں کے 56اراکین قانون سازیہ کو کس نے راج بھون یا راشٹر پتی بھون کا دروازہ کھٹکھٹانے سے روکا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ جماعتیں نئی دلی کی دشمنی مول لینے کیلئے تیار نہیں اور نہ ہی ان میں رتی بھر بھی اس قدر خلوص موجود ہے کہ یہ اپنے لوگوں کے جائز جذبات کی ترجمانی کر سکیں ۔ اگر واقعی این سی اور پی ڈی پی سرکار بنانے میں سنجیدہ ہوتی تو ان دونوں جماعتوں نے کم از کم سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہوتا ۔ اگر اب بھی یہ جماعتیں کشمیریوں کے غم میں ڈوبنے کا تاثر دے رہی ہیں تو انہیں چاہئے کہ یہ آنے والے اسمبلی انتخابات اکھٹے لڑیں تاکہ کانگریس اور خاص طور سے بی جے پی کے متعلق ان کے خدشات کو دور کیا جا سکے ۔ اگر یہ جماعتیں ایسا نہیں کرتی ہیں تو کشمیری یہ سمجھنے میں حق بجانب ہونگے کہ ان جماعتوں کا مقصد صرف کشمیریوں کے ہمدردوں کا ڈھونگ رچانا ہے تاکہ اقتدار کی رنگ رلیاں ان کی جھولیوں میں سمٹ جائے اور اہل کشمیر سے ووٹ لینے کے بعد حسب عادت ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا جا سکے ‘‘۔