’’ سفر نامہ ‘‘ اپنی سرشت میں موضوعاتی صنف ہے لیکن اسفار کی کیفیت ، مدت اور نوعیت سے اس کے حدود اور امکانات کی شیرازہ بندی ہوتی ہے ۔ اتنی بات تو بہر حال طے ہے کہ کوئی بھی مسافر ’’سفر نامہ ‘‘ تحریر کرنے کی نیت سے رخت ِسفر نہیں باندھتا ہے بلکہ سفر کے متعلق آخری فیصلہ لینے کے وقت تک سفر نامہ کے بارے میں کوئی ادیب یا قلم کار سوچتا بھی نہیں کیوں کہ یہ وہ نازک مرحلہ ہوتا ہے جب وہ سفر سے متعلق مختلف معاملات کا ہر زاؤیے سے جائزہ لے رہا ہوتا ہے۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سفر نامہ ادبی اعتبار سے ایک غیر افسانوی نثری صنف ہے جس میں مسافر اپنے سفر کی روداد حقیقی موضوع کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس دوران وہ زبان کے تخلیقی استعمال پر حتی المقدور توجہ کرکے اپنی تحریر کو خشک روزنامچہ نویسی بنانے سے روک لینے کی شعوری کوشش کرتاہے اور حقیقی واقعات کی مانوسیت کو نامانوس بنا کر قارئین کے لیے دلچسپ بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یوں تو سفر نامہ نگار اپنی دوسری ادیبانہ کاوشوں اور کوششوں سے ادبی اُفق پر اپنی شناخت قائم کرلیتا ہے مگر خالص سفرنامہ لکھنے کی بابت وہ ادیب یا قلم کار نہیں کہلایاجاتا ہے لیکن کچھ انفرادی اور استثنائی صورتوں میں کسی سفرنامہ نگار کا سفر نامہ اُس ادیب کی دوسری ادیبانہ سرگرمیوں اور کامیابیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ۔ اُردو میں اس کی واحد اور اہم مثال یوسف حسین خان کمبل پوش ہے جن کا ادبی وجود خالص ان کے سفر نامے ’’تاریخِ یوسفی‘‘ سے مشروط ہے ،جب کہ دیگر اہم سفر نامے لکھنے والوں نے ادب کی مختلف اصناف میں اپنی شناخت قائم کرلی ہے۔ اس لیے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ خالص سفر نامہ تحریر کرنے سے کسی کی ادبی شناخت قائم نہیں ہوسکتی بلکہ سرسید احمد خان اور شبلی ؔ نعمانی سے لے کر احتشام حسین اور دورِ حاضر کے ادبا و شعرا تک نے دوسری اصنافِ ادب کو نمایاں طور پر مالامال کرنے کی سعی کی وکاوش ہے ۔ ویسے بھی بہت ہی قلیل تعداد میں اُردو کی خواتین قلم کاروں نے سفرنامے کی جانب التفات کیا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں پروفیسر دردانہ قاسمی کا موریشیس کے سفرپر مبنی سفر نامہ سامنے آیا ہے ۔ واضح رہے کہ کشمیر کی سیاحت پر مبنی ڈاکٹر محمد مجیب خان کا سفر نامہ ’’جہلم کے اُس پار‘‘۲۰۱۲ء میں منصہ شہود پر آیا اور اب اس سلسلے میں معروف ادیبہ پروفیسر شہناز نبی کا سفر نامہ قابل ذکر ہے۔
اس قدرے طویل تمہید کے بعد آئیے اُس علمی و ادبی شخصیت کے ’’سفرنامۂ کشمیر جنت نظیر ‘‘کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں جو کم و بیش چار دہائیوں سے اُردو شعرو ادب کے گیسوسنوارنے میں منہمک اور مستعد ہے۔ یہ علمی و ادبی شخصیت ادبی حلقوں میں پروفیسر شہناز نبی کے طور پر ساری اُردو دنیا میںاپنی شناخت قائم کرچکی ہے۔ تانیثیت اِن کا محبوب موضوع ہے اور اس پر کئی کتابیں بھی سپردِ قلم کر چکی ہیں اور ان کی تخلیقات میں خواتین کے جبلی اور فطری احساسات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ان پر ہورہے مظالم کی ترجمانی بحسن و خوبی ہورہی ہے۔ ماضی قریب میں انہوں نے ’’رہروانِ ادب‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی ادبی جریدہ شائع کرکے اپنی شخصیت کے ایک اور پہلو کو منکشف کیا ۔یہ جریدہ بہت کم وقت میں علمی اور ادبی مجالس میں قابلِ ذکر تصور کیا گیا۔موصوفہ نے جون ۲۰۱۸ء میں وادیٔ کشمیر کا دس روزہ سفر کیا اور اپنی طبیعت کی روانی کے پیش نظر انہوں نے صرف دو مہینوں میں اس سفر کی روداد ایک سفر نامہ میں پیش کی جو ’’سفر نامۂ کشمیر جنت نظیر‘ ‘کے نام سے رہروانِ ادب پبلی کیشنز نے ایلیٹ روڈ کولکتہ سے شائع کیا ہے ۔
’’سفر نامۂ کشمیر جنت نظیر ‘‘ پرفیسر شہناز نبی کے دس روزہ سفر کشمیر پر مبنی ہے جس میں سفر نامہ نگار کے وسیع تجربات ،عمیق مشاہدات اورفکری ترجیحات جستہ جستہ قارئین کی توجہ اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک سفر نامہ نہیں بلکہ وادیٔ کشمیر کی سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال کا عمدہ اور خوب صورت آئینہ ہے۔ مذکورہ سفرنامہ کو دس عنوانات کے تحت تحریر کیا گیا ہے ، جو اس طرح ہیں : ۱۔ چلتے ہو ، کشمیر کو چلئے ،۲۔ سری نگر اور ہم، ۳۔ گلمرگ ، ۴۔ شہنشاہ پیلس اور ڈل جھیل ۵۔ چرارشریف اور حضرت بل ،۶۔ پرتاپ پارک کے آس پاس ، ۷۔ پہلگام، ۸۔ کشمیر بند ہے ، ۹۔ دانشورانِ کشمیر کے درمیان، ۱۰۔ چلتے چلتے,،۱۱۔ بعد از کشمیر
یوں تو اس سفر نامہ کا ہر عنوان مسافر کی علمی ،ادبی اورسیاحتی مصروفیات کااحاطہ کرتا ہوا نظر آتا ہے لیکن مصنفہ نے ہر جگہ اپنی صوابدید کے مطابق کشمیر کے حالات و قعات اور روایات و اقدار پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ اہم نکات کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش کی ہے۔ ’’چلتے ہو، کشمیر کو چلئے‘‘ کے عنوان کے تحت وادیٔ کشمیر کی سیاحت کا منصوبہ، اس منصوبہ کی عمل آوری اور کولکتہ سے سرینگر تک کے ہوائی سفر کا حال درج ہے ۔ اس دوران مصنفہ نے گرد و پیش کی جزئیات کا جس سلیقے اور ذمہّ داری کے ساتھ اظہار کیا ہے ، وہ واقعی ان کی طائرانہ نظر کی غماز ہے۔ سرینگر کے طیرانگاہ پر اُترتے ہوئے انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ان کے احساسِ حسن اور نظریہ جمال کے پختہ اور عمدہ ہونے کا بین ثبوت فراہم کرتے ہیں :’’کشمیر بلندیوں سے کتنا پیارا لگ رہا تھا ، اونچے نیچے پہاڑ، اڑتے ہوئے بادل ، لہراتے ہوئے چنار، بل کھاتی نہریں ۔۔۔۔۔۔ بے حساب ، بے شمار رنگ۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کے قریب آتے آتے رنگ واضح ہونے لگے تھے۔ ہواؤں کی سرسراہٹ کا نوں میں گونج رہی تھی ۔ پھولوں کی خوشبو جیسے احساس کو معطر کیے دے رہی تھی۔ ہم نے دھرتی کے سارے رنگ کیمرے میں سمیٹ لیے ۔ جانے پھر کب آنا ہو ؟ بہت سی روحانی سرشاری کے لیے تھوڑا سا حوصلہ ضروری ہے ۔ ہم نے مٹی کی سگندھ کو اپنے اندر محسوس کیا ۔جہاز اب زمین کو چھونے کو ہے ۔ ایسا لگا کہ ہم زمرد سے لبا لب اک ہرے سمندر میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ ‘‘
’’سری نگر اور ہم ‘‘ اس سفر نامے کا دوسرا باب ہے جس میں انہوں نے سرینگر میں اپنے قیام اورمقامی مغل باغات مثلاً شالیمار باغ ، نشاط باغ ، ہارون باغ ، چشمہ شاہی ، پری محل کے علاوہ اقبال پارک کی سیاحت کا حال درج کیا ہے لیکن ہر قاری یہی محسوس کرے گا کہ یہ باب سفر نامہ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کشمیر بالخصوص سرینگرکی تصویر کشی معلوم ہوتا ہے ۔کسی باغ یامقام کی سیرو سیاحت سے زیادہ مصنفہ نے ان مقامات کا معائنہ کیا ہے وہ بھی اس منضبط انداز سے کہ قاری کو اس کا مطالعہ کرنے پر یہ جاسوسی نوعیت کی رپورٹنگ معلوم ہوتی ہے لیکن یہ بادی النظر میں ان کی زیرکی اور قوتِ مشاہدہ پر دلالت کرتی ہے :
’’پارک کی باہری دیوار پہ ڈاکٹر سر محمد اقبال پارک لکھا تھا ۔ ہم سب کالے رنگ کی بڑی سی پھاٹک کی طرف بڑھے اور اندر داخل ہوئے چند قدم چلنے کے بعد ہی داہنی طرف کالے پتھروں سے بنی ایک دیوار دکھائی دی جس پر علامہ اقبال کی شبیہ کندہ کرائی گئی ہے۔ تصویر کے پاس پتھریلی دیوار پہ انگریزی میں باغ کا نام ’ڈاکٹر سر محمد اقبال پارک ‘ لکھا ہے ۔ تفصیل درج کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس باغ کی رسم ِ رونمائی ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، وزیرِ اعلیٰ جموں و کشمیر نے 27/ جون 2002 کو ادا کی ۔ باغ کی زیبائش جموں و کشمیر بنک نے جناب ایم ۔ وائی خان کی چیرمین شپ میں کی ۔ باغ نظیر احمد خان نے ڈیزائن کیا ‘‘
یہ تفصیلات صرف باغات کے ضمن میں پیش نہیں کی گئی بلکہ ہوٹل ، کمرے، گاڑی ؛ غرض جن لوگوں ، اشیااور مقامات سے ان کو وابستگی رہی، ہر جگہ انہوں نے جزئیات کی تفصیل بیان کرنے کا یہی انداز اختیار کیا۔ اس سفرنامہ کے مطالعہ کے دوران بعض مقامات پر شبہ ہوتا ہے کہ ہم وادی کی سیاسی ابتری اور معاشی پستی پر مبنی کسی عمدہ اور تجربہ کار تجزیہ نگار کی تحریروں سے مکالمہ کررہے ہیں ۔ پروفیسر شہاز نبی کے اس سفر نامہ نے ان کو ایک سنجیدہ سیاسی تجزیہ کار کے طور پر بھی ابھارا ہے کیوں کہ وہ ہر واقعہ کو سیاسی زاویے سے دیکھنا نہیں بھولتیں ۔ سرینگر کے قلب لال چوک کے جہاں سے وہ سرسری نہیں گزریں بلکہ گزرتے ہوئے کہیں پر حال ہی میں جان بحق کیے گئے معروف صحافی اور دانشور ڈاکٹر شجاعت بخاری کی تصویر دیکھی ، پھر کیاتھا ،اس پر اس طرح تبصرہ کیا جیسے یہی کام اہم رہا ہے۔ شجاعت بخاری کے تعلق سے لکھتی ہیں :
’’شجاعت بخاری کی تصویر دیکھ کر دل میں ہوک اٹھی ۔ اس اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو صفحۂ ہستی سے مٹاتے ہوئے قاتلوں کو کوئی غم نہ ہوا ؟ ایک مایہ ناز اور بے باک صحافی ۔ شجاعت بخاری (25 / فروری 1968۔۔۔۔۔ 14/ جون2018 ) صرف پچاس سال کی عمر میں رخصت ہو گئے ۔ موت کی وجہ ؟ سازش کا تنگ ہوتا ہوا دائرہ ۔ سفاکانہ قتل ۔ دو ملکوں کے درمیان تنازعات ختم کرکے امن و امان قائم کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دینے کی ایک چال ۔ ‘‘
اسی طرح ان کی تعلیمی قابلیت اور ذہانت نیز قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ان کی پیشہ ورانہ وابستگی پر رقم طرز ہیں :
’’شجاعت بخاری نے اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ اتینیوی منیلا یونیورسٹی سے جرنلزم میں ایم۔اے تھے ۔ وہ ایشن سیٹر فار جرنلزم کے فیلو تھے اور انہیں ورلڈ پریس انٹی ٹیوٹ کا فیلو شپ بھی حاصل تھا ۔ وہ ایسٹ ویسٹ سینٹر ، ہوائی کے بھی فیلو تھے ۔ انھیں علمی و ادبی مشاغل سے دلچسپی تھی۔وہ ایک ادبی مرکز کے صدر تھے ‘‘ ۔
مسافر نے جس سنجیدگی اور اخلاصِ نیت کے ساتھ شجاعت بخاری جیسے قلم کار اور صحافی کا تذکرہ کیا ہے ، اُس سے سفرنامہ نگارکی انسانی اقدار پر یقینِ کامل ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح انہوںنے شہید کے تیئں ہمدردی اور ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرکے اپنے آئینِ ضمیر کی رونمائی کی ہے ۔ یہ ایسے اشارے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری کی نظر میں سفر نامہ نگار کا قد بہت اونچا ہوجاتا ہے ۔ ان مختلف سیاسی، سماجی، معاشی اور ادبی حالات و واقعات سے منسلک امور پر وہ کشمیر کے جہانوںسے سرسری نہیں گزریں بلکہ ہر جا جہانِ دیگر کی دریافت کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔
’’گلمرگ ‘‘ کے عنوان کے تحت سفرنامے کا تیسرا باب ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے ۔ اس باب کے ذیلی عنوانات اس شہرئہ آفا ق سیاحتی مقام کے مختلف علاقوں کی سیاحت کے تحت بار پا گئے ہیںجن میں ’’باباریشی ‘‘، ’’گلمرگ‘‘، ’’مہاراجہ ہری سنگھ کا محل‘‘اور ’’گنڈولہ ‘‘اہم ہیں اسی طرح اس باب کے آخر میں’’الوداع گلمرگ ‘‘ کا عنوان درج کرکے واپسی کے سفر کی روداد محفوظ کرلی گئی ہے۔کشمیر کے پُر تناؤ سیاسی حالات کے تحت جاری کشت و خون کے لامتناہی سلسلے نے ہر ذی حس اور باشعور انسان کی طرح سفرنامہ نگارپروفیسر شہناز نبی کو بھی حد درجہ متاثر کیا ہے ۔ اس اثرو نفوز کی شدت ان کے یہاں اس قدر گہری ہے کہ انہیں یہاں کی ہرتاریخی، مذہبی ، ادبی اور سیاحتی شناخت کے پسِ پردہ اغیارِ کشمیر کی ریشہ دوانیاں اور سازشی اذہان نظر آتے ہیں۔ ڈوگرہ مطلق العنان مہاراجہ ہری سنگھ کی ستم شعاریاں اور اہلِ کشمیر کے راہنماؤں کی ناعاقبت اندیشی اکثر مقامات پر انہیں متحیر کردیتی ہے۔گلمرگ کے مضافات میں واقع بابا ریشی ؒ کی زیارت پر حاضری دیتے ہوئے وہ مذہب کے تئیں مخصوص تصورات رکھنے کے باوجودبھی دردِ کشمیر سے کراہتی ہیںکیوں کہ یہاں پر زائرین کی ایک قابلِ لحاظ تعداد کو اللہ تعالی جلہ شانہ کے رحم و کرم کی امیدوار دیکھ رہی ہیں ۔سفرنامہ کے اس مقام پر قاری ان سے ایک سیاح کے خارجی تجربات و مشاہدات کی پیشکشی کے علاوہ کسی اور بات کی توقع نہیں کرسکتا لیکن سفرنامہ نامہ نگار کی وادیٔ کشمیر سے قلبی وابستگی کی بنیاد پر وہ خودکلامی (Soliloquy)کی تکنیک میں سفرنامہ نگار کہتی ہیں :
’’کیا مزاروں پہ مانگی ہوئی دعا قبول ہو جاتی ہے ؟ کیا واقعی کوئی خدا ہے؟ کیا واقعی وہ ہماری مجبوریوں کو سمجھتا ہے ؟ ہمارے مسائل کا حل نکل سکتا ہے ؟ ہماری دعائیں قبول کرتا ہے ؟ پھر تو ہماری ایک ہی دعا ہے کہ کشمیر کے مسائل جلد سے جلد حل ہوجائیں ۔ خونریزی بند ہوجائے اور وادیٔ کشمیر میں امن و سکون لوٹ آئے ‘‘ ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے ان سیر سپاٹے اور تفریحی لمحات میں بھی جہاں انسان دنیا و مافیا سے بے نیاز و بے پروا ہوکر مسحور و مسرور ہونے کی کوششوں میں مصروف ہوتا ہے وہیں سفرنامہ نگار کے ہاتھ مظلوم و مقہور اور مجبور و محتاج کشمیریوں کی گلو خلاصی کے لیے ہی اٹھتے ہیں ۔ انہوں نے منثور پیرائے میں اقبال ؔ کی ہمنوائی کی ہے ؎
پنجۂ ظلم و جہالت نے بُرا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پر و بال کیا
توڑ اُس دست ِجفا کیش کو یارب
جس نے روحِ آزادیٔ کشمیر کو پامال کیا
گلمرگ کی سیاحت کے متعلقات کو ضبطِ تحریر میںلاتے ہوئے شہناز نبی نے اس مقام کو نامیانے کی تاریخ اور وجہ تسمیہ بھی پیش کی ہے ۔ ایک متحرک اور فعال ذہن کی مالکہ ہوتے ہوئے ان کی ہر بات متجسسانہ نوعیت رکھتی ہے ، اس کی ایک وجہ ان کی تحقیق و تنقید سے پیشہ ورانہ وابستگی ہے۔ اس لیے ہر گام پر ان کے یہاں تلاش و جستجوکا عنصر پھلتا پھولتا نظر آتا ہے۔ گلمرگ کے سفر کی روداد پیش کرتے ہوئے انہوں نے تاریخی حقائق کو جس طرح ملحوظ رکھا ہے وہ ان کے پختہ استدلالی شعور اور تاریخ فہمی پر دال ہے۔ لکھتی ہیں:
’’کہتے ہیں اس کا نام ’گلمرگ‘ سلطان یوسف شاہ نے رکھا تھا جو سولہویں صدی میں چک خاندان کا سلطان تھا ۔ وہ اپنی ملکہ حبہ خاتون کے ساتھ برابر یہاں سیر کو آتا تھا ۔ وہ حبّہ جس کا اصلی نام زون (چاند) تھا۔ جس کی خوب صورتی بے مثال تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ حبّہ خاتون نے کشمیری زبان میں ’لول‘ کی بنیاد ڈالی جو محبت کے گیت ہیں اور جن میں سوز و گداز کی فراوانی ہے ۔ کشمیری زبان میں کہی گئی شاعری ایک طویل عرصے تک زبانی بیانیہ رہی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مغل بادشاہ اکبر کشمیر کو ہتھیانے کے تانے بانے بُن رہا تھا ۔ اس نے دھوکے سے یوسف شاہ کو دلّی بلا بھیجا اور گرفتار کرکے بنگال بھیج دیا ۔ یوسف قید میں تمام ہوا اور بہار میں اس کی تدفین کی گئی ۶؎۔ اس کی جدائی نے حبّہ خاتون کے گیتوں میں گداختگی کو مزید گہرا کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ یوسف شاہ کا انتظار کرتے کرتے بالآخر ایک دن وہ بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کوگئی ‘‘۔
موصوفہ نے جس امر کو بھی موضوع بنایا ،چاہے وہ لسانی ہو یا تہذیبی ، ادبی ہو یا تاریخی ، اس کی تان بالآخر سیاست پر ہی ٹوٹتی ہے ۔متذکرہ بالا اقتباس اس کا بیّن ثبوت ہے ۔اس سفر نامے کے کشمیری قارئین بہ حیثیتِ مجموعی اکشمیر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ سے کماحقہ واقفیت تو رکھتے ہیں لیکن کشمیر سے باہر کے اُردو قارئین کو یہ سفر نامہ صدیوں سے ظلم و جبر کی چکّی میں پِس رہے کشمیر کو جاننے اور پہچاننے میں بہت حد تک راہ نمائی کرسکتی ہے۔ اس باب میں باباریشی ؒ کی روح پرور زیارت اور گلمرگ کے سبزہ زاروں اور کوہساروںکے علاوہ مہاراجہ ہری سنگھ کے محل اور گنڈولہ کا حال بھی بیان کیا گیا ہے ۔انہوں نے ان تمام کے ضمن میں اہم تفصیلات بھی فراہم کی ہیں جو ان کی تحقیقی شخصیت کا ایک عمدہ تصور پیش کرتی ہیں۔
’’شہنشاہ پیلس اور ڈل جھیل ‘‘ اس سفرنامے کا چوتھا باب ہے ۔وادیٔ کشمیر کا معروف شہنشاہ پیلس عصرِ حاضر میں سارے ہندوستان میں اُردو ادبا اور شعرا کے درمیان بہت ہی مشہور ہے کیوں کہ اس پیلس کے سرپرست نامور فکشن نگار وحشی سعید اپنی ادب دوستی اور ادیبوں کی مہمان نوازی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔مقامی اور بیرونی ادبا اور شعرا کے اعزاز میں آئے روز یہاںادبی نشستیں منعقد کی جاتی رہتی ہیں۔پرفیسر شہناز نبی کے اعزاز میں شہنشاہ پیلس ڈل گیٹ میں تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت ریٹائرڈ منصف بشیر احمد کرمانی نے کی جب کہ ممتاز اُردو فکشن نگار نورشاہ ، وحشی سعید اور ڈاکٹر اشرف آثاری بھی مجلس صدارت میں جلوہ افروز تھے۔ اس موقع پر موصوفہ کا شعری مجموعہ ’’نظمیں ہماریاں‘‘ کی بھی رسمِ رونمائی انجام دی گئی۔ان سارے احوال کو مصنفہ نے عمدہ طریقے سے بیان کیا ہے نیز ڈل جھیل کی سیر و سیاحت اور اس سے وابستہ ہزاروں نفوس کے متعلق اپنے خیالات اور احساسات کو بھی ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔
سفر نامہ کا پانچواں باب ’’چرارشریف اور حضرت بل ‘‘ کے نام معنون ہے۔یوں تو یہ عنوان سفرنامہ نگار کی علمدارِ کشمیر حضرت شیخ العالم شیخ نورالدین نورانی ؒ کی زیارت واقع چرارشریف اور درگاہ حضرت بل کے سفر کے روداد پر مبنی ہے لیکن وہ یہاں پر بھی کشمیر کے تاریخی اور سیاسی حالات و واقعات کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتیں بلکہ اب یہاں پر وہ کشمیر کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کے اوراق پلٹنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہیں ۔ ’کشمیر‘ کی وجہ تسمیہ نیل مت پُران کے مطابق وہ کشمیر کے اصل لفظ ’کسمرا‘ کو بیان کرتی ہیںاور ’کشیپ ریشی ‘ کے دیولامائی قصہ بھی اس دوران زیرِ بحث لایا گیا ہے ۔ کشمیر پر مختلف حکمرانوں کے ادوار کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے رنچن شاہ سے ہوتے ہوئے زین العابدین بڈشاہ اورچک خاندان کے بعد مغل، افغان ،سکھ اورڈوگرہ حکومتوں کا بھی احاطہ بھی کیا گیا ہے۔یہاں پر قاری کو اس درجہ حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ کسی مستند تاریخی متن کی قرأت کررہا ہے یا سفر نامہ کی۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد کی صورتِ حال اور کشمیر پر اُس کے منفی اثرات موصوفہ کی دلچسپی کا خاص محور ہے۔ سنین اور واقعات کی مستند پیشکشی نے اس سفر نامہ کی اہمیت و معنویت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ جناح اور نہرو کے مخصوص نقاطِ نظر ، اقوامِ متحدہ کی بے حِسی ، ہندوستان کے ساتھ مشروط دستاویزی الحاق، چین کے قبضے میں کشمیر کی اراضی ، پاکستان کے سرحدی قبائلیوں کا حملہ، آئینِ ہند کی دفعہ ۳۷۰، ہندنواز کشمیری راہ نماؤؤں کی ضمیر فروشی، پاکستان کی درپردہ سازشیں، صدیوں سے مظلوم کشمیریوں کے ظلم و ستم کا لامتناہی سلسلہ اور وادی میں انسانی جانوں اور املاک کے ضیاع وغیرہ موضوعات پر موصوفہ نے اپنی صوابدید کے مطابق بحث کی ہے اور ان سارے امور کے بعد ان کے زاؤیہ نظر کی تان اس جملے پر آکے ٹوٹتی ہے کہ ’’جب راجواڑوں کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی ملک کے ساتھ بھی ضم ہو سکتے ہیں تو اکثریت کی بنیاد پہ کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی کوشش کیوں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ کشمیر کے نوجوانوں کے ذہن میں ہندوستان کے خلاف اتنا زہر کیوں ؟ ‘‘موصوفہ کے ان استفہامیہ کلمات نے کشمیریوں کی سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ لائقِ توجہ ہے۔
کشمیر سے متعلق مختلف سیاسی بیانیے زیر بحث لانے کے بعد اس باب (یعنی پانچویں باب میں ) میں چرارشریف کی سیاحت کی رُوداد بھی تمام تر جزئیات کے ساتھ درج ہوئی ہے۔ ویسے بھی چرارشریف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی خاک میں شیخ العالم ؒپیوستہ ہیںاور یہ مقام اسی وجہ سے ساری دنیا میں مشہور و مقبول ہے۔ ۱۹۹۵ء کے سانحہ نے اس کو نہایت ہی ہنگامہ خیز بنا دیا تھا جب مقامی اور پاکستانی جنگجوؤں‘جن کی سربراہی مست گل کررہا تھا، کی موجودگی پر بھارتی افواج نے تین مہینوں تک ساری بستی کو اپنے حصار میں رکھااور آخر کار آٹھ سو رہایشی مکانات، دو سو دکانات اور چھ سو سالہ قدیم خانقاہِ فیض پناہ اور آستانِ عالیہ دس اور گیارہ مئی کی درمیانی رات کو آگ کے شعلوں کی نذر کردئے گئے ۔ قارئین ِ کرام کی اطلاع کے لیے عرض کروں کہ یہ احقر راقم بھی اسی بستی کا باشندہ ہے اور اُس سال دسویں جماعت کا طالبِ علم تھا ۔ آتش و آہن کی اس آندھی میں ہمارے گھر کی ساری پونجی لُٹ گئی ،بلکہ ہم بچے بھی اپنی درسی کتابوںکے بستوں سے بھی محروم ہوگئے ۔ سفرنامہ نگار نے چرارشریف کے اس سانحہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مست گل اور دوسرے اہم معاملات کے تعلق سے جن تفصیلات کا اظہار کیا ہے وہ خود بعض معاملات میں ہماری معلومات میں اضافے کا موجب بنیں:
’’چرارشریف کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں مست گل کی تصویر ابھرنے لگی تھی۔۔۔۔۔وہ ایک قبائلی خطہ سدّا کا رہنے والا ہے ۔ ۔۔۔۔۔ مقابلہ آرائی میں چرارشریف جل کر خاک ہوگیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مست گل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بھاگ نکلا تھا ۔ جب وہ پاکستان پہنچاتو اس کی بڑی پذیرائی ہوئی تھی‘‘۔چرارشریف کے حوالے سے موصوفہ کی اطلاعات ہمارے لیے بعض نکات کے حوالے سے انکشافی نوعیت کی حامل ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اس سانحہ کے چوبیس سال گزرنے کے باوجود بھی اس کا ذکر ہمارے لیے جذباتی معاملہ ثابت ہوتا ہے کیوں کہ ہم نے اپنے خوابوں کو ٹوٹتے ، اپنے گھروندوں کوبکھرتے اور اپنی درسی کتب تک کو شعلوں کی نذرہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ بے خوددؔ موہانی کا شعر بے ساختہ یاد آرہا ہے ؎
نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے
کبھی روئے کبھی سجدے کیے خاکِ نشیمن پر
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
رابطہ :ڈاکٹر الطاف انجم، نظامت فاصلاتی تعلیم ، کشمیر یونیورسٹی ، حضرت بل ۔190006،موبائل : 7006425827