شام میں کچھ مدیران حضرات نے تازہ رسالے عنایت کئے تھے۔ ایک کی جلد پر شائع تصویر میں فہمیدہ ریاض کی بھی ایک تازہ تصویر تھی، جیسے دیکھ کر ہم حیران رہ گئے تھے، اُن کی آنکھوں کے گرد گہرے گہرے سیاہ دائرے تھے۔ مشاعرے میں فاطمہ حسن صاحبہ بھی تھیں۔ انہوں نے تانیثیت کے موضوع پر اپنی کتا ب عنایت کی تھی۔( دیباچے میں ہماری کتاب’’بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب‘‘ کا اعتراف تھا ،اس موضوع پر ہم سے پہلے کسی نے تفصیلی کام ہی کیا تھا،نہ کوئی جامع حوالہ کہیں موجود تھا۔ ہمارے چھ برس لے لئے تھے اس فریضے کی ادائیگی نے)
فاطمہ صاحبہ نے بتایا کہ فہمیدہ ریاض کے ساتھ ایک سانحہ پیش آیا ہے۔ سانحہ بھی ایسا کہ جینا ناممکن سا ہو جائے اور غم کم ہونے کا نا م ہی نہ لے۔ بہرحال فہمیدہ ریاض کی ممتا کا درد لئے ہم دلی آگئے۔ ایک نظم ہوئی’’ ایک تصویر ‘‘جو ایوانِ اردو میں آئی تھی۔ سرحد پار بھی شائع ہوئی تھی۔ فہمیدہ ریاض کا فون آیا اور نم نم سی آواز میں انہوں نے جانے کیا کہا تھا کہ ہمارے دل کا درد رُوح تک اُتر آیا تھا۔ عزیز از جان اولاد ، پیراکی کیلئے جائے اور لوٹ کر نہ آئے۔۔۔ تو ۔۔۔ تقریباً دہائی بھر پہلے کی بات ہے کہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ اور اخبارِ’’ جنگ ‘‘نے سرحدوں میں بٹی رنجشوں کو پائیدار دوستی میں بدلنے کے کوشش کرتے ہوئے مشترکہ طور پر ادبی تقریبات کا آغاز کیا تھا۔ سن2010کے اوائل میں کراچی کے آرٹ کونسل میں کچھ پروگرامز ہوئے تھے۔ دو شامیں مشاعروں کیلئے بھی وقف تھیں۔ تقریب کے آغاز سے پہلے پنجروں سے کبوتر آزاد کئے گئے۔ اندھیرے آسمان کے پس منظر میں بے شمار سفید پرندے اِدھر اُدھر پھڑ پھراتے پھرے کہ اس تاریکی میں انہیں راہ کہاں سجھائی دے سکتی تھی۔ پھر لوٹ کر آرٹ کونسل کے دفتر کی چھت پر جہاں کہیں ہلکی سی روشنی میں کچھ نظر آئی، وہاں جا بیٹھے۔ بہت سے بجلی کے تاروں پر رات بھر توزان قائم رکھنے پر کوشاں رہے۔ ان کے منے منے گلابی پنجے پھسلتے رہے اور ہماری نظر اس طرف اُٹھتی رہی، ان غریبوں کے لئے امن کا استعارہ قرار دے جانے کی سزارات بھر کی بے خوابی طے پائی۔ اس کے تھوڑی دیر بعد ہمارے پسندیدہ گلو کارمہدی حسن کو لوگ ویل چیئر پر بٹھائے سٹیج کی طر ف لارہے تھے۔ ہم اُٹھ کر قریب گئے، سلام کیا، جواب پایا اور بہت سے آنسو خاموش سے بہاتے اپنی جگہ آبیٹھے۔
دونوں مشاعروں کی فہرست میں فہمیدہ ریاض صاحبہ کا نام شامل تھا۔ وہ نہیں آئیں۔ ہمارے برابر میں ان کی نشست کسی اور نے پُر کی۔ دوسری شام خواتین کے مشاعرے کیلئے وقف تھی ،اس میں بھی ان کا انتظار رہا۔کچھ عرصے بعد دلی کی شنکر شاد مشاعرے کے دوران ملاقات ہوئی۔ ہمیں لگے لگایا۔ ہم نے پوچھا تھا کیسی ہیں فہمیدہ آپا؟ تو مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو، اچھی تو ہوں ترنم، تمہاری بات مان لی۔ کام کرتی ہوں، مصروف رہتی ہوں۔
مشاعرے میں ہم ان کے قریب بیٹھے تھے اور سمجھ گئے تھے وہ اب اچھی نہیں ہیں کہ انہوں نے اپنی صحت خراب کر لی تھی۔ دلی ادا ہوگیا تھا کہ ہم نے دو ر حاضر کی اس اہم شاعرہ کے فن کا اپنے مضامین میں تفصیلی جائزہ پیش کیاہے۔ پھر انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں ایک شعری نشست میں ملاقات ہوئی۔ ہم اپنا کلام پڑھ چکے تو انہوں نے بے نظم’’ ایک تصویر‘ ‘کی فرمائش کی، اس کے بعد ملاقات نہیں ہوئی۔ انہوں نے چپکے سے جانے کی ٹھان لی ہوگئی۔ اللہ غریقِ رحمت فرمائے۔۔۔ آمین
ایک تصویر
ایک تصویر جو ہم دیکھتے آئے برسوں
نقش ہے دل پہ ، تعارف کے ہی ساتھ
وہ ذہانت سے چمکتی آنکھیں
سوچ میں ڈوبی ہوئی چاند سی اک پیشانی
زلفِ خم دار کتابی چہرہ
صنفِ محکوم کے دُکھ درد میں غلطاں پیچاں!
اور تصویر کے ہمراہ معمار قلم
دانش و فکر سے ادارک سے منطق سے جو
دل بے حس کو بھی بیدار کرے
آج تصویر نظر آئی تو جی بھر آیا
ان ذہانت بھری آنکھوں میں سیہ حلقے ہیں
رُخ روشن پہ نظر آتے ہیں لہراتے ہوئے،
غم کے سفاک، ستم گرسائے
کوئی ہم عصر کہ مداح کہ قاری یا کہ دوست
سب ہوئے جاتے ہیں دل آزردہ
جاں لرزتی ہے نہ مر جھائے شگفتہ سایہ پھول
ہیں دعا گو کہ یہ مضروب جگر پائے سکوں
دل نازک کو قرار آجائے
پھر وہ بچوں سی ہنسی رہنے لگے ہونٹوں پر
تھام لے بادِ صبا ، موسم گل ، دامن کو
یوں خفا ہو کے نہ دنیا سے نگاہیں پھیرو
شاعرہ!
ہم سے نہ خود کو چھینو
( فہمیدہ ریاض کیلئے)
اے قوم!
غیرت تمہاری کیا ہوئی؟
دل کی بات