نئی دہلی // سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ میں جموں و کشمیر اورمنی پورہ تعینات رہے350سے زائد فوجی اہلکاروں کی اُس پٹیشن کو خارج کردیا جس میں انہوں نے افسپا کے تحت حاصل استثنیٰ کے ہوتے ہوئے انکے خلاف ایف آئی آر درج کرنا چیلنج کیا تھا۔تاہم مرکزی سرکار نے یہ استدال پیش کیا کہ اس فیصلے سے ان فوجی اہلکاروں کے حوصلے پست ہوجائیں گے جو دہشت گردی کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے مرکزی سرکار کی اِ س التجا کو بھی مسترد کردیا جس میں مرکز نے فوجی اہلکاروں کی عرضی کی حمایت کی تھی، اور کہا تھا ’’ معاملے پربحث و مباحثہ ہونا چاہیے، تاکہ ایسا ایسے میکانزم پر پہنچا جاسکے جس میں دہشت گردی کیخلاف لڑ رہے فوجی اہلکاروں کے ہاتھ نہ تھرتھرائیں۔ آرمڈ فورسز سپیشل پائورس ایکٹ’افسپا‘ کے تحت فوج کو شورش زدہ علاقوں میں کوئی بھی آپریشن کرنے کا اختیار ہے جس میں انہیں ہر قسم کا استثنیٰ حاصل ہے۔مرکزی سرکار کا کہنا ہے ’’فوجی اہلکار شورش زدہ علاقوں میں بالکل مختلف صورتحال میں کام کرتے ہیں، لہٰذا اس میںتوازن برقرار رکھنا لازمی ہے، تاہم جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس یو یو للت پر مشتمل سپریم کورٹ کے ڈویژن بینچ نے حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالسٹر جنرل توشار مہتہ سے کہا’’یہ عدالتوںکی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اندرونی طور پر کوئی میکانزم تیار کرے تاکہ اگر کسی شخص کی جان جاتی ہے تو اس صورت میں اسے کیسے دیکھا جائے‘‘ ۔عدالت نے مرکز سے کہا’’ لیکن آپ بتائیں کس نے میکانزم تیار کرنے سے روکا ہے آپکو، آپکو کیوں عدالت کی مداخلت درکار ہے، یہ معاملات آپکو دیکھنے ہیں، عدالتوں کو نہیں‘‘۔ ڈویژن بینچ نے کہا’’ جہاں کہیں بھی انسانی جان کا زیاں ہو، حتیٰ کہ کسی انکوانٹر میں بھی،کیا انسانی جان اس بات کی متقاضی نہیں کہ معاملہ دیکھا جائے اور اسکی تحقیقات کی جائے‘‘۔ جونہی عدالت عظمیٰ کے ڈویژن بینچ نے فوجی اہلکاروں کی طرف سے دائر کی گئی عرضی خارج کی تو سالٹر جنرل کھڑے ہوئے اور کہا کہ انہیں بات کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ مرکزی سرکار یہ چاہتی ہے کہ معاملے پر بحث ہو۔توشار مہتا نے کہا’’ ایسا میکانزم ضرور ہونا چاہیے تاکہ دہشت گردی کیخلاف لڑتے ہوئے ہمارے فوجی جوانوں کے ہاتھ نہ تھرتھرائیں تاہم انسانی جان کی بھی اہمیت ہے جسے انکار نہیں کیا جاسکتا‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے 300فوجی اہلکاروں کو استدعا کرنی پڑ رہی ہے یہ بھی بدقسمتی ہے، اس کے حوصلے پست ہونے کے اثرات ہونگے،ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ کہ ہمارے فوجی جوانوں کے حوصلے پست ہوں، برائے مہربانی اس بحث کو ختم مت کیجئے‘‘۔ڈویژن بینچ نے سالسٹر جنرل کو یاد دہانی کرائی کہ عدالت نے ابھی فوجی اہلکاروں کی عرضی کے حوالے سے مرکز کو نوٹس جاری نہیں کی ہے۔سالسٹر جنرل نے کہاکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں اس معاملے پر بحث ہونی چاہیے تو عدالت نے کہا’ اس سے عدالت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ اپنی بحث کرسکتے ہیں، آپ کو اس ضمن میں کوئی میکانزم تیار کرنا ہوگا، کوئی حل نکالنا ہوگا، لیکن عدالت کو نہیں‘‘۔عدالت عظمیٰ نے کہا’’ ایک عام آدمی کے طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو کسی شخص کی جان، جسے فوجی اہلکارخطرے میں ڈال دیتا ہے، کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے‘‘۔اِس پر بنچ نے منی پور میں کئی جھڑپوں کے معاملوں کی جاری سی بی آئی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مرکزی ایجنسی کسی کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے پائے ،تو اس کی تحقیقات کی جانی چاہیے ۔عدالت نے کہا کہ کیوں حکومت ہنداس کیلئے ایک اندرونی نظام تشکیل نہیں دیتی کہ اگر کوئی اس طرح مارا جاتا ہے اس کی تحقیقات کی جانی چاہیے ، عدالت اس طرح کا نظام تشکیل نہیں دے سکتی۔فوجی اہلکاروں کی طرف سے عدالت میں پیش ہورہے ایڈوکیٹ ایشوریہ بھٹی نے بنچ کو بتایا کہ عرضی کی شنوائی مرکزی معاملے جو فوج ،آسام رائفلز اور پولیس کی طرف سے شورش سے متاثرہ منی پورہ میں مبینہ زیرحراست ہلاکتوں سے متعلق ہے ،سے جوڑ کر کی جائے ۔بنچ نے بھٹی کوبتایا کہ فوجی اہلکاروں کی عرضی’مرکزی معاملے‘ سے قطعی مختلف ہے اور اس سے زیرالتواء معاملے کے ساتھ نتھی نہیں کیاجاسکتا۔جب وکیل نے افسپااور آرمی ایکٹ کی مدوں کاحوالہ دیا،تو بنچ نے کہا،’’اس میں بہت سے حفاظتی سے متعلق نکات موجود ہیں‘‘۔بھٹی نے دعویٰ کیا کہ منی پور انکائونٹر کیس کے پہلے فیصلے کی ہدایات میں ایک ،1998میںایک پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے برعکس ہے ۔ تاہم عدالت نے کہا کہ منی پور کیس کے دلائل سننے سے پہلے انہوں نے اُس وقت کے اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا کہ کیا حکومت فوج کے اُن اہلکاروں کیخلاف کارروائی کرے گی جن کے خلاف الزامات لگائے گئے تھے۔بنچ نے کہا کہ اگر حکام کی طرف سے آرمی ایکٹ کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ،آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی تحقیقات نہیں کی جاسکتی۔بھٹی نے کہا کہ عرضی گزاروں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ ’’مکمل بریت‘‘چاہتے ہیں ،لیکن فوجی اہلکاروں کو افسپا والے علاقوں میں درپردہ جنگ کی صورتحال کاسامنا ہے۔بنچ نے یہ صاف کیا کہ اُس نے منی پور انکائونٹر معاملوں میںصرف ان معاملات میں تحقیقات کا حکم دیا،جہاں عدالت عالیہ ،قومی انسانی حقوق کمیشن ،عدالتی تحقیقاتوں اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس سنتوش ہیگڈے کی قیادت میں کمیشن نے تحقیقات کاحکم دیا تھا۔ بنچ نے کہا کہ آج ہم کسی ایک فریق کو کلین چٹ نہیں دے رہے ہیں۔بنچ نے مزید کہا کہ اگر سی بی آئی نے ان میں سے کچھ معاملوں میں چارج شیٹ پیش کئے ہیں ،تو عدالت ان پرغور کرے گی۔ اس نے کہا کہ ایک معاملے میں منی پور حکومت نے ایک آدمی جو ایک مبینہ جھڑپ میں مارا گیا تھا ،کے کنبے کو عدالتی احکامات کے مطابق معاوضہ ادا کیالیکن پھر بھی جرم کے پیچھے حقیقی مجرم کا پتہ نہیں لگایا گیا۔شنوائی کے آخری مراحل پر بھٹی نے کہا کہ فوجی افسروں کی پولیس کے ذریعے تحقیقات ’’تشویشناک ‘‘ہے۔ایک ایڈوکیٹ نے بنچ کو بتایا کہ 400سابق فوجی اہلکاروں نے عدالت عالیہ سے اِن300اہلکاروں کی حمایت میں رجوع کیا ہے ۔عدالت نے پہلے حکم دیاتھا کہ منی پور میں فرضہ جھڑپوں کی سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیجائے ۔ بنچ نے مشاہدہ کیاکہ فوج اور پولیس کاافسپاکے تحت طاقت کے زیادہ استعمال کی اجازت نہیں ہے۔