لالہ امیں چند شہر کا مشہور ساہوکار تھا۔ وہاورکاروبار کے علاوہ ضرورت مندوں کوسودپرروپیہ ادھاربھی دیتاتھا۔اس وجہ سے غریب غرباء اسکی بڑی تعظیم کرتے تھے کہ یہ ان کے آڑے وقت میں کام آتاہے ۔
ایک دیہاتی منشی رام کواپنی بیماربیوی کے علاج کیلئے روپوں کی سخت ضرورت پڑی ۔اسکی بھی امیں چندنے حاجت پوری کی۔وہ اس کامرہونِ منت تھا۔ تمام روپیہ علاج پر خرچ کرنے کے باوجودوہ صحت یاب نہ ہوسکی ۔آخرکاروہ اس دُنیاسے چل بسی۔منشی رام قرض پر لیا ہوا پیسہ لوٹانہ سکا اور ایک دن وہ لالہ جی کے پاس ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا۔ اور بولا’’جناب لالہ جی !میری بیٹی کارشتہ آیاہے ۔لڑکے والے منگنی کیلئے جلدی کررہے ہیں مگرمیرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔میں یہ رشتہ گنوانابھی نہیں چاہتاہوں کیونکہ لڑکاصاحبِ روزگار ہے ۔چونکہ ابھی پچھلاقرض چکایا نہیں ہے، اس لئے مزید قرضہ مانگنے میں ہچکچاہٹ ہورہی ہے۔ مگر میں مانگنے کی ہمت نہیں کرسکتاہوں۔بہت مجبورہوں۔‘‘
تھوڑی دیرسوچنے کے بعدلالہ نے کہاکہ ’’ایک حل ہے میرے پاس۔ آپ سوچ لو۔سوچ بچارکرکے جواب دینا۔ اس طرح آپکے دونوں مسائل حل ہوں گے۔آپ اپنی بیٹی کارشتہ میرے ساتھ کرلو۔میں قرضہ بھی معاف کروں گااورآپکی بیٹی کابوجھ بھی سرسے اُترجائے گا۔‘‘
مجبورہوکر بیٹی سے صلاح مشورہ کرکے منشی رام نے ہاں کہہ دی۔ بیٹی نے باپ کی مجبوری کے آگے قربانی دی کیونکہ لالہ امین چند کی عمرلڑکی کی عمرسے پندرہ سال زیادہ تھی۔ بیٹی کویہ سب کچھ معلوم تھا۔خیر! شادی ہوگئی۔
پانچ سال کی ازدواجی زندگی کے بعدکوئی بچہ نہ ہوا۔ میاں بیوی نے شہرکے تمام بڑے بڑے ہسپتالوں میں ماہرڈاکٹروں سے علاج معالجہ کروایا۔پیروں،فقیروں ،سادھوئوں ،تانترکوں کے پاس بھی گئے مگرحاصل کچھ نہ ہوسکا۔
ایک روزلالہ جی کوتجارت کے سلسلہ میں شہرسے باہر جاناتھا ۔یہ جان کربیوی نے اپنے خاوندلالہ امین چندسے کہا۔
’’آپ ہفتہ بھرکیلئے باہرجارہے ہیں ۔میں گھرمیں اکیلے اکیلے اُکتاجاتی ہوں ۔کیوں نہ میں امرتسرکی سیرکوجائوں ۔میں نے نہ ہی گولڈن ٹیمپل دیکھا اورنہ جلیانوالہ باغ دیکھاہے اورنہ ہی ہندوستان ۔پاکستان بارڈر (واگھہ) کے مقام کی سیر کی ہے ۔میرادل بہت چاہ رہاہے کہ میں یہ مقامات دیکھوں‘‘۔ ’’ٹھیک ہے ۔ میں سوموارتک واپس آئوں گا‘‘۔لالہ نے بولا۔
دوسرے دن صبح لالہ کی بیوی امرتسرکیلئے روانہ ہوئی ۔سفرشروع کرنے سے قبل اس نے ڈرائیورسے کہا کہ ’’تم بھی صاف ستھرے کپڑے پہننا ۔یہ ڈرائیوروں والی وردی نہ پہننا۔ تم گاڑی چلائوگے ۔میں فرنٹ سیٹ پربیٹھوں گی۔ اگردِل نے چاہا توبیچ بیچ میں میں بھی گاڑی چلائوں گی۔‘‘
ڈرائیورکافی سالوں سے ان کاملازم تھا۔ کافی بھروسہ منداورایماندارتھا۔وہ مانوگھرکاہی ایک فردتھا۔
لالہ کی بیوی کوڈرائیورکی حرکات وسکنات بہت پسندتھیں۔وہ جوان تھا ۔خوب صورت تھا۔ اچھے اخلاق کامالک تھا۔
لالہ کی بیوی کبھی کبھی للچائی نظروں سے اسکودیکھتی۔ اسکے دِل کے کسی خانے میں یہ کبھی کبھی خیال آتاتھاکہ کاش! یہ ڈرائیوراس کاشوہرہوتا کیونکہ اسکے شوہرکے پاس سب کچھ ہے مگرجس کی اُسے کوچاہت ہے ۔وہ نہیں ہے ۔وہ بااخلاق ہے ۔بہت پیارکرتاہے ۔سب کچھ مہیاکرتاہے مگرمیں ان سب سہولیات کاکیا؟۔
خیر!رات ہوٹل میں رہے۔اسکی ساری رات کشمکش میں گذری۔کروٹیں بدلتی رہی۔ کبھی اُٹھ کرپانی پیا۔کبھی ہواخوری کیلئے کھڑکیاں کھولیں۔کبھی لان میں نکلی۔کبھی ٹہلتی توکبھی کرسی پرتوکبھی بسترپر بے چین پڑی رہتی۔
اتنے میں ڈرائیوردروازہ کھولنے کی آوازسے جاگ گیا۔پوچھا!’’بی بی جی ۔کیابات ہے ۔نیندنہیں آرہی ہے ۔‘‘ ’’ہاں !نیندنہیں آرہی ہے ۔بڑی کوشش کررہی ہوں۔ مگرنیندآہی نہیں رہی ہے۔‘‘بی بی نے جواب دیا۔
’’تم ذرا اندر آئو۔ میرا سر پھٹا جارہا ہے۔ میرا سردبائو۔ شاید کچھ آرام آئے۔‘‘ اُن نے کہا ’’ٹھیک ہے بی بی جی‘‘ ۔ڈرائیورنے ہاں کہہ دی اورسردبانے لگا۔
ڈرائیورسردباتاگیا۔ مگرنیندکاکوئی ارادہ نہیں نظرآرہاتھا۔ بہت دیربعدبی بی نے کہا۔’’اب آہستہ آہستہ میری ٹانگیں بھی دبائو۔ نہ چاہتے ہوئے ڈرائیورنے ٹانگیں بھی دبائیں مگرنیندکاکہیں نام نہیں۔ یہ سلسلہ کافی دیرتک چلا۔پھراسکے بعدوہ کچھ ہواجسکی بالکل اُمیدنہ تھی۔
دوسری صبح ناشتہ کے وقت دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملاسکتے تھے۔
شام کے قریب چاربجے واپس اپنے گھرپہونچے۔دونوں اپنی اپنی جگہ شرمندہ تھے مگرلالہ کے سامنے ایسے بنتے رہے جیسے کہ کچھ ہواہی نہ تھا۔بیوی نے لالہ کوادھرسے آتے ہی کہاکہ اس نے گردوارے میں بچے کے لئے منت مانی اور وہاں ایک سادھو مہاراج سے ملاقات بھی ہوئی جس کے متعلق وہاں کے لوگ کہتے تھے کہ یہ بہت پہنچے ہوئے ہیں۔جوکہتے ہیں وہ ہوکررہتاہے ۔وہاں بہت رش تھامگرڈرائیورکی کوشش سے بڑی آسانی سے ان سے کا موقع ملا۔ سادھومہاراج نے جنتراورببوتی دی اوراس کاطریقہ استعمال بھی بتایا۔
نودس ماہ بعد انکے ہاں بچہ پیداہوا ۔بچہ بہت خوب صورت تھا ۔اس کانام دیپک رکھاگیا۔ زبردست فنکشن کیاگیا۔کافی پنڈت پجاری پوجاپاٹھ کیلئے بلائے گئے ۔بچہ کے ماتھے کے دائیں جانب تل تھا۔ جس کے بارے میں پنڈتوں جیوتشیوں نے کہاکہ ایسا کالاتل بہت قسمت والوں کوہوتاہے ۔
ایک روزڈرائیورایک فارم لے کرلالہ کے پاس آیا۔بولا ! ’’جناب محکمہ ٹرانسپورٹ نے یہ نیا فارم پُر کرکے جمع کرنے کے لئے کہاہے۔ساتھ میں آدھارکارڈ اورتازہ فوٹو بھی مانگاہے ۔فارم پُرکرتے ہوئے لالہ نے کہاکہ کوئی شناختی نشان بتائو۔جناب ! میرے ماتھے کے دائیں طرف کالاتل ہے ۔پہلے بھی یہی نشان لکھاہے۔یہ سنتے ہی لالہ نے اپنے بیٹے کوآوازدی۔ ’’بیٹے دیپک !ذراادھرآنا۔‘‘بیٹے کے ماتھے کاتل دیکھ کرہکابکارہ گیا ۔یہ کیا؟۔اس کے بھی دائیں طرف کالاتل ہے۔
یہ دیکھ کرسیٹھ دِل ہی دِل میں بڑبڑایا، اسکے پسینے چھوٹ گئے اوروہ وہیں ڈھیرہوگیا۔
جموں،موبائل نمبر؛8825051001