سرینگر //سکھوں کیلئے کرتارپور راہداری کھولنے کے بعد کیرن سے چند گھنٹوں کی مسافت پر واقع پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے نیلم علاقے میں قائم شاردا پیٹھ کو بھی کشمیری پنڈتوں کیلئے کھولنے کا مطالبہ کیا جانے لگا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ 70سال سے وہ اس انتظار میں ہیں کہ انہیں ماں شادرا کے درشن کرنے کا موقعہ فراہم کیا جائے ۔کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے ہمارے بھی مذہبی فرائض اور جذبات ہیںاور ہماری خواہش ہے کہ مرنے سے قبل ہم بھی اس پیٹھ کے درشن کر سکیں ۔ باترگام کپوارہ کے رویندر کمار ٹھسو نامی پنڈت نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ 70برسوں کے بعد کرتار پور راہداری کھولنے کے فیصلے کے بعد ہماری خواہش اور مطالبے کو عملی شکل دی جائے تاکہ زائرین شاردا پیٹھ کے درشن کرسکیں‘‘۔وہ کہتے ہیں کہ میرا سسرال 1947سے قبل سرحد پار آباد تھا لیکن بٹوارے کے بعد وہ یہاں آگئے اور اس طرح نہ وہاں مذہبی تقریبات ہوئیں اور نہ 70سال سے وہاں کوئی جا سکا ‘‘۔اُن کا کہنا ہے کہ تقسیم سے قبل باترگام اور کپوارہ ،جو کہ اس پیٹھ سے نزدیک تھے تو وہاں کے لوگ یہاں سے جانے والے یاتریوں کیلئے رہائش اور کھانے پینے کا بندوبست کر کے رکھتے تھے۔ پرکاش رام نامی ایک پوسٹ ماسٹر جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں ،وہ اُس پار پوجا پاٹ کراتے تھے ، کئی ایک کنبے ایسے بھی تھے جن کے نام پر وہاں زمین بھی ہوا کرتی تھی اور لوگ کاروبار بھی کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ آخری شہری نند لال سادھو جی تھے ،جو 1948میں وہاں سے واپس آیا اور پھر وہاں واپس نہیں جا سکا ۔ڈاکٹر رمیش ٹھسو نامی پنڈت کا کہنا ہے اس مذہبی مقام کھولنے سے نہ صرف پنڈتوں کے جذبات کی رہنمائی ہو گی بلکہ دونوں ممالک کے درمیان آپسی رشتہ بھی مضبوط ہو گا ۔اُن کا کہنا ہے کہ ہمارا قدیم مندر وہاں ہے اور وہاں کے لوگوں سے اُن کے روابط آج بھی ہیں جو بس سروس یا پھر کسی راہداری پوائنٹ سے یہاں آتے ہیں ۔ڈاکٹر رمیش کا کہنا ہے’’ اگر پاکستانی وزیر اعظم نے اس مذہبی مقام کو کھولنے کی بات کی ہے تو بھارت کے وزیر اعظم نریند مودی کو ہمارے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اس قدیم راستے کو کھولنے کی منظوری دینی چاہیے‘‘۔کپوارہ کے ایڈوکیٹ بھوشن لال پنڈت نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ لوگ جب اس مذہبی مقام کے لئے درشن کیلئے جاتے تھے تو وہ پہلے گوشی کپوارہ پہنچتے تھے، پھر کچھ لوگ لدرون سے او ر کچھ ایک کیرن کے راستے سے وہاں جاتے تھے اور یہ قدیم راستہ اس سفر کو آسان بنا دیتا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس راستے سے ایک تو سفر آسان تھا اور وقت بھی ضائع نہیں ہوتا تھا آج اگر پھر سے اُس راستے کو کھولاجائے تو وہاں تک لوگوں کو پیدل نہیں جانا پڑے گا کیونکہ کیرن سے آگے صرف آدھ گھنٹے میں پہنچا جا سکتا ہے ۔ نیلم کے رہنے والے محمد عتیق خواجہ نامی ایک سماجی کارکن کہتے ہیں کہ اگر اس مقام کو مذہبی بنیادوں پر کھولا جاتا ہے تو اس کی سب سے زیادہ خوشی نیلم کے لوگوں کو ہو گی ۔اُن کا کہنا تھا کہ اس راستے کو کھولنے کا فیصلہ دونوں اطراف کے لوگوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہو گا ۔اُن کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگ اُسی طرح پھر پنڈت یاتریوں کی مہمان نوازی کریں گے جیسے برسوں پہلے کی جاتی تھی ۔معلوم رہے کہ شاردا مظفرآباد کے شمال مغرب میں 136 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیلم کے کنارے واقع ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 1981 میٹر ہے۔ جبکہ کیرن سے یہ مقام صرف 30کلو میٹر کی دوری پر ہے ۔شارداکا قدیم مندر ہندوؤں میں ’شارداپیٹھ ‘کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام علم و فن کا گہوارہ رہا ہے۔ شاردا وادی کا نام ہندومت کی شاردا دیوی کے نام سے منسوب ہے، جو علم اور فن کی دیوی سمجھی جاتی ہیں اور انھیں سرسوتی دیوی بھی کہا جاتا ہے۔شاردامیں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی، اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سرحد پار جانے کی اجازت دی جائے تاکہ یہ بھی اپنا مذہبی فریضہ انجام دے سکیں