آج پوری مسلم دنیا ایک شدید انتشار و خلفشارمیں مبتلا ہے، ہر جگہ فساد ات برپا ہیں، قتل و غارت گری کا بازار چہار سُو گرم ہے، مسلمانوں کی دنیا آباد ہے نہ آخرت، مسلم حکمران انانیت، مفاد پرستی ، آپسی منافرت، بغض وعداوت ،تنگ نظری اور تعصب کے شکار ہیں۔ جس اُمت نے آپسی یگانگت و وحدت کے بجائے تفرقہ وانتشار کو اپنا لیا ہو، اس کے ہاتھ دنیا آتی ہے نہ آخرت۔ آج مسلم دنیا میں جہاں بھی دیکھا جائے غیر یقینی صورت حال درپیش ہے۔ مسلمان کہیں بھی امن و سکون کی زندگی نہیں گذار رہے ہیں، تمام مسلم ممالک قتل و غارت، تشدد ، بربریت، ناانصافی اور اغیار کے تسلط کے شکار ہیں۔ ایسے میں ہمیں سنجیدگی سے یہ دیکھنا ہوگا کہ مسلمانوں پر آفتیں اور یہ مصائب و آلام کے پہاڑ کیوں ٹوٹ رہے ہیں، ہمیں مسلم دنیا میں پائے جانے والے تفرقات اور انتشار ات کی وجوہ جاننا ہوںگی ، اُن کے سدباب کے لئے قرآن وسیرت رسول ؐ سے رہبری طلب کر نا ہوگی۔ ہمیں جاننا ہوگا کہ خیرِ امت اور افضل امت کا خطاب پانے والی ملت اسلامیہ آج جابجا جنگ وجدل اور برادرکشی میں سرگرداں کیوںہے۔ ہمیں عرب وعجم کے تمام مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کے عالم میں حق سے انحراف اور تخت وتاج کے لئے اُمت کو قربان کرتے ہوئے غیروں کے آلۂ کار بننے کی وجوہات تلاشنی ہوںگی۔ہمیں جاننا ہوگا کہ جو قوم خیرِ اُمت کہلاتی تھی وہ آج کیوں راندہ ٔ درگاہ ہے اور قعر مذلت میں پڑی ہے۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کا جائزہ لینا ہوگا کہ فرقہ اور مسلک ومشرب کے نام پر ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے خون کا پیاسا کیوںبناہوا ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر ذِلت وخواری کے ان اسباب پر بھی غور و خوض کرنا چاہیے کہ آخر ڈنمارک جیسے چھوٹے ملک کو کھلے عام مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کر نے کی ہمت کیوں ہوئی اور مسلمانان ِ عالم کے حکمران اس کے خلاف مشترکہ طورکوئی لائحہ عمل کیوں نہ دے پا ئے ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دنیا کے ڈیڑھ اَرب مسلمان ایک دوسرے سے کیوں لاتعلق ہو بیٹھے ہیں۔ اس بارے میں ذر اخود اپنے ضمیر سے پو چھیںکہ کیانجم الدین اربکان کی یہ چوٹ مبنی بر حق نہیں : ’’ڈیڑھ اَرب ہوکر بھی ہم ’’ابابیلوں‘‘ کے منتظر مسلمان ہیں کہ وہ آسمان سے اُڑتے آئیں اور اسی لاکھ اسرائیلیوں سے ہماری جان چھڑائیں، بخدا! آج اگر ابابیل آئیں بھی تو وہ اپنے کنکر یہودیوں کو نہیں، ہم مسلمانوں کو ماریں گے۔‘‘ افسوس کہ ہم عرب و عجم میں ایک بڑی عددی طاقت ہونے کے باوجود منتشر و پراگندہ مجموعہ ہیں۔ حد یہ کہ آج مسلمان مسلک اور فرقہ کے خول میں اتنا جکڑا ہو اہے کہ وہ بالفعل وحدت کو معیوب اور تفرقہ کو عبادت سمجھنے لگا ہے۔
بہر حال ہمیں مسلمانوں کے موجودہ انتشار، منافرت، تضاد اور خلفشاری سیاست کی وجوہات معلوم کرنی چاہیں۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ جو امت کسی زمانے میں بھائی چارے ، ہمدردی، دکھ درد بانٹنے اور ہم و غم میں شریک رہنے کی تاریخ بنا رہی تھی، آج وہ ایک دوسرے کی دشمنی پر کیوں اُتر آئی ہے۔ کم ازکم اب تودنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ مشترکہ دشمن نے ہمیں کہیںحقوق البشر کے نام پر اور کہیں خود کے دفاع کے عنوان سے نہ صرف بہت کمزور کر کے رکھ دیا ہے بلکہ ہمارے ذہن کو اتنا ماؤف ہے کہ انسانیت کی تعظیم، اُمت کے ساتھ اُنس و ہمدردی، آپسی محبت و اخوت، باہمی ربط و تعلق سے ہم سب محروم ہیں۔آج امریکہ، اسرائیل، برطانیہ ، روس اپنے زر خرید آلۂ کاروں سمیت جب چاہیں دنیا کے دوسرے خطوں خاص کر مسلم ممالک پر حملہ آور ہوتے ہیں، وہاں آباد نہتے لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں ، بچوں اور خواتین اور بزرگوں کو انتقام کی بھینٹ چڑھاتے ہیں ، عوام کی نیندیں حرام کرتے ہیں، مسلمانوں کی بستیاں اور ان کے مقدسات کو ڈھادیتے ہیں، مقاومتی جوانوں کو گولیوں سے بھون دیتے ہیں، بم باریوں کا نشانہ بناتے ہیں، عفت مآب خواتین کی عصمتیں لوٹتے ہیں، مسلمانوں کے املاک کو خاکستر کر تے ہیں، دہشت گردی کو قابو پانے کے نام پر کھلی دہشت گردی کو رواج دیتے ہیں، مسلمانوں کو ان کے اپنے ممالک سے بے دخل کر تے ہیں کہ ان کے لئے سوائے قبرستان کوئی جائے پناہ نہیںر ہتی۔ اس تشویش ناک اور پُر خطرصورت حال کے ہوتے ہوئے بھی مسلم اُمہ منتشر ہویا غفلت کی نیند سوئے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کے مصائب سے غافل و لاتعلق بنارہے، ایک مسلم ملک دوسرے مسلم ملک کی مظلومیت کا حال احوال جان کر بھی انجان بنا رہے ، برادر کشی کے باد ِ سموم پر مجرمانہ پر خاموشی اختیار کی جائے، لوگ اپنے ذاتی حقیر مفادات کی پیروی میں سرگرم رہیں مگر دین ِ وحدت اسلام، مسلمان اور مقدساتِ اسلامی کی کوئی فکر نہ کریں، اُمت پر نازل شدہ آفات اور ملت کے درد کی کوئی پرواہ نہ کریں،تو معاف کیجئے مشترکہ دشمنان ِ اسلام کی ریشہ دوانیاں اور زہر ناکیاں مظلوم اُمت پر مزید دوآتشہ کیوں نہ ہوں ؟
ان مایوس کن حالات کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی اپنی چھوٹی سطح پر ہی سہی مسلمانوں کو اس تفرقہ و انتشار کے دلدل سے نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ آپس میں خواہ مخواہ کا شک وشبہ چھوڑ کر پیار محبت بانٹیں ، اتحاد اسلامی کا عملی مظاہرہ اور اُخوت کی نغمہ خوانی کریں، آپسی روابط استوار کریں۔ اتحاد اسلامی کے عملی مظاہرے کے لئے سیرت رسول اللہؐکی حقیقی پیروی کریں۔ اس ضمن میں ہم سب مسلمانوں کو ایک بار پھر اپنے اصل کی طرف واپس پلٹنا ہوگا، یعنی قرآن اور نبی اکرم ؐ کی سیرت مبارکہ کی طرف اور آپؐ کی تعلیمات اور پیغام کو عملاً اپناناہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام مسلمان احکاماتِ اسلامی اور تعلیمات ِاسلامی کا عملی نمونہ پیش کریں۔ اس حوالے سے علماء ، مفکرین اور دانشوروں کی ذمہ داریاں تمام طبقات سے زیادہ ہیں، انہیں اپنی نیک کاوشوں کا مرکز ومنبع قرآن و سیرت رسول پاک ؐ بنانا ہوگا اور دنیا کو دکھا نا ہوگا کہ ہم مسلمان پوری انسانیت کے لئے خیر، امن، سلامتی اور ترقی کے ضامن ہیں۔ نا قابل تردید سچ یہی ہے کہ مایوس اور بیمار عالم ِبشریت کے جملہ امراض کا واحد علاج قرآن و سیرت پاک ؐ کی پیروی میں مضمرہے۔ ہم سب مسلمانوں کو عزم بالجزم کرنا ہوگا کہ ہدایت کے ان منابع کی حقیقی پیروی کریں گے، انتشار نہ پھیلائیں گے ،نہ ایسی کسی تقسیم ِ ملت سازش کا حصہ بنیں گے۔ یقین جانئے مسلمانوں کے ملّی تشخص کی ضمانت اور مسلمانوں کے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی وحدت بین المسلمین میں مضمر ہے۔ اس لئے دین اسلام کے تمام مبلغین اور دانشوروں کو چاہئے کہ وحدتِ ملت کے دنیوی واُخروی فوائد سے لوگوں کو خاص کر آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ رسول اللہ ؐ نے مسلمانوں کی اخوت و ہم آہنگی کے لئے کتنی مشقتیں اُٹھائیں، انہیں پیغام دیں کہ انبیاء ؑ کی بعثت کا مقصد وحدتِ اُمت تھا، یعنی انسانوں کے درمیان امن و سلامتی، اُخوت و بھائی چارگی، مساوات و برابری، ہمدلی و ہم آہنگی کا قیام کرنا۔وحدت کی برکات میں ہی اُمت کی نجات کا راز مضمر ہے۔ آج کے دور میں اتحاد اسلامی کی ضرورت تمام ادوار سے زیادہ ہے اور دور ِحاضر میں دینداری کے پہلو بہ پہلو سب زیادہ اہم ونفرادی و اجتماعی فرض دین شناسی ہے۔ اگرآج ہم ان حوالوں سے لمحہ بھر کے لئے بھی سہووخطا اور غفلت میں پڑگئے تو آئندہ دسیوں نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ رسول اللہ ؐکے تئیں بہترین خراج وحدتِ ملت اسلامیہ کے متعلق حتی الامکان نیک کا وشیں ہیں، منتشر اور منقسم ملت محبت النبی ؐ کا حق ادا نہیں کر سکتی ہے۔ مسلمان متحد ہوں تو ہماری کوئی حیثیت ہوگی، متحد ہوئے تو اُمت مصطفٰیؐ کہلائیں گے کیونکہ وحدت آئین ِاسلامی ہے اور وحدت ہی منشور انبیائے کرام علیہم السلام ہے۔