۳۱؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو ہم سب کے Favourite Teacherپر وفیسر رفیع العماد فینان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے سے کم وبیش چار دہائی تک عربی زبان وادب کی خدمت کے بعد سبکدوش ہوگئے۔یہ خبرسن کر ایک بار پھر میں اپنی پرانی یادوں میں کھوگیا۔ ذہن کے پردے پر ان کی سنہری یادوں کی فلم چلے لگی اور میں انہی سنہرے دنوں کی تلاش میں سرگرداں ہوگیااور یہ تحریر معرض وجود میں آگئی۔
یہ ۱۹۹۱ــ-۱۹۹۲ء کی بات ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے کے بی اے آنرز اور ڈپلوما ان ماڈرن عربک میں ہمارا داخلہ ہوا تھا۔ پروفیسر ضیاء الحسن ندوی شعبے کے صدر تھے۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی ،پروفیسر شفیق احمد خان ندوی،پروفیسر فرحانہ طیب صدیقی، پروفیسر خالد حامدی اور ڈاکٹر ابو الحسنات کے علاوہ پروفیسر رفیع العماد فینان شعبے کے اساتذہ میں شامل تھے۔پروفیسر ضیاء الحسن ندوی کے علاوہ غالبا سبھی اساتذہ اس وقت لیکچرریا ریڈر تھے اور بعد میں سب کے سب پروفیسر بنے۔ ڈاکٹر ابو الحسنات ایڈہاک لیکچرر کی حیثیت سے پڑھاتے تھے۔غالبا اسی سال موجودہ صدر شعبہ پروفیسر محمد ایوب ندوی بھی شعبے سے وابستہ ہوئے۔ پروفیسر فرحانہ ہم لوگوں کو بی اے سال اول میں نحو اور ٹرانسلیشن پڑھاتی تھیں۔ ڈاکٹر ابو الحسات ڈپلوما ان موڈرن عربک میں مو لانا وحید الزماں کیرانوی کی کتاب القراء ۃ الواضحہ اور پروفیسر رفیع العماد فینان گرامرپڑھاتے تھے۔
یہ پروفیسر فینان کے شباب کا زمانہ تھا۔یہی کوئی اڑتیس ، انتالیس سال کی عمر کی لپیٹ میں رہے ہوں گے۔ لمباقد، گورا رنگ، خوب صورت کتابی چہرہ، کلین شیو، پیشانی کی طرف سے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے لمبے لمبے قدرے سنہرے بال جنہیں وہ پڑھاتے وقت اکثر وبیشتر اپنی دونوں ہتھیلیوں سے کاندھے کی طرف سے سنبھالتے رہتے تھے۔چہرے مہرے سے بالکل انگریز۔ فینان صاحب کا نام آتے ہی ایک نہایت اسمارٹ شخص کا تصور، قابل ترین، ذہین اور اپنے سبجکٹ میں اکسپرٹ اور ماہر استاد کی تصویر، ایک مربی کی شخصیت، ایک شفیق انسان کا قابل احترام رعب طلبہ کے ذہن ودماغ پر مرتسم ہوجایا کرتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے میں پڑھنے والے طلبہ کے درمیان شعبے کے اساتذہ میںپروفیسر فینان کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل تھی۔ طلبہ کے درمیان ان کا کثرت سے ذکر خیر ہوتا تھا، طلبہ ان سے واقعۃ ڈرتے بھی تھے اور ان سے پڑھنے کی خواہش بھی کرتے تھے اور ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ ان کا عجیب وغریب رعب دبدبہ اور احترام طلبہ کے دلوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ طلبہ کی محفلیں ان کے’’ ذکر جمیل‘‘ کے بغیر نامکمل اور تشنہ رہاکرتی تھیں۔وہ اس قدر مقبول تھے کہ جیسے پورا جامعہ نگر ان سے واقف تھا۔خاص طور سے اردو اور عربی حلقے میں ان کا’’ ٹی آر پی‘‘ سب سے زیادہ تھا۔ شام کے پروگراموں میںوہ ڈپلوماان موڈرن عربک اور اڈوانس ڈپلوما میں بالترتیب عربی گرامر اورعربی انگریزی- انگریزی عربی ٹرانسلیشن پڑھاتے تھے۔ یہ بات بہت مشہور تھی کہ اڈوانس ڈپلوما کی کلاس میں جس نے فینان صاحب کے ٹرانسلیشن کو جھیل لیا اسے ٹرانسلیٹر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اڈوانس ڈپلوما کا ٹرانسلیشن بالکل ایم اے کے معیار کا ہوتا تھا۔عربی وانگریزی اخبارات کے تراشے پر وہ، طلبہ کو مشق کراتے تھے۔ اور بہت محنت ،خلوص اور لگن سے نہ صرف تمام اسباق تیار کرتے تھے بلکہ اسی محنت ، لگن اور خلوص سے پڑھاتے بھی تھے۔ایک ایک سبق کو تیار کرتے۔ اس کے بعد کمپیوٹر آپریٹر کے پاس جاتے۔ اس سے کتابت کراتے۔ اپنی جیب سے اس کی قیمت ادا کرتے۔ اسے کاپی پر چسپاں کرتے ۔ ایک ایک لفظ کا معنی اپنی خو بصورت تحریر میںاپنے ہاتھ سے لکھتے۔ اسے فوٹو اسٹیٹ کراکے ایک طرف کاپی پر چسپاں کرتے اور پڑھانے سے پہلے وہ طلبہ کو دیدیتے۔ طلبہ اس کو فوٹو اسٹیٹ کراتے۔ مشکل الفاظ کے معنی یاد کرتے پھرفینان صاحب کلاس میں ان کے ترجمے کی مشق کراتے۔فینان صاحب اس اسلوب تدریس کے خود موجد تھے۔بعد میں بہت سارے لوگوں نے اسی اسٹائل میں ٹرانسلیشن پڑھانے کی کوشش کی۔
شعبۂ اردوکی طرف سے عربی شعبے کی طرف آتے ہوئے گراؤنڈ فلور پر بالکل دائیں طرف پہلے کارنر میں، فارسی شعبے سے بالکل متصل جو کمرہ ہے اسی میں اس وقت ڈپلوما کی کلاس ہوا کرتی تھی۔اور جہاں اس وقت عربی کے صدر شعبہ کا دفتر ہے اس میں بی اے فرسٹ ایر کی کلاس ہوتی تھی۔ڈپلوما میںتقریبا چالیس کے قریب طالب علم تھے۔کچھ تو ایسے بھی تھے تو فینان صاحب سے اجازت لے کر بغیر داخلے کے پڑھنے آتے تھے۔فینان صاحب کی کلاس کا جب وقت ہوتا تھا اور وہ کلاس کے لیے آتے تھے توپانچ دس میٹر پہلے ہی سے جب ان کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی تھی توتمام طلبہ اپنی اپنی جگہوں پر پورے وقار کے ساتھ اس طرح بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ان کی کلاس میں ہر طالب عالم پوری محنت ، لگن ،شوق اور آموختہ کی تیاری کے ساتھ حاضر ہوتاتھا۔ انہوں نے اس وقت جو پڑھایا اورجس طرح پڑھایا وہ آج بھی اسی طر ح ازبر ہے۔ وہ کاپی جس پر انہوں نے گرامر کے اسباق لکھوائے تھے آج بھی میرے پاس ایک استاد کی خوب صورت یادوں کی شکل میں ’’کتاب مقدس‘‘ کی طرح محفوظ ہے۔
ڈپلوما میں وہ ’’عربی گرامر‘‘ یعنی عربی نحو کا مضمون پڑھاتے تھے۔ تمام تعریفات کو وہ مثالوں سے مزین کرتے تھے۔ مثالیں ایسے جدید جملوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں جن کا انگریزی میں ترجمہ بھی وہ لکھوایا کرتے تھے۔ہر سبق کے آخر میں وہ اسی سبق سے متعلق آٹھ دس جملوں کی Exerciseاور تمرین بھی دیا کرتے تھے جو عربی کے ساتھ اردو اور انگریزی ترجمے پربھی مشتمل ہوا کرتی تھی۔ یوںگرامر کا مضمون گرامر کے ساتھ ساتھ سیمی ٹرانسلیشن اور ترجمے کے مضمون میں تبدیل ہوجایا کرتا تھا اور طالب علم کو اس سے دوہرا فائدہ ہوا کرتا تھا۔گرامر کی مشق تو ہوتی ہی تھی ، عربی مثالوں کا انگریزی ترجمہ لکھوانے سے’’ ترجمے‘‘ کی ’’خاموش تربیت ‘‘ بھی ہوتی تھی۔ان کی اکسر سائز سے ٹرانسلیشن کے سبجکٹ میں کام آنے والے بہت سارے الفاظ ومعانی زباں زد ہوجاتے تھے۔ فینان صاحب کی لکھوائی ہوئی بعض مثالیں بہت خوب صورت اور بامحاورہ ہوتی تھیں۔عربی کے افعال ناقصہ میں ایک لفظ مَادَامَ بھی ہے جس کاانگریزی متبادل as long asہے۔ فینان صاحب نے مَادَامَ کی جومثال اس وقت لکھوائی تھی وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے لکھوایا تھا: اُسکتْ مَادامَ السُکوتُ نافعًا ۔ اس کا انگریزی ٹرانسلیشن بھی بعینہ یا د ہے جو یہ تھا: Keep quite as long as silence is beneficial۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ دوران درس عربی اور انگریزی کے مشکل الفاظ جب آتے تھے تو وہ اس کے تلفظ پر مکمل دھیان دیتے تھے۔ پوری کلاس سے’’ دس دس مرتبہ‘‘ وہ لفظ کہلواتے تھے پھر آگے بڑھتے تھے۔ مذکور بالا مثال میں ایک لفظ beneficial بھی ہے جسے آج بھی بہت سارے پڑھے لکھے لوگ بے نی فی شی یل پڑھتے ہیں جو کہ بالکل غلط تلفظ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے فینان صاحب نے اس لفظ کو بارہا ہر طالب علم سے کہلوایا۔ یہاں تک کہ سب نے درست ادائیگی کرلی۔ایک لفظ ہے اسٹیشن جو کہ اردو اور انگریزی دونوں میں اسی طرح بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کی ادائیگی کے وقت بہت سارے لوگ اش -ٹے- شن بولتے ہیں۔ فینان صاحب نے اس لفظ کی خوب خوب پریکٹس کرائی۔ یہاں تک کہ صحیح ادائیگی ہوگئی۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے مخاطب طلبہ میں سے بیشتر مدارس کے فارغ ہیں جنہیں انگریزی سے ابھی ابھی واسطہ پڑاہے اس لیے وہ بڑی باریکی سے اور ایک اکسپرٹ کی طرح تربیت کرتے تھے۔
عربی گرامر میںایک موضوع ہے’’ عدد معدود‘‘ کا۔ اگر عدد معدود کا concept واضح نہ ہو تو ’’تین لڑکے اور تین لڑکیاں‘‘ جیسے سیدھے سادے جملے کی بھی عربی بولنے میں غلطی ہوجائے گی اور بہت سارے لوگوں سے یہ غلطی ہوتی بھی ہے۔ ہم نے پہلے بھی یہ سبق پڑھا تھا مگر اس کا concept واضح نہیں تھا۔ پروفیسر فینان نے ایسی باریکی اور’’ استادانہ مہارت‘‘سے ’’عدد معدود‘‘ کا سبق پڑھایا کہ اس کے بعد اس کا conceptکبھی ذہن ودماغ سے محو نہیں ہوا۔
پروفیسر فینان سے ایک سال’’ ڈپلوما اِن موڈرن عربک‘‘میں پڑھا مگر انہیں کبھی کلاس میں بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔نہ انہیںکبھی غیر حاضریا تاخیر سے آتے ہوئے پایا۔ہمیشہ وہ ٹائم سے پہلے آتے تھے ۔اپنے چیمبر میں یا کہیں اور بیٹھ کرکلاس کے وقت کا انتظار کرتے تھے اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر وہ کلاس میں حاضر ہوجایا کرتے تھے۔کلاس میں ان کا اسٹائل یہ تھا کہ طلبہ سے پہلے وہ پچھلا سبق سنتے تھے پھر نیا سبق شروع کرتے تھے۔بے انتہا ’’نفیس ‘‘ طبیعت کے مالک ہونے کے باوجود کبھی بھی چاک سے بلیک بورڈ پر لکھنے میں تردد وتذبذب نہیں کرتے تھے۔اس وقت سمسٹر سسٹم نہیں تھا۔ نہ ہی انٹر نل اسس منٹ کا کوئی نظام آج کی طر ح اس وقت نافذ تھا مگر فینان صاحب کی تدریسی صلاحیت ،تجربہ اور ان کا vision دیکھیے کہ وہ اس وقت بھی امتحان سے قبل دو مرتبہ’’ کلاس ٹیسٹ‘‘ کا باقاعدہ اہتمام کرتے تھے۔ گھر سے سوالات بناکرلاتے تھے۔ class test لیتے تھے۔ اس کے بعد گھر لے جاکر Answer Sheet چیک کرتے تھے اوریونیورسٹی امتحان کی طرح مارکنگ کرتے تھے۔ کلاس میں ایک ایک طالب علم کواس کی Answer Sheet دیتے تھے اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ وہ اگر چاہتے تو یہ سب نہ کرتے ، نہ ہی انہیں یہ سب کرنے کی ضرورت تھی مگر وہ حقیقی معنوں میں استاد تھے۔ طلبہ کو اپنا علم مانو گھول کر پلادینا چاہتے تھے۔ہر اچھا استاد ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اتنا pain لیتے تھے۔اور اسی لیے طلبہ ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان کا احترام کرتے تھے اور ان سے پڑھنے کی خواہش کرتے تھے۔
جامعہ میں ایک سال بی اے عربک اور ڈپلوماان موڈرن عربک میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرا داخلہ سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا اور میں بلا چوں وچرا وہاں چلا گیا۔ وہاں جاکر میں نے فینان صاحب کو اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کئی خطوط لکھے۔ وہ ان خطوط کا جواب بھی دیتے اور ہلکی پھلکی اصلاح بھی کرتے۔ چار سال کے بعد جب میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوا تو میں نے وہاں ملازمت کی کوشش نہیں کی۔ ہر چند کہ ملازمت کا کوئی سلسلہ ہوسکتا تھا مگر میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ مجھے ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنی ہے۔لہٰذا بی اے کی تحصیل کے بعد جب میں واپس آیا تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے میں پروفیسر زبیر احمد فاروقی صاحب شعبے کے صدر تھے۔ جامعہ میں داخلے کی کاروائی مکمل ہوچکی تھی۔ میں نے فورا دہلی یونیورسٹی کا رخ کیا ۔وہاں ابھی داخلے کا سلسلہ چل رہا تھا ۔ لہٰذا میرا داخلہ ہوگیا۔ اس وقت وہاں تقریبا دو سال قبل پروفیسر محمد نعمان خان صاحب کابحیثیت ریڈر تقرر عمل میں آیا تھا اور وہی صدر شعبہ تھے۔ پرفیسر نثار احمد فاروقی اور پروفیسرمحمد سلیمان اشرف اور پروفیسر محسن عثمانی ندوی شعبے کے موقر اساتذہ میں شامل تھے۔ غالبااسی سال پروفیسر ولی اختر ندوی کا تقرر عمل میں آیا تھا۔ یہ۹۸-۱۹۹۷ء کی بات ہے۔ اس وقت دہلی یونیورسٹی میں طلبہ کے لیے حاضری ضروری نہیں تھی۔ میرا قیام جامعہ نگر میں تھا جہاں سے دہلی یونیورسٹی آنے اور جانے میں تین چار گھنٹے لگ جاتے تھے لہٰذا میں نے دوبارہ اپنے استاد محترم پروفیسر فینان صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔اب ان کی اجازت سے میں ایم اے عربی کی کلاس میں ان سے ٹرانسلیشن پڑھنے لگا۔ پوری پابندی کے ساتھ میں نے ان سے ایک سال تک ٹرانسلیشن پڑھا۔ٹرانسلیشن ہر چند کہ بہت خشک مضمون ہے مگر فینان صاحب کی خصوصیت یہ تھی کہ ٹرانسلیشن کی کلاس گویا جنرل نالج کی کلاس ہوجایا کرتی تھی۔ کوئی ایسی نامانوس اصطلاح یا مشکل لفظ نہیں ہوتاتھا جس کی تہ میں جاکر وہ اس کی تشریح نہ کرتے ہوں۔ ٹرانسلیشن کے دائرے سے نکل کر جب مختلف لفظوں کی وہ تشریح کرتے تو ایسا لگتا کہ ان کومختلف موضوعات پر کتنی گہری دسترس ہے۔
اس وقت انھوں نے عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی میں جن موضوعات پر ترجمے کی مشق کرائی ان میں Patek Philip watch, Dubai National Bank, Saddam a hero in Valley, Barkly, Jaguar Car,JK Pharmaceuticals, Popov Swimmer, Su'ad Husni, Taliban, Indo Pak talks, Bloodless form of brain surgery, Golden Eye وغیرہ اہم موضوعات کے علاوہ کچھ دیگرسیاسی موضوعات بھی شامل تھے۔ مجھے اسی کلاس میں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ 007کے نام سے کوئی انگریزی فلم بھی ہے اور بہت مشہور ہے۔پہلی مرتبہ فینان صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ جیمس بونڈ کے نام سے انگریزی فلموں کا کوئی بہت مشہور ہیرو ہے۔بارکلی نام سے کوئی مشہورسگریٹ ہوتی ہے۔ جیگوار کار نام کی کوئی مشہور زمانہ اور مہنگی کار بھی دنیا میں پائی جاتی ہے۔سعاد حسنی نام کی کوئی عرب ہیروئن ہے جسے عربی اسکرین کی سنڈریلا کہاجاتاہے اور جسے شزوفرینیا کی بیماری لاحق تھی۔ دونوں کی فینان صاحب نے کیا لاجواب تشریحات کی تھیں۔طب سے متعلق مذکورہ عنوان سے ایک پیراگراف کے ترجمے کی بھی مشق کرائی تھی۔ یہ پیراگراف بہت مشکل تھا مگر آپ نے طبی اصطلاحات کی اس طرح تشریح کی جیسے ہم لوگ میڈیکل کے طالب علم ہوں نہ کہ ٹرانسلیشن کے۔ٹرانسلیشن بھی وہ اتنا خوب صورت اور معیاری کرتے ا ور کراتے تھے کہ کئی مرتبہ عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی جملے محاورہ اور ضرب المثل کی شکل اختیار کرجاتے تھے۔میرے پاس ان کے پڑھائے ہوئے ٹرانسلیشن کی کاپیاں آج بھی محفوظ ہیں۔ ٹرانسلیشن کی کاپیوں کو بھی وہ چیک کرتے تھے۔ مارکنگ کرتے تھے اور اپنا دستخط ثبت کرتے تھے۔
نوٹ : مقالہ نگارصدرشعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیز، باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری ہیں
9086180380
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)