سال رواںمیں نومبر کے آواخر میں ہند پاک کشیدہ تعلقات اورسرد مہریوں کے بیچ سیاسی فضا میں یکایک بدلتی ہواؤں کے فضا کو قدرے خوش گوار کر ڈالا ۔کرتارپور صاحب راہداری کا کھلنا دو طرفہ تعلقات کو ایک مثبت ڈگر پہ ڈالنے کی موثر کوشش ماننا ہوگی۔اس نئی پیش قدمی کا خیر مقدم امریکہ سمیت چین نے بھی اپنے سفارتی اندازِ گفتار میں کر کے دونوں ملکوں کو عوام کا عوام سے رابطہ بڑھانے پر شاباشی دی ۔ اس اہم واقعہ سے کچھ ہی دن قبل ناروے کے کچھ رابطہ کاروں کو سرینگر میں حریت کانفرنس کے قائدین سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ ان رابطہ کاروں میں ناروے کے سابقہ وزیر اعظم کجل میگنی بونڈیوک (Kjell Magne Bondevik ) بھی شامل تھے۔اس رابطہ کاری کو سفارتی کوشش کے زمرے میں تولنا شاید مناسب نہ ہو چونکہ اس میں موجودہ ناروے سرکار کے زعماء شامل نہیں تھے بلکہ اسے ناروے کی غیر سرکاری اداروں کی سعی و کاوش ماننا ہو گا۔ناروے کے ان غیر سرکاری اداروں نے ماضی میں بھی دنیا کے کئی خطوں میں رابطہ کاری کے فرائض نبھائے ہیں۔اِن خطوں میں کشمیر کی مانند صورت حال کشیدہ تھی اور ناروے کے اِن رابطہ کاروں کا کردار مثبت رہا۔سری لنکا کی سرکار کے ساتھ تامل آبادی کی مبارزہ آرائی میں بھی ناروے کے اِن اداروں کی کوششیںبار آور ثابت ہوئیں۔ناروے کے اِن رابطہ کاروں کی کوششوں کو مسلہ کشمیر کے ضمن میں کیا عنواں دیا جائے اِس کے تجزیے سے پہلے کرتارپور راہداری کے قیام کو جانچنا ہو گا جو سفارتی میدان میں ایک بڑی پیشرفت مانی جاتی ہے لیکن جس کے پیش منظر میں جو بیانات سامنے آئے اُن سے یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہند و پاک تعلقات کی ہواؤں کو بدلتے دیر نہیں لگتی اور یہاں سفارتی میزاں کوبنائے رکھنا کارے دارد ہے چونکہ یہاں مثبت کو منفی ہوتے دیر نہیں لگتی۔
کرتارپور صاحب کو سکھ مت کے مذہبی دائرے میں ایک اہم مقام ہے۔یہاں سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیو جی کا وفات سے پہلے 18برس قیام رہا۔ وہ اِس مقام پہ 1521ء سے 1539ء تک قیام پذیر رہے۔ 1539ء میں وہ جہاں فانی کو الوداع کہہ گئے اور یہی اُن کی آخری آرام گاہ بھی واقع ہے۔ اِس مناسبت سے یہ سکھوں کے اہم ترین مقامات میں مانا جاتا ہے۔ کرتارپور صاحب پنجاب میں ہند و پاک سرحد سے کچھ ہی دور( چار کلو میٹر کے فاصلے پر ) پاکستان کے ناروول ضلع میں واقع ہے۔ پنجاب کے گرداسپور ضلع میں سکھ مذہب کے ایک اور اہم مذہبی مقام ڈیرہ بابا نانک سے کرتارپور صاحب کے چند ہی کلو میٹر کی دوری پر واقع ہوا ہے۔ اِس سے کرتار پور صاحب راہداری کی مذہبی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 1947ء سے کئی دفعہ سفارتی رابطوں میںڈیرہ بابا نانک سے کرتارپور صاحب کی راہداری کو عملی بنانے کا موضوع طے ہوا لیکن آج تک یہ عملی جامہ نہ پہن سکا۔اس کی بڑی وجہ آر پار کے سیکورٹی خدشات ہو سکتے ہیں۔ 18 اگست 2018ء کے روزعمران خان کی بہ حیثیت وزیر اعظم حلف وفاداری کی تقریب میںجن بھارتی مہمانوں کو مدعو کیا گیا، اُن میں مشہور کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو بھی شامل تھے ۔سدھو آج کل بھارتی پنجاب کی کابینہ میں وزیر ہیں۔اس تقریب حلف برداری میں عمران خان نے اپنے کرکٹ کے دنوں کے رفقاء سنیل گواسکر اور کپل دیو کو بھی بلایا تھا لیکن وہ معذرت خواہ ہوئے ،جب کہ نوجوت سنگھ سدھو شوق و اشتیاق سے فنکشن میں شامل ہوئے۔تقریب کے دوران پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوجوت سنگھ سدھو کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ یہ بھی کہہ بیٹھے کہ کرتارپور صاحب کی راہداری کا کھلنا عمل پذیر ہو گی ۔
گلے لگنے کے عمل کو پنجابی میں جھپی کہتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جھپی نوجوت سنگھ سدھو پر بھارت میں بھاری پڑی۔ٹی وی پرائم ٹائم کے دوراں مختلف ٹی وی اینکروں نے نو جوت سنگھ سدھو کو آڑے ہاتھوں لیاکہ وہ کیوں اور کیسے بھارتی سپاہیوں کے’’ قاتل ‘‘پاکستانی فوجی سربراہ سے گلے ملے؟ بھارتی الیکٹرونیک میڈیا کے اِن اینکروں کی نظریں ٹی آر پی (TRP) پہ ہوتیں ہے جس کا مدعا و مفہوم یہ ہے کہ وہ کتنے تماشہ بینوں کی توجہ جلب کر سکیں۔ بھارت کی کئی ٹی وی چنلوں پہ پرائم ٹائم میں جو شور شرابہ ہوتا ہے اُسے سنجیدہ نکتہ نظرکے بیاں سے تشبیہ دینا محال ہے۔بہر صورت نوجوت سنگھ سدھوٹی وی اینکروں کی مار کھاتے ہوئے بھی کہتے رہے کہ سرحد پار والے راہداری کھولنے کیلئے تیار ہیں۔راہداری کے ساتھ چونکہ شدید مذہبی جذبات وابستہ ہیں لہذا بھارت سرکار پیشنہاد کرنے پہ آمادہ ہوئی ۔ پاکستان پہلے ہی آمادہ تھا۔راہداری شروع ہونے کے پس منظر و پیش منظر میں بھارت و پاکستان دونوں اِس اصرار پہ ڈٹے رہے کہ پیشنہاد اُن کی طرف سے ہوئی۔بالا دستی قائم رکھنے کا رحجان آج ہی کا نہیں بلکہ برسوں سے دونوں ممالک کا شیوہ رہا ہے۔یہ صیح ہے کہ واجپائی اور منموہن سنگھ کے دور وزارت میں کئی دفعہ سفارتی حلقوں میں یہ موضوع مطرح ہوا لیکن بات بنی نہیں جس کی وجہ جیسا کہ پہلے ہی نوٹ ہوا ہے سیکورٹی خدشات ہو سکتے ہیں لیکن جب پاکستان کے آرمی چیف نے اِن خدشات سے صرف نظر کرتے ہوئے نوجوت سنگھ سدھو کے وسیلے بات سرحد پار پہنچا دی تو بھارت نے اِسے اپنی پیشنہادکے طور پہ پیش کرتے ہوئے منظر عام پہ لانے کی کوشش کی۔بالا دستی ثابت کرنے کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔
بھارت نے راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے 26نومبر کا دن مقرر کیا جبکہ پاکستان کی طرف سے 28نومبر کا دن مقرر ہوا۔ بھارتی تقریب میں سنگ بنیاد رکھنے کیلئے نائب رئیس جمہور ونکیہ نائڈو مقرر ہوئے جبکہ پاکستان کی جانب سے یہ اعلان ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان سنگ بنیاد رکھیں گے۔بھارتی نائب رئیس جمہور کا مقام رئیس جمہور کے بعد دوسرے نمبر پر ہے لیکن عملاََ نائب رئیس جمہور وہاں پہ نظر آتے ہیں جہاں رئیس جمہور یا بھارتی وزیر اعظم جانا نہیں چاہتے ۔اتفاقاََ 26نومبر کا دن بھارتی قومی کلینڈر میں ایک ایسی یاد لئے ہوئے ہے جو درد ناک ہے۔آج گئے دس سال پہلے26نومبر 2008ء کو ممبئی میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا جس میں بہت سارے افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور املاک کا نقصان ہوا۔ بھارت کا مانناہے کہ اِس دہشت گرد حملے میں پاکستانی تنظیمیں ملوث تھیں جن میں کہا جاتا ہے حافظ سید کی تنظیم سر فہرست ہے ۔پاکستان میں بھارتی مراسلوں پہ مبنی مقدمات شروع ہوئے لیکن ابھی یہ منطقی انجام کو نہیں پہنچے ہیں۔جہاں بھارت کا یہ دعوہ ہے کہ سارے ثبوت پاکستان کو فراہم کئے گئے ہیں وہی پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ کہا گیا کہ فراہم شدہ ثبوت پاکستان کی عدالتوں میں ٹک نہیں پاتے۔ اِسی الزام تراشی میں دس سال بیت گئے او ر آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ 26نومبر2018ء کے روز جب نائب رئیس جمہور ونکیہ نائڈو سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شریک ہو رہے تھے تو صبح سے بھارتی ٹیلی ویژن چنلوں پہ 26نومبر 2008 کو یاد کرتے ہوئے گرم گفتاری چھائی رہی ۔اِس گرم گفتاری کا نشانہ چونکہ پاکستان تھا اسلئے یہ احساس ہی نہ ہو سکاکہ ہند و پاک کے مابین ایک اہم سفارتی پیش رفت ہو رہی ہے جس کی جتنی تشہیر ہو سکے اتنا ہی تعلقات بڑھانے کے کام آ سکتا ہے۔26نومبر 2018ء کی تقریب 26نومبر 2008ء کو یاد کرتے ہوئے ماند پڑ گئی۔بھارتی تقریب میں کوئی پاکستانی مہمان نہیں تھاجس سے یہ تاثر ملا کہ کرتارپور راہداری کی سفارتی پیش رفت کو بھارت اِسی مرحلے پہ ختم کرنا چاہتا ہے جو پیش منظر میں عیاں ہوا۔
28نومبر کے روز پاکستانی تقریب میں خاصی گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا۔یہ تقریب کرتارپور صاحب میں سکھوں کے مقدس مقام پہ منعقد ہوئی۔پاکستان کی جانب سے اِس تقریب میں شرکت کیلئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور پنجاب کے وزیر اعلی امریندر سنگھ کو مدعو کیا گیا تھا لیکن دونوں معذرت خواہ ہوئے۔بھارت کی جانب سے البتہ دو مرکزی وزراشامل ہوئے جو منسٹر آف سٹیٹ یعنی وزیر مملکت کی رینک کے وزیر ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ کا معذرت خواہ ہونا اور نچلی رینک کے دو وزرا کی شرکت یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ بھارت اِس تقریب کو وہ اہمیت نہیں دینا چاہتا تھا جس کی پاکستان کو توقعہ تھی ثانیاََ یہ دونوں وزیر سکھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لہذا اُن کی شرکت کو سفارتی رنگ دینے کے بجائے مذہبی پیرائے میں جانچا گیا۔ سفارتی سطح پہ عیاں ہوا کہ بھارت کرتارپور کے سلسلے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا۔یہ بات تب پایہ اثبات تک پہنچی جب سشما سوراج نے علنناََ یہ کہا کہ بھارت کا کرتارپور صاحب کے سفارتی اقدام کو آگے بڑھانے کا کوئی اردہ نہیںچونکہ دہشت گردی اور ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔حسب المعمول بھارت نے کشمیر میں جنگویانہ کاروائیوں کو پاکستان کے حساب میں ڈال دیا۔
سشما سوراج کے نکتہ نظر کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کے بیان سے بھی تقویت ملی۔موصوف نے پاکستانی تقریب میں اپنی عدم شمولیت کی دلیل پاکستانی ’’دہشت گرد ی‘‘ جتلائی ۔اُنہوں نے بھارتی پنجاب میں حالیہ بمب دھماکے کو پاکستان کے کھاتے میں ڈالا۔ جہاں امریندر سنگھ نے سشما سوراج کی ہاں میں ہاں ملائی ،وہی اُن کی کابینہ کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو نے تقریب میں شوق و اشتیاق سے شمولیت کی۔ حالانکہ اُن کے چیف منسٹر نے اُنہیں شریک نہ ہونے کی ’’صلاح ‘‘دی تھی۔ نوجوت سنگھ سدھو ذاتی حیثیت میں تقریب میں شامل ہوئے اور وہاں اُنہیں بھارتی کابینہ کے وزیروں پہ فوقیت دی گئی ۔ اسے بھارتی میڈیا میں پروٹوکول کی خلاف ورزی جتلایا گیا۔اپنی تقریر میں عمران خان نے نوجوت سنگھ سدھو کی تعریفوں کے پل باندھے بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ نوجوت اگر پاکستان میں الیکشن لڑیں تو کامیاب ہو جائیں گے ۔عمران نے اپنے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ کہیں اُنہیں بھارت کے ساتھ بات آگے بڑھانے کیلئے نوجوت سنگھ سدھو کے بھارتی وزیر اعظم بننے کا انتظار نہ کرنا پڑے ؟پاکستان میں ایک دوسری تقریب میں نوجوت سنگھ سدھو کو ایک تصویر میں پاکستان میں مقیم ایک خالصتانی لیڈر کے ساتھ بھی دیکھا گیا، جس پر بھارتی پرنٹ اور الیکٹرونیک میڈیا پر کافی اعتراضات ہوئے۔نوجوت سنگھ سدھو جہاں آج کل اپنے چیف منسٹرکے ساتھ اُلجھے ہوئے، وہی دائیں بازو کے شدت پسند ہندتو احلقے اُن پہ نشانہ تاکے ہوئے ہیں ۔ البتہ اِن سے ہٹ کے اُنہیں بھارت سمیت دنیا بھر کے سکھ حلقوں میں خاصی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے ۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ مستقبل میں امریندر سنگھ کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ا س سے صرف نظر کہ بھارت کی داخلی سیاست پہ کرتارپور صاحب راہداری بننے سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، اتناتو کہا جا سکتا ہے کہ اِس کے پیش منظر کا سیاسی صحنہ کئی امکانات کا حامل ہے۔یہ صحیح ہے کہ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ کے دور وزارت میں بھی کرتارپور صاحب کی راہداری کا قیام سفارتی سطح پہ چھایا رہا لیکن عصر حاضر میں پاکستان کی پیش قدمی نے اسے ایک نیا ہی رنگ بخشا۔بھارت بھلے ہی بات چیت سے کترا رہاہو لیکن پاکستانی اصرار کے ہوتے ہوئے بھارت کب تک ٹالتا رہے گا ؟اس پر آر پار کے سیاسی مبصرین کی گہری نظر لگی ہوئی ہے۔عمران خان نے نہ صرف کرتارپور صاحب کی تقریر کے دوران کشمیر قضیہ کا ذکر کیا بلکہ بعد میں بھارتی نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت میں بھی یہ ذکر چلتا رہا۔
کشمیر مسئلے کے حل میں ضمن میں جہاں کرتارپور راہداری کے کھلنے سے پیش رفت کی توقع تھی، وہیں بھارت کے منفی رویے سے بڑھتی ہوئی اُمیدوں پہ اُوس چھا گئی۔نا اُمیدی کا تاثر البتہ کئی اور اُمید افزاء امکانات سے ماند پڑتا ہے۔اِن اُمید افزا ء امکانات میں کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر ناروے کے رابطہ کاروں کا نمودار ہو نا بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ ناروے کے ان رابطہ کاروں کا حریت کی لیڈرشپ سے ملنا سرکار ہند کی اجازت کے بغیر نا ممکن تھا۔دیکھا جائے تو حریت لیڈرشپ کے ساتھ بات چیت پر بھارت سرکار نے پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کو منقطع کیا تھاچونکہ بھارت سرکار کی نظر میں مسلٔہ کشمیر کے ضمن میں حریت کا کوئی رول نہیں۔بھارت یہ نظریہ بدلنے پہ کیوں مجبور ہوا؟ اس امرکے پس منظر میںکسی نہ کسی عالمی حلقے کا دباؤ ہی کارفرما ہو سکتا ہے۔2018ء کے دوران حقوق بشر کی کئی عالمی تنظیموں نے ایسی رپورٹیں منظر عام میں لائی ہیں جن میں بشری حقوق کی ناقابل برداشت خلاف ورزیوں کی لمبی فہرستیں شامل رہیں۔اِن میں سر فہرست جون2018ء کی اقوام متحدہ کی حقوق بشر کی تنظیم کی رپورٹ تھی جس کی سال بھر کافی تشہیر ہوئی۔کہا جاتا ہے یورپین یونین کے ادارے بھی کشمیر مسئلے اور یہاں حقوق ا لبشر کے معاملے پر تحقیق کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ناوروے کی رابطہ کاری کے ضمن میں مثبت رویہ اور کرتارپور راہداری کے کھلنے کے بعد کا منفی رویے یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت جہاں 2019ء کے جنرل الیکشن کے مد نظر کھلے عام ڈائیلاگ کا عندیہ نہیں دینا چاہتا ،وہی کہیں نہ کہیں سفارتی راہداری کو کھلا بھی رکھنا چاہتا ہے ، قائم رہے تو کام آئے گا۔
Feedback on: [email protected]