ایودھیامیں 25؍نومبر2018ء کو 6؍دسمبر 1992ء کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکی۔کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ کسی مسلم گھر پر حملہ نہیں ہوا۔ امن شانتی رہی۔ممبئی سے خاص طور پر ایک اسپیشل ٹرین کے ذریعہ جو شیوسینک آئے وہ خاموشی سے واپس چلے گئے۔ شاید انہیں اس بات کا ڈر تھا کہ شمالی ہند کے لوگوں پر جس طرح مہاراشٹرا میں شیوسینکوں نے حملے کئے تھے اور انہیں مار بھگایا تھا کہیں اس کا انتقام نہ لیا جائے۔ ویسے صحافیوں نے پریس کانفرنس کے دوران اس مسئلہ پر مسلم دشمنی یا نفرت کی وراثت اپنے باپ سے پانے والے اُدھو ٹھاکرے کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
ایودھیا میں کہا جارہا ہے کہ ’’دھرم سنسد‘‘ ناکام رہی۔ کسی نے اُسے مسلمانوں کی دعائوں کا اثر قرار دیا تو کسی نے مسلمانوں کے صبر و تحمل کا نتیجہ قرار دیا۔ کتنے مسلمانوں نے امن کی دعا کی ہوگی‘ کن مسلمانوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اس کا تو اندازہ نہیں کیوں کہ ایودھیا میں رہنے والے ساڑھے تین ہزار مسلمان حالات کو دیکھتے ہوئے دوسرے مقام کو منتقل ہوگئے تھے جبکہ ٹیلی ویژن چیانل پر کارٹون قسم کے غیر اہم حضرات کو اودھم مچاتے دیکھا گیا۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے خود اس دھرم سنسد کو ناکام بنایا تاکہ شیوسینا ایک متبادل طاقت کے طور پر نہ ابھرسکے۔ اس مقصد میں وہ صد فیصد کامیاب رہی۔ جس طرح یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت میں ہندو واہنی کو ایک طاقت کے طور پر اُبھرنے سے روکنے اور یوگی کے پَر کترنے کے لئے انہیں چیف منسٹر کا عہدہ دے کر پانچ سال تک مسائل میں الجھا دیا گیا جس سے ان کی تنظیم خود بخود کمزور ہوگئی۔آئے دن یوپی میں کوئی نہ کوئی ایسا تنازعہ پیدا ہوجاتا ہے کہ یوگی اسے سلجھاتے سلجھاتے خو دالجھ جاتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر ان میں سب سے اہم ہے۔ابھی 27؍نومبر ہی کا واقعہ ‘ رائے بریلی جیل کے اندر قیدیوں کے عیش و عشرت، قتل کے منصوبے کے ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یوگی حکومت الزامات کے گھیرے میں آچکی ہے۔ حالانکہ ایودھیا میں دھرم سنسد کی ناکامی کا کریڈٹ انہیں ملنے والا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ویڈیو نے ان کے سرسے سہرا چھین لیا۔
اسی طرح بی جے پی کی مرکزی اور حکومت اُترپردیش نے جہاں شیوسینا کو ایودھیا میں ان کی سرگرمیوں کی اجازت دی وہیں‘ انہیں ان کی حد میں رکھا اور اُدھو ٹھاکرے کی قومی سطح پر ہندوتوا طاقتوںکا لیڈر بننے کی کوشش کو ناکام بنادیا۔ شیوسینا اور سنگھ پریوار میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں ہی مسلم دشمنی کے بل بوتے پر اپنی طاقت‘ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اُدھو ٹھاکرے کو مسلم دشمنی، نفرت، اپنے باپ بال ٹھاکرے سے ورثہ میں ملی‘ بال ٹھاکرے نے آخری وقت تک مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا۔ ممبئی فسادات میں مسلمانوں کی جانی و مالی نقصانات پر فخر کا اظہار کیا۔ بابری مسجد کی شہادت پر بھی شیوسینکوں کو شاباشی دی جو کارسیوکوں میں شامل تھے اور چند دن پہلے شیوسینا کے ایک قائد اور ان کے ترجمان اخبار کے ذمہ دار سنجے راوت نے بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ ہم نے بابری مسجد کو صرف 17منٹ میں مٹادیا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ ہندوتوا طاقتوں میں شیوسینا کی اہمیت کو بڑھایا جائے۔ سنگھ پریوار میں شامل تمام جماعتیں ہم خیال نہیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سنگھ پریوار ہی کی ایماء پر نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بنے مگر ا یک اطلاع یہی بھی ہے کہ 2019ء میں سنگھ پریوار وزیر اعظم کے عہدہ پر کسی اور کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح خود بی جے پی میں کئی ایسے قائدین ہیں جو مودی کے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ شیوسینا اگرچہ کہ مہاراشٹرا میں زبردست اثر و رسوخ رکھتی ہے‘ مگر اس سے منحرف اُدھو ٹھاکرے سے اختلافات رکھنے والے ان کے کزن راج ٹھاکرے زیادہ مقبول ہیں اگرچہ کہ ان کی پارٹی کو خاطر خواہ مدد نہیں ملی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایودھیا میں اگر 25؍نومبر پرامن گذر گیا تو محض اس لئے کہ یہ بی جے پی حکومت چاہتی تھی۔ اگر حکومت چاہے تو لاء اینڈ آرڈر قابو میں رہ سکتا ہے۔ 6؍دسمبر 1992ء کو اس لئے تباہی بربادی ہوئی کہ یہ سنگھ پریوار بھی چاہتی تھی اور سنگھی ذہنیت کے حامل وزیر اعظم پی وی نرسمہا رائو بھی ایسا ہی چاہتے تھے۔ جب تک مسجد شہید ہوتی رہی‘ نرسمہا رائو خواب غفلت میں کھوئے رہے۔ بہرکیف اس سے پہلے جب ملائم سنگھ یادو چیف منسٹر اترپردیش تھے تو انہوں نے بابری مسجد کی طرف بڑھتے ہوئے کارسیوکوں پر ربر کی گولیاں چلواکر حالات کو قابو میں کروایا تھا۔ جہاں حکومت پولیس کو لاء اینڈ آرڈر سے متعلق نرم رویہ اختیار کرنے کی آزادی رہتی ہے یا اشاروں اشاروں میں انہیں کسی ایک فرقہ کے خلاف یکطرفہ کاروائی کی اجازت دے دیتی ہے۔ وہاں حالات بگڑے ہی ہیں جیسے گجرات 2002ء میں ہوا۔ سری کمار آئی پی ایس ریٹائرڈ کی کتاب ’’گجرات۔پردے کے پیچھے‘‘ میں ایسے کئی انکشافات کئے گئے کہ کس طرح چیف منسٹر گجرات مودی نے پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔ لیفٹننٹ جنرل ضمیرالدین شاہ نے اپنی کتاب ’’سرکاری مسلمان‘‘ میں بھی انکشاف کیا ہے۔ مودی نے حالات کی سنگینی اور ضمیر الدین شاہ کے مشورہ کے باوجود فوج کو 48گھنٹے تک شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جس کی وجہ سے حالات پر قابو نہیں پایا جاسکا۔
بہرکیف ایودھیا میں یہ کنبھ تو پرامن گذر گیا۔ اس پر خوش ہونے یا اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی بجائے ذرا سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لیجئے، غور کیجئے۔ پہلی بار ہندوتوا کی علمبردار دو جماعتیں ایک دوسرے سے مسابقت کی کوشش میں ایک دوسرے سے خلاف ہوئیں اور ان کی طاقت بکھر گئی۔ یہ طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں کی طاقت کو منتشر کرنے کی اسی طرح کوشش کرتی رہی ہیں اور مسلمان اپنے مفادات کی خاطر آپس میں لڑکر پٹتا رہا۔ برباد ہوتا رہا۔ ایودھیا میں ہمارے سیاسی اور مذہبی قائدین کو سبق لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اکثر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کبھی کوئی مسلم جماعت کوئی کام کرنا چاہتی ہے تو اس کی راست یا بالراست کوئی دوسری جماعت اس کی مخالفت کرنے لگتی ہے۔ کوئی ایک مسلم قائد کہیں سے اُبھرنے لگتا ہے تو دوسرے مسلم قائدین کے پیٹ میں مروڑ شروع ہوجاتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سے اُبھرتے قائد کو روکا جائے۔ تنظیموںکا یہی حال ہے چاہے وہ سیاسی نوعیت کو ہوں یا ادبی، ثقافتی یا پھر مذہبی نوعیت کے۔ ہر تنظیم اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کانتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر مسلمان متحد نہیں ہوپاتا اور مسلم دشمن طاقتیں کسی کوشش کے بغیر کامیاب ہوجاتی ہیں۔ لطیف الدین قادری مرحوم منیجنگ ایڈیٹر رہنمائے دکن نے انتقال سے چند دن پہلے مکہ مسجد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کے آپسی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت اس قدر اندھیرا ہے کہ جہاں سے جو چراغ جلتا ہے اُسے جلنے دیا جائے آج کے حالات میں مسلم جماعتوں اور قائدین کو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ دوسرے کو نقصان پہنچانے بغیر خود آگے بڑھنے میں کسی کو اعتراض یا شکایت نہیں ہوسکتی۔ دوسروں کو گراکر اُسے روند کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ٹانگ کھینچنی ضروری ہوجاتی ہے۔ اس وقت ہر شعبہ حیات میں قیادت کی ضرورت ہے۔ علاقہ واری، ضلعی، ریاستی سطح پر بھی مسلم قیادت ضروری ہے اور قومی سطح پر اجتماعی قیادت ناگزیر ہے۔ جب بابری مسجد تحریک اُس وقت کے مسلم قائدین کے آپسی اختلافات اور اُن کی اَنا کے ٹکرائو کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو نقصان کس کا ہوا؟قوم اور ملت کا۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔قوم کو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر متحدہ ہونے کی تلقین کرنے والے خود آپس میں پہلے متحد ہوجائیں‘ چاہے انتخابی جلسہ عام ہو یا مسجد کا منبر۔ انہیں انتشار کی بجائے اتحاد کے لئے استعمال کیا جائے۔
نوٹ : مضمون نگارایڈیٹر’’ گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد ہیں۔ فون:9395381226