Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

آزاد قیدی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: December 8, 2018 10:08 pm
Kashmir Uzma News Desk
Share
12 Min Read
SHARE
تخلیق کار کو تخلیقی اختصاص کے مقام پر پہنچانے میں قوت تخیّل‘وسعت فکراور منفرد اسلوب وغیرہ جیسے فکری و فنی لوازمات کابنیادی رول ہوتا ہے۔ان لوازمات کے تناظر میں’’آزاد قیدی ‘‘کے سحر طراز افسانوںسے ظاہر ہوتا ہے کہ مجموعہ کے خالق جناب فیصل نواز چودھری (اوسلو‘ناروے) اپنے تخیل کی بلندی‘فکر کی وسعت اور دلنشیں اسلوب کے امتزاج کی بدولت عصری عہد کے سیاسی‘سماجی‘ تہذیبی معاشی‘ اخلاقی اورنفسیاتی مسائل کے مآل اندیش سفیر ہیں۔بقول پروفیسر سید مسعود ہاشمی (پاکستان)  :    
’’فیصل نواز چودھری پاکستان اور ناروے کے سماجی‘تہذیبی‘سیاسی اور نفسیاتی مسائل کی عکاسی پر پوری دسترس رکھتے ہیں۔‘‘ 
ادب میں نظریۂ فن  کے تعلق سے متفرق نظریات کی گہما گہمی ہر جگہ نظر آتی ہے۔فیصل نواز چودھری نظریہ فن کی صراحت کرتے ہوئے مجموعے کے پیش لفظ میں لکھتے ہیںکہ فن کار جس خطہ میں رہ کر فنی کام انجام دیتا ہے تووہاں کے لکھے ہوئے ادب کو پڑھ کر وہاں کے ادبی‘ معاشی‘ معاشرتی اور ڈیلی لائف کے متعلق قاری کو تمام معلومات ہونی چاہیے ۔اور فن کے منصب اور ذمہ داری کے بارے میں موصوف کا کہناہے کہ ’’ہر قلم کار پر ایک ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی تحریروں کے ذریعے تبدیلی لائے اور عوام الناس کو ایک نئی اورذہنی تازگی فراہم کرے۔‘‘
   مذکورہ خیالات کے پیش نظر فاضل افسانہ نگار ’’ادب برائے زندگی‘‘کے قائل نظر آتے ہیںجس کا اظہار ’’آزاد قیدی‘‘کے افسانوں سے بھی صاف ہورہا ہے ۔یہ مجموعہ اٹھارہ افسانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے بیشتر افسانے ہند و پاک کے معیاری رسالوں میںشائع ہوکر قارئین سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں۔کتاب کو عالمی سطح کے جن ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے پنے تاثرات سے نوازا ہے ان میں خالد یوسف(آکسفورڈ)‘جاوید اختر چوہدری (برمنگھم‘برطانیہ)‘پروفیسر سیّد مسعود ہاشمی (گجرات‘ پاکستان) ‘جتندر بلو(لندن)‘نصر ملک (ڈنمارک)‘مقصود الٰہی شیخ (انگلینڈ)‘فرخ صابری (لاہور ‘پاکستان ) وغیرہ شامل ہیں۔ راقم کو جب یہ علمی تحفہ بذریعہ ڈاک موصول ہوا تو کئی دنوں تک مطالعہ کرنے کے بعد اس پر کچھ لکھنے کا من بن گیا۔
شامل تصنیف افسانوں کی قرات سے ظاہر ہے کہ افسانہ گار انسانیت کی اعلیٰ قدروں کے پاسداربھی ہیں اور حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک بھی۔اپنی کہانیوں میں انہوں نے مشرقی اور مغربی تہذیب کے محاسن و معائب کو فنی سطح پر محققانہ نگاہ سے پیش کیا ہے اور بلا تعصب و مصلحت کے حسب مناسب اجاگر بھی کیا ہے۔ان کے افسانے حکیم الامت علاّمہ اقبال ؔؒکے درجہ ذیل شعر کا نثری مرقع معلوم ہوتے ہیں:
  ؎ مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر         فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اعلیٰ تخّیل کے بل پراگرچہ فیصل نوازاپنے افسانوں میں ایک طرف مغربی تہذیب کی اخلاقی بے راہ روی‘نسلی و علاقائی امتیاز اور مذہبی تعصب خصوصاََ۱۱/۹کے مشکوک واقعہ کے بعد مسلمانوں کے تئیں مغرب والوں کی بدلتی ہوئی سوچ کا نقشہ بڑے دل پذیر اندازمیں کھینچتے ہیں تو دوسری جانب وہ مشرقی عوام کے طبقاتی استحصال اور منجمد افکار ‘علاقائی تعصب‘عدم مساوات اور ذات پات جیسے جاہلانہ رسم ورواج کی قلعی بھی کھول دیتے ہیں۔بقول  قمر سنھبلی    ؎؎
الفاظ کی تاثیر‘کہ جادو ہے زباں کا
لہجے سے وہ پتھر کا جگر کاٹ رہا ہے
موجودہ دور میں مسلمانوںکو جگہ جگہ روحانی کرب کا شکار ہونا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔افسانہ نگار’بلیک لسٹ‘‘نامی افسانے میںیورپ میں مقیم مسلمانوں کے روحانی کرب اور نفسیاتی الجھنوں کی فکر انگیزعکاسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’پوسٹ بینک میں بعض ساتھیوں کو وہ بالکل پسند نہیں تھا کیونکہ ناروے میںہر وہ خبر جس کا تعلق غیر ملکیوں ‘پاکستانیوں اور مسلمانوںسے ہوتا اسکا جواب اسے دینا پڑتا بلکہ بعض اوقات تو اسے ایسا محسوس ہوتا گویا وہ جرم اس سے ہی سر زد  ہوا ہو۔                                                                                                       
اب اس کے پاس صرف یادیں باقی تھیں۔۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔۔کب وہ بھی کوئی اس سے چھین لے ؟‘‘
’’علی نے کہا ‘میرا جنگ سے کیا تعلق۔۔۔۔؟میں عراقی تو نہیں ہوں‘میں تو نورویجن ہوں تو پھر مجھے روکنے کا کیا جواز۔۔۔۔؟
سکورٹی والا کہنے لگا کہ مجھ سے بحث مت کرو۔ مجھے جو حکم ملا ہے مجھے اس کی تعمیل کرنی ہے۔۔۔۔۔مسلمان ۔۔۔اسلام ۔۔۔۔۔ 
بلڈی شِٹ۔۔۔۔پتہ نہیں سکورٹی والا دل ہی دل میں اسکو اور اسلام کو کتنی گالیاں دے گیا۔                                           
پوسٹ بینک کے ملازمین عجیب معنی خیز نظروں سے اسے گھورتے ہوئے اپنا سکورٹی کارڈ دکھاتے گزررہے تھے۔‘‘                        
ایک افسانہ بعنوان ’’چار ملین‘‘میں مشرقی اور مغربی لوگوں کے اخلاقی معیار کا موازنہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مغرب والے مادیت پرستی کے جنون میں انسانی اقدار کی تمام سرحدیں روندھے جارہے ہیں اور مشرق والے عصری مشینی دور میں بھی فطری صالح قدروںکا احساس رکھے ہوئے ہیں۔ افسانے کی کہانی میں یورپ کا ایک ٹی ۔وی چینل نئی نسل کا مورال چیک کرنے کے لئے ایک بڑے شو کا اہتمام کرتا ہے۔افسانے میں یوہان مغربی تہذیب کی نما ئندگی کرتا ہے اورراوی مشرقی تہذیب کا نمائندہ ہوتا ہے۔یوہان کا مورال چیک کرتے ہوئے جب اس کے سامنے چارملین کراون کا چیک پیش کیا جا تا ہے تو وہ چار ملین کراون پانے کے لالچ میں اپنے بیوی بچوں کی عزت نفس اور انسانی رشتوں کی پاسداری پرمادیت کا کالا دھبہ لگاتے ہوئے طلاق نامے پر سائن کردیتا ہے۔ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے اور اس کے بیوی بچے بے عزت ہو کر روتے بلکتے فنکشن ہال سے چلے جاتے ہیں۔ہال میں موجود دیگر نورویجن عورتیں یوہان کی اس غیر انسانی عمل پر نفرت آمیز ردعمل ظاہر کرتی ہوئی چلانے لگتی ہیں: 
’’۔۔۔لالچی کتے ‘مکار‘دولت کے بھوکے اورنورویجن سور۔۔۔‘‘
اس کے برعکس راوی‘جوفنکشن میں بطور مشرقی تہذیب کا نمائندہ شامل ہوتا ہے‘کوجب اسی طرح چار ملین کراون کا  چیک پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی طلاق نامے پر دستخط کرکے اپنے بیوی بچوں کو بے عزت کرتے ہوئے مغربی مورال اپناکر خود کو ماڈرن ثابت کرے تو وہ چیک ہاتھ میں لیکر اس پر کراس لگا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ                                                                 
’’مجھے یہ چیک نہیں چاہیے‘میری بیوی کی ویلیو چار ملین کراون سے زیادہ ہے۔‘‘
اس کا یہ حوصلہ دیکھ کرپورے ہال میں سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ راوی نے ناروے کا باشندہ ہونے کے باوجود یورپ والوں کے مورال پرکراس لگایا تھا اور ان کے منہ پر یہ کہتے ہوئے طمانچہ مارا تھا کہ اتنی مادی ترقی کرنے کے باوجود بھی تم لوگوں کا مورال کراس ہی کے قابل ہے۔لیکن افسانے کا کلائمکس اس وقت زبردست متاثرکن بن جاتا ہے جب راوی سے پوچھا جاتا ہے کہ اس نے چار ملین کراون کا چیک لے کر اپنی بیوی کو طلاق کیوں نہیں دی‘تو وہ کہتا ہے :                                                                      
’’میں نے ہال پرپھر ایک مرتبہ نظر دوڑائی‘کیونکہ لوگ میرے جواب کا شدت سے انتظار کررہے تھے۔
میں نے کہا اس لئے کہ وہ۔۔۔۔میرے بچوں کی ماں ہے۔‘‘                                                     
کتاب میںا یک افسانہ’’دہشت گرد‘‘کے عنوان سے بھی شامل ہے۔اس افسانے میںمغرب والوں کی انتقامی سوچ کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح یہ لوگ ۱۱/۹کے واقعے کو بہانہ بناکرمسلمانوں کے اچھے کام کوبھی مشکوک بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔افسانے میں راوی اور اس کی ننھی سی چھوٹی بچی جب ریلوے اسٹیشن پر ایک زخمی کبوترپر رحم کھاکر مرہم پٹی کرنے کی غرض سے ہاتھوں میں اٹھاتی ہیں تو پاس میں کھڑا پولیس والاان سے پوچھتا ہے کہ تم لوگ اس کو تکلیف تو نہیں دوگے؟ یہ عجیب سا سوال دونوں کو حیراں کردیتا ہے اورراوی کی چھوٹی بچی جب پولیس والے سے پوچھتی ہے کہ آپ اس طرح کے سوال ہم سے کیوں پوچھ رہے ہوتو پولیس والا بڑی حقارت سے کہتا ہے:
’’اس لئے کہ آپ لوگ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
مشرق میں سماجی نابراری اور امتیاز کی بدعت کو فیصل نواز چودھری نے اپنے افسانے’’دو روٹیاں‘‘  میں بڑے مؤثر اور دل پذیر اسلوب میںظاہر کیا ہے۔جناب خالد یوسف(آکسفورڈ) نے مذکورہ افسانے کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’دوروٹیاں‘فیصل کا نمائندہ افسانہ ہے جسے طبقاتی استحصال اور ناہمواری کے خلاف ایک مؤثر تحریر کہا جا سکتا ہے ۔اس میں ان کے مزاج کا ترقی پسندانہ رنگ جھلکتا نظرآتا ہے۔‘‘                                         
مجموعی طور پر تصنیف کے بیشتر افسانوں’چار ملین‘ ’بابا خواجہ‘’برف کے آنسو ‘’اوسلو کی شہزادی ‘ ’دو روٹیاں‘’بلیک لسٹ‘’نازی کراس‘’گھر کا راستہ‘’موٹر وے‘’ناروے کاکیا حال ہے وغیرہ میں مشاہداتی فکر‘ انسان دوستی‘انسانیت نوازی‘ تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی پاسداری‘’طبقاتی کشمکش اور انقلابی سوچ جیسی بہت ساری خوبیاں شفافیت کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہیں۔
٭٭
email;[email protected]
موبائل نمبر؛7006544358
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وادی کشمیر میں شدید بارشوں کی پیشگوئی، انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی موسمی ایڈوائزری جاری
تازہ ترین
جموں کشمیر کا ریاستی درجہ مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا ، مرکز اس کیلئے وعدہ بند :منوج سنہا
برصغیر
وزیر اعلیٰ نےآج اُس بے بسی کا تجربہ کیا جس کا روزانہ ہر کشمیری کو سامنا کرنا پڑتا ہے: میرواعظ
تازہ ترین
نرس کو بچانے کی تمام کوششیں ناکام، مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?