لداخ کو ریاست کا تیسرا صوبہ بنانے کی کوششوں کے بیچ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کو بھی اپنے مخصوص جغرافیائی مقام اور مخصوص مسائل کی وجہ سے علیحدہ صوبوں کا درجہ دینے کی مانگ کی جارہی ہے اور ریاست میں ہر شعبے میں پسماندہ رہ جانے والے ان دونوں خطوں کے عوام نے یہ انتباہ دیاہے کہ اگر یہ فیصلہ منصفانہ بنیادوںپر نہ ہواتو اس کے نتیجہ میں عوامی سطح پر سورش برپا ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ گزشتہ دنوں پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی ان دونوں خطوں کے عوام کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر سوال اٹھایاکہ صرف لداخ کو ہی کیوں الگ صوبہ بنانے پر غور و خوض ہورہا ہے ۔ اگر ایسا کوئی اقدام ہوتا ہے تواس حوالے سے پہلا حق خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کابنتا ہے اور کسی بھی طرح کے یکطرفہ فیصلے کی صورت میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ،کانگریس اور دیگر سیاسی جماعتیں پرامن طور پر ایجی ٹیشن شروع کردیں گی ۔خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کی سیول سوسائٹی ، سیاسی لیڈران، بار ایسو سی ایشنوں اور دیگر سماجی حلقوں کی طرف سے بھی شدید رد عمل سامنے آرہاہے اور سبھی کا یہی مطالبہ ہے کہ اگر لداخ کو الگ صوبے کا درجہ دیاگیا توان خطوں کو بھی یہی درجہ دیاجاناچاہئے کیونکہ دونوں خطے انتظامی طور پر جموں سے اتنے ہی دور ہیں جتنا کہ لداخ خطہ کشمیر سے دور ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پیر پنچال اور چناب کے لوگوں کے مسائل بھی لداخ کی طرز پر مختلف ہیں اور بنیادی ڈھانچے و سہولیات کے فقدان کے باعث ان دونوں خطوں کے لوگ اہالیان لداخ سے بھی زیادہ مشکلات کاسامناکررہے ہیں ۔ لداخ کو پہاڑی ترقیاتی کونسل کادرجہ بھی دیاگیاہے جس کی وجہ سے عوامی مسائل کو مقامی سطح پر نمٹایاجاتا ہے۔لیکن یہ خطے اس سے بھی محروم رہے ہیں اور وقت بروقت قائم ہونے والی حکومتوں کے انتخابی منشور ںمیں تو یہ نکتہ شامل رہاہےلیکن حکومت تشکیل پاجانے کے بعد سبھی جماعتوںنے اس جائز مطالبے کو نظرانداز کردیا ۔اگر لداخ کو الگ صوبہ کادرجہ دیاجاتاہے تواس فیصلے سے یقینا دہائیوں سے ہر اعتبار سے نظرانداز رہے خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں عوامی جذبات بھڑک سکتے ہیں جس کا نتیجہ عوامی ایجی ٹیشن کی صورت میں سامنے آسکتاہے اور ایسے حالات میں،جب کہ وادی کشمیرمیں امن کی صورتحال پہلے ہیمتزلزل ہے ،ریاست اس صورتحال کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ہاں! اگر لداخ کے ساتھ ساتھ پیر پنچال اور چناب خطوں کے ساتھ بھی انصاف ہوتاہے تو اس پر کسی کوکیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔ اس طرح کسی ایسی ایجی ٹیشن یا احتجاج کی نوبت بھی نہیں آئے گی، جو من حیث المجموع ریاست کے اندر امن و قانون کی ایک نئی صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ لداخ کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل خطہ پیرپنچال اور خطہ چناب کی پسماندگی اور ان خطوں کے عوام کے جذبات و احساسات کو خاطر میںلایاجائے اور اختیارات کی بنیادی سطح پر منتقلی منصفانہ بنیادوں پر ہو نہ کہ سیاسی اغراض و مقاصد کیلئے ۔ریاستی گورنر کو ایسا کوئی بھی فیصلہ نہیں لیناچاہئے جو غیرمنصفانہ ثابت ہواور جس سے امن و امان و بھائی چارے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو ۔امید کی جانی چاہئے کہ ایسے فیصلے سیاسی بنیادوں پر نہیںہوں گے اور ہر ایک خطے کے ساتھ انصاف ہوگا ۔