مذہب قوموں کی نشاندہی باشعورحکمرانوں سے ہوتی ہے۔ اگر حکمران باشعور ہوں تو خیال کیا جاتاہے کہ اس قوم کے افراد بھی دانا ہوں گے اور اگر حکمران بی بے وقوف ہوں تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ یہ قوم ابھی تہذیب کے زینے کو چھو نہیں سکی ہے۔ ادبی ادارے ایسے آدم ساز کارخانے ہوتے ہیں جہاں انسان بنتے ہیں، حکمت پنپتی ہے اور شعور بیدار ہوتے ہیں۔ اسی لئے مہذب قومیں ادبی اداروں کو وجود میں لاتی ہیں تاکہ ادب کی نشو ونما ہوسکے۔ واقعی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب جہاں اصحابِ اقتدار ہی وقوف سے خالی ہوں، وہاں مہذب قوموں کے دیکھا دیکھی میں ادبی ادارے تو بنائے جاتے ہیں مگر ان کو بنانے میں ان کے وہ اغراض و مقاصد نہیں ہوتے جو حقیقی مہذب قوموں کے ہوتے ہیں بلکہ اقتدار جب کم فہم لوگوں کے ہاتھ آتا ہے تو ادبی ادارے حماقتوں کے کھیل بن جاتے ہیں اور یہ اخلاقیات اور حکمتیں تیار یا پیدا کرنے کے کارخانے نہیں رہتے بلکہ ایسی دُوکانیں بن جاتے ہیں جن کے باہر 'ادبی مشق کے بورڈ تو لگے ہوتے ہیں مگر اندر سے ' عفونت پھوٹتی ہے۔ہر قوم کی ایک تہذیبی شناخت ہوتی ہے اور ہر قوم کی انفرادی خصوصیتیں بھی ہوتی ہیں جو ایک قوم کو دوسری قوموں سے الگ اور ممتاز کردیتی ہیں ۔ ہر قوم اپنی انفرادی خصوصیتوں سے ہی اپنی شناخت بناتی ہے۔ کلچر بھی انہی انفرادی خصوصیات کی اصطلاح میں داخل ہے۔ کلچر قوم کے مجموعی مزاج کا نام ہے۔ اسی لئے جب ہم ’’کشمیریت ‘]کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو اس سے کشمیری لوگوں کے مزاج میں رسے بسے ہمدردی، محبت اور انسانیت کے جذبات وکیفیات مراد ہوتے ہیں اور اسی معنی میں کشمیریوں کی مہمان نوازی، اسلامی خیرخواہی، سیاحوں سے حسن سلوک وغیرہ کے اخلاق بھی آتے ہیں۔
ادب (Literature):
عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کی تشریح اور اس کا مفہوم وسیع ہے۔ اس کی تعریف میں شائستگی، شرافت، سلیقہ، حسن سلوک، خوش بیانی، تمیز وتہذیب، اچھے طور طریقے، اخلاق و عادات، با مقصد تخلیقات، معاشرے کی طرز زندگی، فلسفہ وحکمت، علم وادب اور انداز بیان کے معنی بھی داخل ہیں۔ یہ سب چیزیں ادب کا جزو ہیں۔ ادب کی لوازمات میں یہ بھی شامل ہے کہ اس میں تخیل اور جذبات ہوں، اگر یہ نہ ہوں تو وہ محض لفظوں کی معرکہ آرائی ہوگی یا تحریری کارنامہ ہوسکتا ہے مگر اسے تخلیقی ادب کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ لفظوں کے مناسب اور ماہرانہ داؤ پیچ سے ادب کو اعلی معیار تک لے جانا کمال کی یا استعداد کی بات ضرور ہوتی ہے مگر اس میں تخیل اور جذبات نہ ہوں تو وہ تحریر ادب کے زمرے میں نہیں آسکتی۔ تجسس کا عنصر انسان کی فطرت میں شامل ہے، اسی طرح تخلیق کی خواہش بھی قدرتی ہے۔ تجسس کی فطری خواہش انسان کو نئی نئی تحقیقوں اور تجربوں پر آمادہ رکھتی ہے۔ پھر یہی تجربے جب تخلیقوں کا روپ دھار لیتے ہیں تو یہ فن لطیف انسان کو بشاشت اور مسرت عطا کرتا ہے۔ آرٹ کو فنون لطیفہ بھی کہتے ہیں اور ادب بھی آرٹ کی ہی شاخ ہے۔ تاہم تخلیقی فن خداداد صلاحیت ہے، اسے اختیار اور کسب سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ اس فن کا تعلق فہم وفراست سے ہے اور فہم وفراست اجناس میں نہیں آتے۔ یہ ضرور ہے کہ فن اگر خداداد ہے مگر ہنر سیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی میں تخلیقی استعداد یعنی آرٹ تو ہے مگر ہنر یعنی کرافٹ نہیں ہے تو اس کے کسی شاہ کار کا خالق بننا بظاہر ممکن نہیں ہے۔ جس تہذیب یا قوم کا ادب جتنا معیاری ہو، اتنا ہی وہ ادب اس قوم یا تہذیب کو اپنی نفاستوں اور نزاکتوں کے ساتھ نکھارتا اور سنوارتا ہے۔
یہ بات میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ تاریخ ہمیشہ سچ نہیں ہوتی اور یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ اسی لئے تواریخی واقعات کی اساس پر عقائد کی تعمیر کھڑی نہیں کی جاسکتی۔ تاریخ کسی واقعہ کا نام نہیں ہے بلکہ تاریخ کسی واقعہ کی تفسیر یا ترجمانی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ تفسیر یا ترجمانی کرنے والا ایک فرد ہوتا ہے اور ہر فرد کسی نہ کسی نظرئے یا عقیدے سے جڑا رہتا ہے ، اس لئے کسی واقعہ کی ترجمانی اسی نظرئے یا عقیدے کے تناظر میں ہوتی ہے جس سے وہ جڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہی کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ بسااوقات اصل میں ایک فرد کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے جو اس نے اپنے زاوئے سے بیان کیا ہوا ہوتا ہے۔ یہ ایک خاص زمانے سے متعلق تخلیقی ادب ہی ہوتا ہے جو اُس خاص زمانے کی کسی قوم کی معاشرتی اقدار، طرز زندگی اور طرز فکر کی معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہےکہ جب میں کشمیری ادب اور کشمیر کے ادبی اداروں کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری کیا مراد ہے اور کشمیری ادب کے حوالے سے میرا اشارہ کس ادب کی طرف ہے؟ اب اسے کیا کہئے ؎
جو اصول گلستان سے واقف نہ تھے
ان کے ہاتھوں چمن کا نظام آگیا
جن اداروں کی حالت اسی شعر کے مصداق ہو، ایسے اداروں کی صورت حال، ان کی کارکردگی اور ان کے مستقبل کا اندازہ لگانے کے لئے کسی بڑے سوجھ بوجھ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان کی بربادیوں اور تباہیوں کے مستقبل کا ایک عام دماغ بھی احاطہ کر پاتا ہے۔ ہمیں اس بات کی شکایت نہیں کہ یہاں ادب کی ترقی وترویج اور فروغ وتوسیع کی خاطر جو ادارے معرض وجود میں لائے گئے ،وہ کم وبیش اصل میں شکم پروری کے حیلے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے تو اس بات کا کہ کیا اس شکم پرستی اور کچھ لوگوں کی روزی روٹی کے بندوبست کے عنوان کے لئے حکومتوں کو ادبی عبارتوں کے علاوہ اور کوئی نام نہیں ملا؟ کچھ نام نہاد 'پڑھے لکھوں یا خودساختہ دانشوروں کے 'دوا دارو کا انتظام سوشل ویلفئیر محکمہ میں بھی کیا جاسکتا تھا تو پھر بھلا انہیں ادبی لیبل لگاکر ہی پالنا کس تہذیبی میزان کے ’’ردیف قافیہ‘‘ کا وزن برابر کرنے کے لئے ہے؟ کچھ نادانوں کے بازؤوں پر دانشوری کے مصنوعی بلے لگاکر اُنہیں ادب کے شانوں پر چڑھانے کی تک ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی اس کی حکمت کو ہم سمجھ سکے ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اگر اس معاملے میں سیاستِ دہر نے رول نبھایا ہو تو سر تسلیم خم ہے!!۔ چلئے اس لحاظ سے ہم اپنے آپ کو یہی تسلی دے سکتے ہیں کہ جہاں کشمیریوں پر سو لگائے گئے، وہاں سوا سو سہی! کس ادیب کی مجال ہے کہ ا سنازک اندام موضوع پر بات کرے!!!
ہماری ریاست میں صرف ایک قوم آباد نہیں ہے۔ یہ ریاست جموں، کشمیر اور لداخ کے تین خطوں پر مشتمل ہے۔ اس ریاست میں کئی علاقائیں زبانیں ہیں اور کئی تہذیبیں بھی ہیں۔ اس لئے ہماری ریاست کا کوئی ایک ریاستی کلچر یا ایک قومی تہذیب نہیں ہے بلکہ مختلف تہذیبوں کے درمیان رسہ کشی اور محاذ آرائی نے یہاں کے علوم فنون پر منفی اثرات ڈالے اور ان کی ترقی اور فروغ میں جمود رہا۔ چونکہ ریاست میں اکثریت کشمیریوں اور کشمیری زبان بولنے والوں کی ہے، اس لئے اس وقت میرا موضوع اسی کشمیری کلچر کے تعلق سے ہے۔ کشمیری زبان میں یہاں دوسرے کلچروں کے مقابلے میں ادبی سرمایہ بھی بہت ہے اور کشمیری ایک مکمل زبان بھی ہے، کوئی بولی نہیں۔ اس زبان کے کئی تخلیق کار دنیا کے نامور ادیبوں کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ یہ زبان روز بہ روز زوال کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہر کلچر کی بنیاد اس قوم کی مادری زبان ہوتی ہے، اب جب کہ یہ زبان ہی رُوبہ زوال ہے، تو ظاہر ہے ہمارا کلچر ہی دم توڑ رہا ہے، اور غالباً یہ بات محتاج وضاحت نہیں کہ جب کسی قوم کا کلچر دم توڑ دیتا ہے تو پھر اس قوم کی شناخت بھی باقی نہیں رہتی۔ہمارے یہاں یہ بڑا المیہ ہے کہ ہماری صحافت کا مزاج بھی ابھی ایسا پختہ نظر نہیں آتا جہاں صحافی کے مضبوط اور دل گردے والے ہونے کا احساس ملے۔ ان میں اکثریت کا مزاج وہی پل میں تولہ اور پل میں ماشہ جیسا ہی ہے۔
یہاں اپنے اصل موضوع کو ذرا زیادہ باوزن بنانے کے لئے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ صحافت محض ایک تجارتی پیشہ نہیں بلکہ اس پر کچھ قومی ذمہ داریاں بھی عائد رہتی ہیں۔ صحافتی اداروں پر یہ لازم بنتا ہے کہ اگر کسی سرکاری شعبہ کا کوئی فرد اپنی ملازمت کو محض اپنا پیٹ پالنے کا وسیلہ جانتا ہے اور جس محکمہ میں وہ کام کرتا ہے، اُسے وہ محض اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے، یا کسی سرکاری شعبے کا سربراہ ان اغراض ومقاصد سے غافل ہے جن کی بنیاد پر وہ شعبہ وجود میں لایا گیا ہو اور اس شعبہ میں تعینات لوگ نافرض شناس ہوں، تو صحافتی حلقوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ حرکت میں آئیں اور ایسے شعبوں کی اصل کہانیوںکو بے پردہ کریں اور احساس ذمہ دار ی سے لیس ہوکر اصحاب ِاقتدار کو ان کی جانب متوجہ کرنے میں اپنا رول نبھائیں۔ میں نے ذاتی طور یہاں کے معروف صحافتی اداروں میں ایک طویل وقت گزارا ہے جس کے سبب تقریباً تمام سینئر صحافتی برادری سے جان پہچان ہے اور ان کی طبیعتوں سے بھی واقف ہوں۔ ان صحافتی اداروں کے سربراہوں میں کچھ تو بے شک دلیر اور پیشہ ور ہیں مگر ان اداروں میں کام کرنے والے کئی معاونین پر حالات وواقعات اصل حقائق کے ساتھ پیش کرنے میں گھبراہٹ طاری رہتی نظر آئی ہے۔بہرحال اس وقت میرے موضوع کے اعتبار سے جو ادبی ادارے میرے ذہن میں آرہے ہیں ان میں کلچرل اکیڈمی اور کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری کے علاوہ ریڈیو کشمیر بھی ہے۔
ریڈیو کشمیر کا ادارہ جن اغراض ومقاصد پر کھڑا کیا گیا ہے وہ محض تفریحی نوعیت سے ہی متعلق نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس سٹیشن میں ادبی پروگراموں کے نام پر جو تماشے جاری ہیں ،اُن کی جگہ بھی ’’چھکری تہ رو‘‘ اور ’’فلمی گیتوں پر مبنی آپ کی فرمائش‘‘ نشر کرنا مناسب ہے۔ یہاں مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ نصف شب کے وقت ایک بچہ جاگ گیا اور رونے لگا۔ ماں اسے چپ کرانے کی غرض سے اپنی بے ڈول آواز میں لوری گانے لگی۔ یہ لوری سن کر پڑوسی نے کھڑکی سے سر نکالا اور کہا:بہن جی! اس لوری سے تو بچے کا رونا ہی بہتر ہے!‘‘ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ریڈیو کشمیر کے ادبی پروگراموں کے چلانے والوں میں اگر ادبی سوجھ بوجھ نہیں ہے بلکہ وہ شوروغل اور غل غپاڑے کو ہی ادب سمجھتے ہیں اور ان پروگراموں کی وساطت سے صحیح ادب پیش کرنے کی استعداد نہیں رکھتے بلکہ محض روزی روٹی حلال کرنے کی کوششوں میں پریشان ہوکر چند مخصوص لوگوں کو اسٹیڈیو لاکر یا چند مسخروں کو اُدبا جتلاکر ادب کی شہ رگ ذبح کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو میرا ان سے مخلصانہ مشورہ ہے کہ داستانِ ’’گل و بلبل‘‘ کی لحاف اوڑھ کر آرام کر ادب کو اپنے ہی رحم وکرم پر چھوڑ دیں۔ کیا کہیں کہ وہ بھی وقت تھا جب کشمیری شعرو ادب کے فروغ میں ریڈیو کشمیر نے وہ نمایاں خدمات انجام دیں کہ اس ادارے کے وسیلے سے اختر محی الدین، علی محمد لون، بنسی نردوش، پشکر بھان، سومناتھ سادھو، پران کشور جیسے ادبی پہلوان اُبھر کر ادبی اُفق پر چھا گئے اور کشمیری ادب کو اپنے پروگراموں میں نئے تخلیقی تجربوں سے نئی جہتیں دیں۔ اب تو یہ ادارہ تماشا بن گیا ہے۔ہمارے ایک دوست نے فیس بک پر پوسٹ لگائی تھی کہ اس کی سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ شلوار کے ناڑے کے سرے پر لگی پھمنیوں میں شیشے کا کیا کام؟ میں نے کہا یہ سوال تو حاتم طائی کے سات سوالوں سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے مگر ممکن ہے کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ کشمیری میں براجمان دوستوں سے جواب ملے!! کیونکہ سنا ہے کہ وہ برسوں سے پہیلیوں کا کھیل کھیل رہے ہیں اور ادب کے ایندھن پر تنخواہ کی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ حضور!کسی ادارے میں ادبی معاملات کی نازک ذمہ داریاں سنبھالنا خالہ جی کا کھیل نہیں ہوتا بلکہ مشقت بھرا چلینج ہوتا ہے اور ایسی ذمہ داریوں کے لئے کسی کے انتخاب سے پہلے یہ دیکھنا لازمی ہوتا ہے کہ آیا یہ آدمی ادبی حیثیتوں اور اُس کی نزاکتوں اور نفاستوں اور قاعدوں سے واقف بھی ہے کہ نہیں۔چر چراورٹر ٹر ادب نہیں ہے بلکہ ادب شعوری بیداری کا جلّی عنوان ہے۔ اس لئے کسی کندہ ٔ ناتراش سے شعوری بیداری کی اُمید کرنا سوئی کے ناکے سے اونٹ گزارنے کے مترادف ہے۔ کشمیر میں کچھ بھی کیا جاسکتاہےا ور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں کسی چیز کے لئے قاعدوں اور ضرورتوں کو کچھ زیادہ اہمیت کا حامل خیال نہیں کیا جاتا۔ کشمیر یونیورسٹی میں ادبی معاملات ان لوگوں کے سپرد کئے گئے ہیں، جو خود ہی ادب واخلاق کی خوبیوں سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ادبی پروگراموں اور پیشے یا معاملات سے ڈیل کرنے والے کا مائنڈ سیٹ تعصب، رذائل اور خود غرضی و انا نیت سے پاک ہونا ضروری ہے اور اس میں وسعت اور کومنٹمنٹ کا ہونا لازمی ہے۔ ادبی ذمہ داریاں ان ہی کندھوں پر ڈالنا بہتر ہے جو ادبی اقدار اور ڈیلیوری سے بھی بہرہ ور ہوں۔ اگر ایسے لوگ آپ کو نہیں ملتے، تو جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ بہتر ہے’’داستانِ گل وبلبل‘‘ پڑھ کے لحاف اوڑھ لیں اور سوجائیں اور ادبی معاملات کو اپنے حال احوال پر چھوڑدیں۔
اب رہی کلچرل اکیڈمی کی بات! وہاں ایسے ایسے حضرات بھی دریافت ہورہے ہیں کہ لگتا ہے ایسی عجیب الخلقت لوگوں کی موجودگی سے یہ ادارہ کسی میوزیم میں تبدیل ہورہا ہے۔ اس ادارے کی نادانیوں، نے نیازیوں، وقت کے تقاضوں سے بے خبریوں اور ادبی قواعدوں اور اس کے معیارات یا ان کے فروغ کے طریقہ کار سے ناشناسیوں کے بوجھ اور ’’موٹاپے‘‘ سے ادب کا دم یوں گھٹتا محسوس ہورہا ہے کہ اس پرمجھےزبان زدعام لطیفہ یاد آیا کہ ایک دبلے پتلے شخص کی بیوی بہت موٹی تھی۔ ایک دن رات کے دوران اس عورت نے نیند میں بے خبر ہوکر اپنی ایک ٹانگ خاوند کے سینے پر رکھ دی تھی۔ خاوند نے اسے جگاتے ہوئے کہا،:خانم! کیا ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنا بہتر ہے یا کہ ایک ہی جھٹکے میں موت آسان ہوسکتی ہے؟ بیوی بولی : ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے تو ایک ہی جھٹکے میں موت بہتر ہے۔ جس پر شوہر بولا: تو خانم اپنی دوسری ٹانگ بھی مجھ پر رکھ دو۔اس لئے اکیڈمی کے ذمہ داروں کو مشورہ دے سکتا ہوں کہ ایک ٹانگ سے بات نہیں بنتی، آپ اپنی دونوں ٹانگیں شیشہ گہۂ ادب پر ڈال دیںتاکہ ا س کادَم ایک ہی بار نکل کر رہ جائے۔جب ادبی اداروں کے انچارج حضرات ہی گلشن ِادب سے عدم دلچسپی دکھارہے ہوں تو ادبی پروگرام دلچسپ بنیں گے کیسے؟ مجھے معاف فرمائیں کہ کھری کھری سنا رہاہوں کہ جہاں حماقتوں کے انبار پر عنوان افسانے کا لگایا جاتا ہےاورذہنی انتشار اور جذباتی افراتفری کو شاعری کہا جاتا ہے،وہاں ہمارے سرمایۂ ادب کا ہی ستیاناس کیوں نہ ہو۔ نہ کوئی سنجیدہ مباحثہ ہے، نہ افسانے ہی زیر بحث ہیں، نہ شاعری میں ہی نیا پن ظاہر ہے، نہ تحقیقی مقالات ہیں، نہ کسی صحیح نقاد سے نثری ادب پر بات ہورہی ہے، نہ کشمیری رائیٹروں کی کسی کانفرنس کا انعقاد ہورہا ہے، بس ’’کہیں کاگارا کہیں کا روڈا، بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ والے محاورے کا ’’ادب‘‘ تیار ہورہا ہے۔