خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں ماہر ڈاکٹروں کی تعیناتی ایک پریشان کن مسئلہ بناہواہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف طبی مراکز میںمشینری ناکارہ بنی ہوئی ہے بلکہ مریضوں اور زخمیوں کو مقامی سطح پر علاج کی سہولت بھی نہیں مل پارہی اور انہیں مجبوراًطویل مسافتیں طے کرکےجموں کے ہسپتالوں کا رخ کرناپڑتا ہے۔ماہر ڈاکٹروں کی قلت کا مسئلہ ان خطوں کے لوگوں کووقت بروقت ستاتارہتاہے اور گزشتہ دنوں پونچھ کی لورن سڑک پر پیش آئے دلدوز سڑک حادثے کے موقع پر بھی اس صورتحال کی وجہ سے زخمیوں کو پریشان ہوناپڑا اور پونچھ کے ضلع ہسپتال میں ریڈیالوجسٹ نہ ہونے کے باعث ان کی طبی جانچ نہیں ہوپائی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایکسرے ، سی ٹی سکین ،الٹراسائونڈاور دیگر طبی تشخیص کیلئے ریڈیالوجسٹ کی ضرورت ہوتی ہے اور پونچھ کے ہسپتال میں یہ تمام تر مشینری نصب تو کی گئی ہے لیکن اس کو چلانے کیلئے ایک ماہر ڈاکٹر تعینات نہیں کیاگیا ،نتیجہ کے طور پر مشینری بے کار پڑی ہے اور لوگ علاج کیلئے دربدر ہیں ۔خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے دیگر علاقوں کا بھی یہی حال ہے اور مقامی سیاسی و عوامی حلقوں کی طرف سے بارہا ڈاکٹروں کی تعیناتی اور مشینری کی تنصیب کے مطالبے کے باوجود ابھی تک اس سلسلے میں حکام کی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیاگیا۔حکام کی طرف سے آئے روز یہ دعوے توکئے جاتے ہیں کہ دور دراز اور پہاڑی اضلا ع میں طبی خدمات فراہم کی جارہی ہیں لیکن زمینی سطح کی صورتحال انتہائی ابتر ہے اور حقائق تشویشناک ۔یہ بڑی ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں بھی لوگوں کو طبی سہولیات فراہم نہیں کی جارہی اور انہیں معمولی سے علاج کیلئے پورے دن کا سفر کرناپڑتاہے ۔ روزانہ پونچھ ، راجوری ، کشتواڑ، ڈوڈہ اور رام بن و ریاسی سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ صرف اس لئے جموں آتے جاتے ہیں کیونکہ ان کا علاج یا طبی تشخیص مقامی سطح پر نہیںہوپاتی ۔یہ پورے دن کا سفر نہ صرف ان کیلئے تھکادینے والاہے بلکہ ان کو ہزاروں روپے خرچ بھی کرنے پڑتے ہیں اور اس پر ستم یہ کہ جموں میں کلینک کھول کر بیٹھے ڈاکٹروں کی طرف سے انہیں تاریخوں پہ تاریخیں دی جاتی ہیں اور ایک مرض کے علاج کیلئے انہیںکئی کئی چکر لگانے پڑجاتے ہیں ۔مالی مشکلات ودیگر مسائل کے باوجود ایک عام مریض تو اپنی صحت کی سلامتی کیلئے کسی نہ کسی طرح ایسا کرہی لیتاہے لیکن جب کوئی حادثہ پیش آئے تواس کے زخمیوں کو بھی جموں منتقل کیاجاتاہے جس کے دوران راستے میں ان کی جان جانے کا خطرہ لاحق رہتاہے اور یہ دیکھابھی جاچکاہے کہ آج تک کئی زخمیوں یا شدید نوعیت کے مریضوں نے راستے میں ہی دم توڑ دیا اور ان کی نعشیں واپس لیجانی پڑیں ۔یہ صورتحال حکام کیلئے عام سی ہوگی لیکن ان خطوں کے عوام کیلئے انتہائی پریشان کن اور دردو کرب والی ہے کہ جب مقامی سطح پر علاج نہ ہوپانے پر کسی مریض یا زخمی کوجموں منتقل کیاجاتاہے اور وہ راستے میں د م توڑ بیٹھتاہے ۔ایسے لمحوں میں جان دینے والے کے لواحقین جہاں افسوس کا اظہار کرتے ہیں وہیں انہیں یہ دکھ بھی ستاتاہے کہ اگر مقامی سطح پر ہی علاج کی تمام تر سہولیات دستیاب ہوتی تو شائد ان سے بچھڑ جانے والے کی جان بچ جاتی ۔یاد رہے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں 50فیصد سے زائد طبی مراکز میںعملے کی قلت کاسامناہے ۔تاہم امید کی جانی چاہئے کہ گورنر انتظامیہ اس اہم مسئلے پر فوری توجہ مرکوز کرے گی اور پبلک سروس کمیشن کی طرف سے حال ہی میں ہوئی سات سو سے زائد ڈاکٹروں کی سلیکشن کے بعد طبی عملے اور خاص کر ماہر ڈاکٹروں کو ترجیحی بنیادوں پر ان خطوں میں تعینات کیاجائے گا۔