موت یک ایسی اٹل حقیقت ہے جس پر مذہبی اور غیرمذہبی سبھی لوگوںکا بلالحاظ قوم و ملت عقیدو نظریہ کامل اتفاق ہے۔ مختلف مذاہب اور ثقافتوں میں موت کے بعد مختلف رسوم مستعمل ہیں، لیکن اللہ نے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ کی وساطت سے نہ صرف ہمیں زندگی کی حقیقت سے بلکہ موت کی اصلیت سے بھی آشنا کردیا اور صاف صاف فرمایا کہ موت کے بعد والی زندگی کیا ہے،اس کی بھلائی کے لئے کیا کیا تیاریاں کی جانی چاہیں۔ہر موت زندوں کے لئے ایک عبرت ودرس ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں رسومات وبدعات کا یہ چلن ہے کہ کسی فرد کا فوت ہونا خیر سے اُس کی زندگی کا خاتمہ ہومگر یہ سوگوار خاندان اور اس کے رشتہ داروں کے لئے مرگِ ناگہانی بن جاتا ہے۔مثلاً تجہیز و تکفین کے بعد غم زدہ خانوادے میں پہلاکام وازہ وان پکانے سے شروع ہوتا ہے، پھر چلتے چلتے سوگ کے پہلے تین روز تک جو خاندان مغموم ودل ملول ہوتا ہے، یکایک وہیں لوگ چوتھے، پندرہواڑے اور چہلم کے رسومات مناتے ہوئے لوگوں کی خاطر تواضع کرنے میں اتنے منہمک دکھائی دیتے ہیں کہ مرا ہو اآدم زاد کسی کو یاد ہی نہیں رہتا۔
ایسی بدعات وخرافات کے خلاف کمربستہ لوگوں کی شکایت ہے کہ خواتین سوگواروں کے یہاں تعزیت پرسی کو جاتے ہوئے لازماً اپنے ساتھ غذائی اجناس اور مشروبات لے جاتی ہیں۔ یہ بے شک معیوب عمل اور بھدی عادت ہے ۔ اس کی واحد وجہ عقائد اور اعمال سے ناواقفیت ہی نہیں بلکہ یہ ایک نفسیاتی مسلٔہ بھی ہے۔ خواتین کو اپنے طور لگتا ہے کہ وہ فوت ہوئے شخص کے کنبے کے لئے انڈے، دودھ، میوہ جات اور جوس وغیرہ کی ڈالیاں ساتھ لے کر صاحب ِتعزیت کی دل جوئی کرتی ہیں لیکن یہ ریاکاری ہوتی ہے جب کہ صاحبِ تعزیت کے لئے پھر مسلٔہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گھر میں موجود بھاری مقدار میں انڈوں، جوس اور میوہ جات کو ٹھکانے لگائے کیسے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ تعزیت کی محفلوں میں بسااوقات رقیق القلب خواتین اپنے گھر ہوئیں سابقہ اموات پر بھی سینہ کوبیاں اور بین کرکے ماحول کو مزید کربناک بنادیتی ہیں۔ آپ ہی بتائیے اس سے سوگواروں کو کیا خاک دلاسہ ملے ؟
ایک چھوٹے سے استثنیٰ کو چھوڑ کر موت کے چوتھے دن تو سوگوارگھرانے میں یکایک جشن کا سماں پیدا ہوتا ہے۔ ستم یہ کہ ا س روز صاحب تعزیت کے یہاں جمع لوگوں( زیادہ تر مستورات ) کو دوپہر کا کھانا نہیں دیا جاتا بلکہ انہیں دن بھرنمکین چائے پلائی جاتی ہے اورسرشام وازہ وان پیش کیا جاتاہے ۔ نیز چہارم کے موقع پر بسااوقات رسمی طور قریبی رشتہ داروں ، سمدھیوں اور ہمسایوں کو تناول ماحضر کے لئے باضابطہ دعوت پر بلایا جا ہے اور کسی کسی کو بہ جبر کھانا کھلانے پر آمادہ کیا جاتاہے ۔ اس دوران فوت شدہ انسان کی ایک بھی بار یادی نہیں آتی ۔ یوں
بدعت تو بدعت، یہ سارا کچھ ایک قبیح فعل بن کر رہ جاتا ہے۔ ودسرے لفظوں میں چہارم، پندرہ واڑہ(پچھ وار)، چہلم وغیرہ گویا صاحب تعزیت کے یہاں ڈیڑھ ماہ تک ایک کھیل تماشہ بن جاتا ہے۔ حالانکہ قران، حدیث، فقہ، وغیرہ میں ایسی رسومات کی کوئی روایت ملتی ہے نہ ہدایت۔ یہ موت اور اس کے متعلقات کے حوالے سے لوگوں کی اصول واوامر کی نافرمانیاں اور رسم پروریاں ہیں جسے علمائے کرام صدقہ جاریہ مانتے ہیں نہیں۔ ۔
حالیہ دنوں راقم الحروف کو ایک عمررسیدہ خاتون کی وفات پر اس سارے کھیل تماشے کا ذاتی مشاہدہ ہوا۔ ایک خاتون کی ماں چل بسی تھی اور یہی خاتون وازہ وان سے نہ صرف مہمانوں کی خاطر تواضع کر نے میں منہمک تھی بلکہ ترامی( تانبے کی گول طشتری) پر سے گوشت اٹھاکر اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کھانے والوں میں پالی تھین لفافے اسی جوش و جذبے سے تقسیم کررہی تھی جو اکثر شادی بیاہ کے مواقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کہیں کہیں وہ لوگ بھی جو حج اور عمرہ کی سعادت سے بہرہ ورہوتے ہیں ، اور جن سے یہ توقع ہوتی ہے کہ ان رسومات وبدعات کی حوصلہ شکنی کریں گے ، افسوس وہ بھی دیکھا دیکھی میں فوتیدگی کے تعلق سے بد عات و خرافات کو بڑھ چڑھ کر فروغ دیتے ہیں۔ غرض لوگ اپنے کسی عزیر کے داغ ِ مفارقت یا اقرباء کی موت پر عبرت حاصل کر نے کی بجائے، اسے اپنے جاہ و حشم کی نمائش کا بہانہ بناتے ہیں ۔ یہ لوگ موت کو جشن میںبدل کر بگڑے معاشرے میںاپنی جھوٹی دھاک بٹھانے کی چاہ میں دیوانے ہوتے ہیں۔ شکرہے کہ بہت کم ہی سہی لوگ ان بدعات ورواجات کی نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ مذہبی فریضے اور سماجی اصلاح کی نیت سے موت اور ماتم کو جشن منانے سے گریزاں رہ کر سماج کے لئے ایک روشن مثا ل چھوڑتے ہیں ۔