گزشتہ دنوںریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے کورپشن کو ریاست کاسب سے بڑا سنگین مسئلہ بتلا کر فی الواقع حق بیانی کی۔ انہوں نے اس نا سور کو ختم کر نے کا اپنا عزم بھی دہرایا ۔ اب زمانے کی نگاہیں اس عزم کو عملی جامہ پہنائے جانے کی منتظر رہیں گی ۔ اس میں شک نہیں کہ کورپشن کی جڑیں ریاست میں بہت گہری ہیں لیکن یہ آسمان سے نہیں اُتریں بلکہ اسی سرزمین میں پہلے سیاست نے انہیں اُ گایا ، پھر افسر شاہی نے ان کی آبیاری کی ۔ سچ ہے کہ کورپشن کے سمندر میں جن بڑے بڑے مگرمچھوں نے سرکاری خزانوں کونگل ڈالاوہ بقول گورنر ملک شہنشاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اورغریب ہیں کہ غریب ترہورہے ہیں ۔ کور پشن کے جا ن لیوا ناسورکے خلاف وزیراعظم مودی نے بھی ایک حتمی جنگ لڑنے کی یقین دہانیاں دیں مگر زمانہ بڑی حیرت وحسرت سے نیرو مودی ، للت مودی ، وجے مالیہ اور اب رافیل متنازعہ سودے جیسی کہانیاں سنتارہا ۔ نوٹ بندی کامقصد بھی کورپشن کے خلاف جنگ بتایا گیامگر کاغذی نوٹ بدلنے کے باوجود بدعنوانیاں پھلتی پھولتی رہیں ۔ اس لئے سوال یہ بنتا ہے آیا کورپشن اور کالے دھن کے خاتمے کا خواب سیاسی ، قانونی اور انتظامی سطح کی تیز طرار کارروائیوں سے حقیقت کا روپ دھار سکے گا ؟ کہیں اس خواب کو شر مندہ ٔ تعبیر کر نے کے لئے ضمیر اور خمیر کے محاذپر کام کرنے کی اشد ضرورت تو نہیں ؟ مودی جی نے بھی ۲۰۱۴ء میںا پنی انتخابی مہم کے دوران قوم کو کالے دھن اور کورپشن کو جڑ سے اُکھاڑ پھنکنے کے لگاتار وعدے دئے مگر اسے جنم دینے والے جرثومے جوں کے توں زندہ رہے ۔اس لئے آج مودی سرکار کے ساڑھے چار سال بعد بھی ماضی کی طرح سرکاری خزانوں کی لوٹ کھسوٹ شدو مد سے جاری ہے ۔ کچھ بر س قبل اناہزارے اور کیجروال نے مل کر بھرشٹاچار مخالف تحریک اتنے زور وشور سے چلائی کہ وقت کی کانگریس سرکارکا ناطقہ بند ہوا ۔ اس آندولن کو مقبولیت کے نصف النہار پر پہنچا کر کیجروال نے اپنی عام آدمی پارٹی بنا ڈالی اور دوبار دلی میں الیکشن جیت لیا ۔ انہوں نے کانگریس کی شیلا دکشٹ سرکار کو بھی چلتا کیا اور بھاجپا کا پتہ بھی کاٹ ڈالا لیکن کیا آج کی تار یخ میں وہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ اب ’’آپ‘‘ کے اقتدار میں دلی صد فی صدکورپشن فری ہے ؟ بدعنوانیوں کے سلگتے موضوع پر وقت کی کانگریس حکومت( یو پی اے )اور وقت کی اپوزیشن بھاجپا نے بھی لوک پال بل اتفاق ِ رائے سے منظور کیا مگر کیااس کورپشن مخالف تاریخی مسودۂ قانون سے کورپشن کا کریاکرم ہو ا؟ لوک پال بل کو قانون بنوانے میں انا ہزارے نے پارلیمنٹ کے باہر ایک کلیدی رول ادا کیا تھا لیکن کیا متعدد اَنشن (بھوک ہڑتال) کے بعد دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اُن کے من کی مراد پوری ہوئی؟ قطعاً نہیں ۔عام آدمی پارٹی کے بانی لیڈر اور دلی کے وزیراعلیٰ اروند کجروال نے بجاطور سر کاری لوک پال پر چوٹ کر تے ہو ئے اسے’’جوک پال‘‘ کی پھبتی دی تھی ۔ تاریخ کا سفر بتا رہاہے کہ اُن کی پھبتی مبنی برحق تھی ۔ باوجودیکہ اس قانون کی اصل غرض وغایت اعلیٰ ٰترین سیاسی سطح پر بدعنوانیوں کی قطعی روک تھا م ہے ، مگر کیاعملًا ا س حوالے سے کہیں کوئی قابل ذکر پیش رفت کہیں دیکھی گئی ؟ نہیں ۔ کڑوا سچ یہ ہے انسداد ِ بدعنوانی کے قانون کی آنکھوں میں دُھول جھونکتے ہوئے ہر قبیل وقماش کے رنگے سیار اور پرانے پاپی ہاتھ کی صفائیاں چھوڑنے پر تیار نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ سیاست اور بیوروکریسی جیسے خدمت خلق اللہ کے شعبوں میں ایسے ایسے منجھے ہوئے جعل ساز لامحالہ گھس جاتے ہیں جو کورپشن کے عادی مجرم ہوتے ہیں اور جنہیں قانون کا ڈنڈا کسی صورت زیر نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ قانون شکنی کے ریکارڈ توڑ نے میں اتنے ماہر واقع ہوتے ہیں کہ ابھی نئی کر نسی نوٹ بازار میں آئے بھی نہ تھے کہ لوگوں کو دوہزار روپے کے نئے نقلی نوٹ باز ار کی گردش میں موجود ہونے کی خبریں موصول ہوئیں۔ بدعنوانی کے ماہر چور وں کے لئے خزانہ ٔ عامرہ کو دو دو ہاتھ لوٹنا ہر دور میں بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے کیوں کہ ووٹ بنک سیاست کے چلتے اُنہیں غیبی ہاتھوں کی آشیرباد کسی نہ کسی صورت حاصل رہتی ہے ۔ آج تک جتنے بڑے غبن گھوٹالوں کی کہانیاں منظر عام پر آئی ہیں ، اُن میں یاتو سیاست کار بذات خود ملوث پائے گئے یا ان کے چیلے چانٹے، اور یہ دُز دان ِ دلاورایسے مجرمانہ کام کر نے میں کوئی پس وپیش نہیں کر تے ۔ یہی وجہ ہے کہ اونچی کرسی والوں کی کالی کرتوتیں اس قدر زبان زد عام ہیں کہ کسی سیاست دان یا اونچے سرکاری عہدیدار کے بارے میںخواب وخیال میں بھی گمان نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے اختیارات کانا جا ئز فائدہ اُٹھاکر ا س نے کوئی نہ کوئی گل نہ کھلائے ہوں ، اس نے افسروں سے ساز باز کر کے غریب عوام کی پیٹھ میں چھرا نہ گھونپا ہو ، اس نے عوامی مفاد کی ا سکیموں کا گلا گھونٹ کر سرکاری خزانے سے دمڑی دمڑ ی نچوڑ کر اپنی خفیہ تجور یوں نہ بھری ہو۔ نو بت بہ ایں جا رسید کہ آئے دن جن بدعنوانیوںاور اسکنڈلوں کے تہلکہ آمیز چرچے ہو تے ہیں، ان کا نیوز ویلیو تین ایک دن میں ہی گھٹ کر رہ جا تاہے کیونکہ نئے نئے غبن گھوٹالے طشت ازبام ہو کر ہفتہ عشرہ پرانے گھوٹالوں کو مات دیتے ہیں ۔ لوٹ پاٹھ کی یہ سر گزشتیں ہر ایمان دار شہری کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس کے اوپر جو لوگ منصب داروں کی حیثیت سے مسلط ہیں ،وہ صرف سرکاری خزانے کو چونا لگا نے کے لئے کرسیوں پر بیٹھے ہیں نہ کہ خدمت خلق کے لئے۔ حد یہ کہ ہمارے یہاں ایک موقع پر کر گل جنگ میں فوجی تابوتوں کی دلالیاں کھانے اور سیاچن میں تمغے اور ترقیاں پانے کے لئے نقلی معرکوں کی ویڈیو گرافیوں کے انکشافات بھی ہوتے رہے ۔ ماضی میں آدرش اپارٹمنٹ ممبئی جیسے بدنام زماں اسکنڈلز کی دُھوم اور جسٹس (ریٹائرڈ) اے کے گنگولی کا بد نام زماں قصہ بھی ہمارے لئے چشم کشا بنے رہے ہیں ۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں عام آدمی سر پیٹ کر نہ رہ جا ئے تو اور کیا کر ے ؟ ا س لئے اربابِ حل وعقد کی جانب سے وعدے وعید ، نت نئے کورپشن مخالف قوانین ،ا نکم ٹیکس چھاپے وغیرہ ناسور زدہ سسٹم کے درد کا درماں ثابت نہیں ہوسکتے ۔ انسدادِ بدعنوانی کے تعلق سے ہماری ریاست میں بھی قوانین کی بھر مار ہے ، متعلقہ عدالتیں ، ویجی لنس بیورو، احتساب کمیشن اور اَنٹی کورپشن ادارے وغیرہم بھی قطار اندر قطار موجود ہیں مگر اس کے باوجود کورپشن ہے کہ شیطان کی آنت کی بڑھ رہی ہے ۔ حتیٰ کہ کچھ سال قبل جموں وکشمیر کوبھارت میں دوسری کورپٹ اسٹیٹ ہو نے کا’’اعزاز‘ بھی ملا۔ ظاہر ہے جب کورپشن کے بحر مردار میں بڑے بڑے مگر مچھ پل بڑھ رہے ہوں تو گورنر ملک کے لئے ان کو کیفر کردار تک پہنچا ناایک بڑا چلینج ہے۔ بایں ہمہ ہمیں اس تندو تلخ حقیقت سے آنکھیں موندھ نہیں لینی چاہیے کہ خالی قانون کی کتا بوں کی ضخامت بڑھانے اورسزاؤں کا خوف دل میں بٹھانے سے کورپشن کو زمین برد ہونے کی اُمید کرنا عبث ہے تا وقتیکہ فرداًفرداً انسانی ضمیر پر اخلاقی حدود وقیود کا ہمہ وقت پہرہ نہ بیٹھ جائے اور سماج میں سچائی ، دیانتداری ، امانت داری بطورروش ِ حیات مستقلاً نہ اپنائی جائے ۔ لہٰذا جب تک فرداً فرداً ضمیر بیدا نہ ہو ا ور ہر ایک کے لئے باطنی ا صلاح کا دروازہ نہ کھلے ،اُ س وقت کورپشن کا خاتمہ صرف ایک ایسانعرہ ہوسکتا ہے جس کی عملی دنیا کوئی معنویت نہیں ۔ اگر گورنر ریاست کو کورپشن مُکت بنانے کے اپنے عزم پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں تو چمتکار ہونا بعیدازامکان نہیں۔