Did I offer peace today? Did I bring a smile to someone's face? Did I say words of healing? Did I let go of my anger and resentment? Did I forgive? Did I love? These are the real questions. I must trust that the little bit of love that I sow now will bear many fruits, here in this world and the life to come. (Henri Nouwen)
گزشتہ ستر سال کی تاریخ شاہد عادل ہے کہ بھارت نیمعروضی تجزیہ ہمیں بتاتا ہے کہ مر کزکا کشمیر کے حوالے سے روزِ اول سے ہی منفی رویہ رہا ، اس نے تنازعہ کشمیر کو کبھی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی مثبت پہل کی نہ ایسی تجاویز پر غور کرنے کی زحمت گوارہ کی جو اس سلگتے مسئلے کو حل کرنے میں معاون بنتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر میں آبا لوگ مسلسل ایک کرب ناک صورتِ حال بلکہ کہنا چاہیے کہ جنگ سے دوچار ہے جس کے سبب کشمیری قوم خاک اور خون میں ہر روز لتھڑرہی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اربابِ حل و عقد اور فوجی افسروں کی طرف سے ایسے تیز طرار بیانات متواتر جاری ہو رہے ہیں جو متاثرہ آبادی کے زخموں کا مرہم بننے کے بجائے کشمیر میں لگی آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایسا ہی بیان فوجی سربراہ بپن راوت نے دیا جس پر واضح طور اینٹ کا جواب پتھر سے کی ذہنیت منعکس ہورہی ہے ۔اسی پالیسی پر اب تک دلی نے کشمیر کے حوالے سے گامزن رہنا پسند کیا ہوا ہے۔جنرل صاحب اس طرح کے آتشیں بیانات کے لیے مشہور ہیں۔ وقتاً فوقتاً موصوف ایسے تیز طرار بیانات تادیر سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنے رہتے ہیں۔ اپنے تازہ بیان میں انہوں نے کہا کہ فوج کشمیر میںڈرؤن حملے کرسکتی ہے اور وادی میں جنگجوئیت کے مکمل خاتمے کے لیے اگر ممکن ہوا تو ڈرؤن حملے بعید ازامکان نہیں۔ نئی دہلی کے ’’انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اینڈ انالیسز‘‘میں وی وی چوہان یادگاری لیکچر کے دوران جنرل روات نے کہا :’’کشمیر میں جنگجوؤں کے خلاف ڈرؤن طیاروں کی بمباری خارج امکان نہیں بلکہ ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ لوگ اجتماعی نقصان (collateral damage) کے لیے تیار ہوں ‘‘۔ جنرل صاحب سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جس اجتماعی نقصان کی وہ بات کررہے ہیں، کیا ۴۷ء سے اب تک یہ قوم نقصان ہی نقصان نہیں اٹھا رہی ہے؟ لاکھوں معصوم اب تک موت کی نیند سلا دئے گئے ہیں ، ہزاروں گھر کو بم اور آتش گیر مواد سے ملیا میٹ کیا جاچکاہے، لاکھوں بچوں کے سر سے باپ کا سایہ چھین کر انہیں یتیمی کی دردناک زندگی کی جانب دھکیلا جاچکا ہے، تقریباً ۴۰؍ ہزار خواتین اپنے سرتاجوں سے جدا کئے جا چکے ہیں ، ہزاروں نیم بیوا ئیں دردر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ ان ناگفتہ بہ حالات کے چلتے عربوں اور کھربوں سرمایہ کا نقصان بھی ہو چکاہے جس سے یہا ں کی معیشت بے جان ہو کر رہ گئی ہے۔۸ جولائی ۲۰۱۶ میں برہان وانی کے جان بحق ہونے کے ما بعد جس طرح کے گھمبیر حالات یہاں بنے رہے ہیں ، ان سے ہر کس وناکس واقف ہے ۔ خاص طور پر جنوبی کشمیر میں عسکریت کی لہر میں سینکڑوں نوجوانوں نے بندوق کو گلے لگایا،جن کے خلافــ’’ آوپریشن آل آؤٹ‘‘ کا آغاز ہوا۔اور یہ آوپریشن بلا ناغہ سرعت سے جاری وساری ہے ۔حالیہ رپور ٹ کے مطابق اس سال اب تک اس کی بھینٹ چڑھ کر ۵۴۵ ؍کے قریب انسان قبروں میں اُتارے گئے ہیں ۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے اب تک سب سے خونین سال ۲۰۱۸ء بنا رہا۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جان بحق ہونے والوں میں ۲۴۰ عسکریت پسندبھی شامل ہیں،جب کہ اسی مدت میں ۱۴۵ ؍عام شہری اور ۱۴۲ ؍فورسز اہل کاراور پولیس والے بھی موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ جان و مال کے اس بے پناہ زیاں کے بعد بھی جنرل صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ لوگ ’’مضافاتی نقصان ‘‘کے تیار ہوں تو یہاں ڈرؤن حملے کئے جاسکتے ہیں،یا للعجب!!!
جنرل صاحب کی جانب سے ڈرؤن حملے کی جوازیت پر غور کیا جائے تو واجبی عقل رکھنے والا بھی یہی کہے گا کہ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔وادی میں وردی پوشوں کا مقابلہ کسی باضابطہ منظم فوج سے نہیں بلکہ ناراض نوجوانوں کے ساتھ ہے ۔ بے عیب سچ یہ ہے کہ رواں مسلح یورش ارباب ِ اقتدار کی منفی سیاست کے خلاف شدید ردّ عمل ہے۔ اور زیادہ دور کیا جائیں ،۲۰۰۸ء سے ہی دیکھیں کہ کس طرح کشمیری قوم نے اپنے سیاسی حقوق کے حصول کے لیے پُر امن راستے کا انتخاب کیا، پھر ۲۰۱۰ء اور ۲۰۱۶ء میں بھی عوام کی یہی روش قائم رہی۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے اور بالکل پرامن طور مر کز سمیت اقوام عالم تک اپنی آواز پہنچانے کی سعی وجہد کی۔ ا س دوران جگہ جگہ مظاہرے ہوئے ، احتجاجوں کا سلسلہ چل پڑا، حق خود ارادیت منوانے کے لئے ریلیاں نکالی گئیں۔ شرق و غرب اور شہر و دیہات سے لوگوں کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر سڑکوں پر آکر اپنے سیاسی جذبات کا اظہار کرتا رہا ۔ اس صورتِ حال کا اولین تقاضا تھا کہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر کشمیری قوم کا سلب شدہ جائزسیاسی حق تسلیم کیا جاتا اور ایسے اقدامات کئے جاتے جن سے کشمیری عوام سے انصاف کا معاملہ ہوتالیکن شومئی قسمت سے دلی نے ہر بار صلح سمجھوتے کے اُلٹ میں بلیٹ ، پلیٹ ، ڈنڈے ، گرفتاریاں اورزور زبردستی کے ہتھکنڈے اختیار کئے جو بھارت کی کشمیر پالیسی کا اب تک لب لباب بنے ہیں۔ یوںظلم و جبر کی ایک الم ناک داستان رقم کی گئی،سینکڑوں جوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا، پر امن احتجاجی مظاہروں کو آہنی ہاتھوں سے دبا یا گیا، پاوا گولوں اور پیپر شلوں سے آبادی کو ناکردہ گناہوںکی سزا دی گئی۔ حد یہ کہ جس پیلٹ گن کو ظالم اسرائیلی فوج نے بھی فلسطینیوں کے خلاف استعمال نہیں کیا ، اُسے یہاںدھڑلے سے فورسز کشمیر میں نہتے لوگوں کو زیر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ پیلٹ گن کی قہر سامانیوں سے ہزاروں نونہال آنکھیں بصار ت سے محروم ہوچکی ہیں۔اُف ! حال ہی میں اٹھارہ ماہ کی ایک بچی ہبہ نثار تک پیلٹ کی شکار بنائی گئی ۔ کیا ان جان گسل اور درد انگیز واقعات کے تسلسل نے عام کشمیری نوجوان کے ذہن میں یہ بات بٹھادی ہے کہ انتہائی قدم کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ۔گویا ’’تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ کے مصداق وہ جان تک سے کھیلنے سے بھی اب گریز کے روادار نہیں۔ غور طلب ہے کہ بعض مقامی عسکریت پسندوں کے بارے میں اخبارات اور رسائل میں جو سرگزشتیں شائع ہوئیں، اُن یہی اخذ ہوتا ہے کہ بندوق اُٹھانے سے قبل انہیں تنگ طلب کیا جاتا ، بار بار پولیس تھانوں پر حاضری دینے کو کہا جاتا وغیرہ و غیرہ۔ اس طرزعمل سے اُن کی زندگیاں اتنی اجیرن بن گئیں کہ وہ ایک انتہا کا علاج دوسرے انتہا کو ماننے لگے۔ حالانکہ اربابِ اقتدار اور فوجی اور پولیس عہدیدار یہ بیانات بھی جاری کرتے ہیں کہ نارمل زندگی گزارنے والے کسی نوجوان کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ آخر ڈرؤن جیسے مہلک ہتھیار استعمال کرنے کی باتیں کشمیر میں عسکریت کو زیر کرنے کے لیے ہی کیوں کی جاتی ہیں؟ جب کہ امر واقع یہ ہے کہ کشمیر سے باہر جنگ جوئیت سے متاثرہ ریاستوں میں کو مسلح جماعتیں فورسز کو زبردست چلینچ دے رہی ہیں اُن کے خلاف ڈرؤن استعمال کر نے کی اشتعال انگیز باتیں نہیں کی جارہی ہیں۔ بہرحال اگر جنرل صاحب کشمیر میں ڈرؤن سے آگ برسانے کی بات کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کو دوسرا عراق یا شام بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جارہا ہے ، جب کہ عقل وفہم کا ادنیٰ تقاضا یہ ہے کہ ایک نتیجہ خیز سیاسی اور مذاکراتی عمل سے اس سلگتی آگ کو فوراً بجھا یا جائے جس کے شعلے پورے برصغیر میں نفرت اور خون آشامی کی نذر کر نے کا موجب بن سکتے ہیں، کیونکہ کشمیر عملاً نیو کلیئر فلیش پوائنٹ ہے۔ یہ بات بھی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ کشمیر میں زور ِ بازو سے اور اسلحہ کے بل پر حالات پر قابو پانا قطعاً ایک ناکام حکمت عملی ثابت ہوچکی ہے۔ اس لئے یہاںڈرؤن کے بجائے کشمیر حل کی شرین کلامی کی جانی چاہیے اور جس طرح سب لوگ مانتے ہیں کہ کشمیر کا کوئی فوجی حل ہے ہی نہیں ، اس مسئلے سے گلوخلاصی کاایک ہی راستہ ہے وہ ہے مذاکرات برائے حل۔ ہمارے اربابِ حل و عقد کو سمجھنا چاہیے کہ اشتعال انگیزی سے بہر نوع مسائل سلجھنے کے بجائے اُلجھ جاتے ہیں ۔ ا س وقت ضرورت ہے تو جنیون ہیلنگ ٹچ کی، گالی اور گولی کی بجائے ناراض نوجوانوں کو گلے لگانے کی ، تعمیری سیاسی سوچ اور امن پسندانہ اقدامات کی۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں کرتار پور کاریڈور کھولنے کے موقع پر بھارت کو پھر سے بات چیت کی دعوت دی۔ بھارت کو بھی دیر سویر اس مخلصانہ دعوت کا والہانہ خیر مقدم کر کے اس کامثبت جواب دینا چاہیے ۔ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ دوستانہ تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیر کا لٹکتا مسئلہ ہے۔یقینی طور اگر مسئلہ کشمیر منصفانہ اندازمیں اور پُر امن طور حل ہوگیا تو نہ صرف عرصۂ دراز کے بعد کشمیری چین کی سانس لیں گے بلکہ دونوں ممالک تعمیر و ترقی اور امن و دوستی کے سائے میں زریں تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ لہٰذا مرنے مارنے اور تباہی مچانے والے بیانات سے گریز کرکے امن ، پیار ، محبت اور آشتی کے قدروں کو فروغ دینے کی باتیں ہونی چاہیں۔