پردے پیچھے کیا ہے؟
مجھے بھی کچھ کہنا ہے
ریاست کے سب بے بڑے مالیاتی ، تاریخی ادارے اور ریاست کے طول و عرض میں ریاستی معیشت کو سنبھالنے والے جموں و کشمیر بنک کے بارے میں آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں جن کا ایک عام انسان جب بغور جائزہ لیتا ہے تو شش و پنج میں پڑ ے بغیرنہیںرہتا۔کبھی سوال اُٹھ رہے ہیں اس کی خود مختاری پر ، کبھی انگلی اٹھائی جارہی ہے اس کے انتظامی اموارت کے بارے میں، کبھی اس کے مالی مسائل پر اورکبھی ملازمتوں میں اس کی بھرتیوں پر۔ یہ سارے سوالات اور بحثیں ریاستی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد سے گورنر انتظامیہ کے دورمیں خاص طور پر سامنے آرہی ہیں۔ ریاست کا جوکوئی بھی باشعور عام باشندہ جب میڈیا میں اُجاگر کی جارہی ان خبروں کو ایک عام پیمانے پر تولنے کی کوشش کر تا ہے تو اُسے اس ساری کارستانی کے پیچھے دال میں کچھ کالا ضروردکھائی دیتا ہے۔
اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جموں و کشمیر بنک ہماری ریاستی معیشت کی شہ رگ ہے اور گزشتہ اٹھائیس سال کی پُر آشوب تاریخ گواہ ہے کہ یہ بنک کن کٹھن حالات میں اور کس پُر آشوب ماحول میں ریاستی عوام کے لئے راحت رساں بنا رہا ہے۔ انہی تین دہاہیوں میں یہ بنک ایک چھوٹے سے علاقائی بنک سے اُٹھ کر ایک ملک گیر بنک بن گیا، اس بنک کے پبلک شیئر زسامنے آئے، نیشنل اسٹاک ایکسچینج اورا ممبئی اسٹاک ا یکسچینج میں اس کا اندراج ہوا، اسی دور انیہ میںجے کے بنک نے نہ صرف اپنا کاروبار وسیع سے وسیع تر کیا بلکہ ریاست کی تعمیر و ترقی اور سماجی بہبود میں بھی ایک کلیدی کردار نبھایا۔ ریاست کی اقتصادی ترقی کے لئے بنک کے مثبت رول کا سب کو اعتراف ہے، یہاں تک کہ ریاستی اور ملکی سطح پر اس بنک کی کارکردگی کو پذیرائی بھی ملی ہے بلکہ اسے ملکی سطح پرنمبر ایک پرا ئیویٹ سیکٹر بنک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہواہے۔گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ریاست کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو جتنے زیادہ روزگار کے وسائل اس بنک کی وساطت سے فراہم ہوئے ہیں ،اُتنے وسائل کسی اور ادارے نے پیدا نہیں کئے ہیں۔ شہر سرینگر کی اقبال پارک ہو یا بادام واری پارک ، جموں کی چلڈرن پارک ہویا پہلگام کی تفریحی پارک ہو یا سرینگر کا گالف کورس وغیرہ وغیرہ،کھیل کود میں فٹ بال کی مقبولیت میں نئی روح پھونکنا ہو یا دیگر کھیلوں میں ریاستی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ، سب جگہ جموں و کشمیر بنک کا کلیدی رول واضح طور دکھائی د ے رہا ہے اور ہر جگہ یہ بنک اپنے مفید وجود کی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہاہے۔
اگر فی الوقت ملکی سطح پر بینکنگ رجحان کو دیکھا جائے تو پچھلے دو سالوں سے مجموعی طور ملک کے سبھی بنکوں پر مرکزی سرکار اور ریزور بینک آف انڈیا کی طرف سے کافی دباؤ رہاہے اور مرکزی سرکار کی مختلف پالیسیوں پر عمل در آمد بنکوں کے ذریعے کروائی گیاہے، یہ چاہے نوٹ بندی کا معاملہ ہو، جی ایس ٹی کا لاگو ہونے کا معاملہ ہو یا مرکزی سرکار کی دیگر عوامی بہبود کی اسکیمیں ہوں، سب کی سب میں ہماری ریاست میں یہ فریضہ خصوصی طور پر جے کے بنک بڑھ چڑھ کر ادا کر رہا ہے۔ایسے میں جموں و کشمیر بنک کی صورت حال اور اس کے مالی اعداد و شمار بہت سارے قومی اور پرائیویٹ سیکٹر بنکوں کے مقابلے میں قدرے بہتر دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ جس ریاست میں ایک سیاسی اُتھل پتھل ہو اور نامساعدحالات پائے جاتے ہوں، وہاں بینکنگ کا نظم و نسق عوامی خواہشات کے موافق چلانا ایک کارِ دارد والا اور صبر آزماکام ہے۔ ان سب موانع اور مشکلات کے باوجود جموں و کشمیر بنک عوامی خدمات کے شعبے میں سر فہرست رہا ہے۔اس بنک کے من جملہ حصص میں ریاستی سرکار کا پچاس فیصد سے زیادہ حصص ہونا ایک اچھی بات ہے لیکن اُس چالیس فیصد حصص کا کیا جو پچاس ہزار سے زائد افراد کے پاس ہیں؟ کہیں یہ سب ایک منظم سازش کا حصہ تو نہیںہے؟ کہیں بینک کی شبیہ دانستہ طور مسخ تو نہیں کی جارہی ہے تاکہ عوام کا اس بنک پر دلی اعتماد اُٹھ جائے اور وہ ذہنی تذبذب سے دوچار ہوکر دیگر بنکوں سے رجوع کریں؟
بنک ایک عوامی ادارہ ہوتا ہے، اس لئے کسی بھی بنک کے بارے میںکوئی بھی معقول سوال کیا جاسکتا ہے، لوگوں کو بنک کی کارکردگی کے بارے میں پوچھنے کا بھی حق ہے لیکن جس طرح گزشتہ دو تین مہینوں کے دوران جے کے بنک کے خلاف مختلف انداز کی منفی آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں، اُن پر ٹائمنگ اور مقاصد کے لحاظ سے ایک سوالیہ نشان لگا ہے؟
جے اینڈ کے بنک کے خلاف انگلی اُٹھانے والے لوگ کون ہوسکتے ہیں؟ کم از کم وہ اس بنک کے وہ معززگاہک تو نہیں ہو سکتے جنہیں اس ادارے کی بہترین خدمات میسر ہیں۔ اب اگر یہ ہوسکتے ہیں تو صرف اس بنک کے وہ قرض نادہندہ ( ڈفالٹر) جن میں سے کئی لوگوں نے کروڑوں روپے کے قرض بنک سے لئے ہوئے ہیں لیکن اب وہ قرضہ لوٹانے میں لیت و لعل کر رہے ہوں گے اور ممکنہ طور ا س کے لئے بنک کے خلاف بدنامی کی مہم چلا رہے ہیں یا یہ لوگ مفاد خصوصی رکھنے والے دیگر افراد بھی ہوسکتے ہیںجو اپنا اُلو سیدھا کر نے کے لئے بنک کو ہدفِ تنقید بناتے ہوں گے یا ۔۔۔یا۔۔۔کوئی اور ؟