بچے بچے کو اب یہ فقرہ زبانی یاد ہوچکا ہے۔ ’’مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو جنوب ایشیا میں آگ لگ جائے گی‘‘ یا یوں کہ ’’جنوب ایشیا میں قیام امن مسئلہ کشمیر کے تصفیہ کے بغیر ممکن نہیں۔ــ‘‘ یہ مفروضہ یہاں کی مزاحمتی اور اقتدارنواز سیاسی جماعتوں کی نظریاتی ابجد بن چکا ہے۔کاش واشنگٹن ، نئی دلی اور بیجنگ کے پالیسی ساز بھی یہی سمجھتے۔ لیکن اُن کے لئے جنوب ایشیا کا بڑا مسئلہ افغانستان ہے۔افغانستان مشرق وسطیٰ میں صدیوں سے گریٹ گیم کا محور رہا ہے۔ آج جب چین، روس اور ایران کے افغان خطے میں بڑھتے نفوذ کو روکنے کے لئے امریکہ اور بھارت بغل گیر ہورہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو باہمی مذاکرات سے زیادہ فکر یہ ہے کہ وہ افغانستان میں ایک دوسرے کو چیک میٹ کیسے کریں۔ امریکہ کی مالی و عسکری مدد اور پاکستان کے سرگرم فوجی کردار سے جب سویت افواج کو افغانستان چھوڑنا پڑا تو کشمیر کو کابل کے راستے آزاد کرانے کا منصوبہ بھی وقوع پذیر ہوا۔پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان نے تو اعلان کردیا ہے کہ پاکستان کسی بھی عالمی قوت کا اُجرتی قاتل(Mercenary)نہیں بنے گا، لیکن حق یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کے بارے میں امریکہ اور ہندوستان کے ساتھ کابل میں بارگین کرنا چاہتا ہے۔
بادی النظر میں یہ ایک مناسب تذویراتی عمل لگتا ہے، لیکن خطے میں طاقت کا توازن دیکھئے تو بھارت تمام تر عالمی بدنامی کے باوجود ایک غالب قوت ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان برملا اعتراف کرتا ہے کہ افغانستان میں امن عمل بھارت کی سرگرم شرکت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ گویا دبے الفاظ میں بھارت کے بِگ بردر کردار کو تسلیم کرنا ہے۔
فی الوقت تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس نامی ادارے کے ذریعہ پاکستان کو واچ لسٹ پر رکھا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اسے بلیک لسٹ کیا جائے گا۔ تعجب اس لئے کہ یہ سزا پاکستان کو مذہبی آزادیوں پر قدغنوں کے لئے دی گئی ہے ، جبکہ دوسری جانب بھارت میں مسلمان، دلت اور عیسائی بدترین ظلم کا شکار ہیں۔بھارت کے پالیسی سازوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان افغانستان پر اثرورسوخ قائم کرکے بھارت کے خلاف تذویراتی گہرائی (Strategic Depth) قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کی معزولی کے فوراً بعد بھارت نے افغانیوں کے لئے اپنے خزانوں کے دروازے وا کردئے۔ لیکن افغان جنگ سے جان چھڑانے کے لئے امریکہ کو پاکستان کا کردار ناگزیر لگتا ہے۔ حالانکہ امریکہ نے زلمے خلیل زاد نامی افغان نژاد امریکی کو افغانستان میں امن کا نیا سفیر بنایا ہے۔ زلمے خلیل زاد نے اس حوالے سے قطر میں طالبان کے نمائندوں خیراللہ خیرخواہ اور محمد فضل کے ساتھ مذاکرات کا ایک دور بھی کیا۔ پہلے پہل اگر طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا ذکر بھی چھڑتا تو بھارت تلملا اُٹھتا تھا، اب کی بار دلی میں معنی خیز خاموشی ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زلمے خلیل زاد پاکستان بیزاری کے لئے مشہور ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کی آماجگاہ قرار دلوانے کے لئے خوب ہاتھ پاؤں مارے۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار نمائشی ہو اور اس کے تذویراتی فوائد امریکہ کو جو ملیں سو ملیں مگر بھارت کی پاکستان پر برتری بنی رہے۔ حالانکہ روس نے حالیہ دنوں بھارت کو جدید ترین طیارے دینے کا اعلان کیا ، لیکن اطلاعات ہیں کہ زلمے خلیل زاد کو قطر، افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، بیلجیم، ازبیکستان، تاجکستان وغیرہ کے حالیہ دوروں کے دوران ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رُوس طالبان کی عسکری مدد کررہا ہے۔ایسے امکانات بھی موجود ہیں کہ اگر امریکہ نے ایران پر معاشی پابندیوں کا پھندہ زیادہ کسنا شروع کیا تو ایران بھی طالبان کی محدود مدد کرسکتا ہے۔ ایسے میں جہاں امریکہ سترہ سالہ جنگ کو خیرباد کہتے ہوئے افغانستان میں ایک نئی اور وسیع البنیاد حکومت کا قیام چاہتا ہے، وہیں اسے خدشہ ہے کہ مشرقی بلاک سے اس عمل کو سبوتاژ کیا جاسکتا ہے۔
اس صورتحال پر پاکستان کے پالیسی ساز مطمئن ہیں، کیونکہ ایسی حالت میں وہ کابل بارگین کے ذریعہ نہ صرف افغان عمل پر بھارت کا غلبہ کم کرسکتے ہیں بلکہ کشمیر پر واشنگٹن سے رعایت بھی لے سکتے ہیں۔ یہ یوں ہی نہیں ہے کہ امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان میری ہارف کی پریس کانفرنس میں جب ایک بھارتی صحافی نے اُن سے دہشت گردی اور کشمیر سے متعلق سوال پوچھا تو انہوں نے دوٹوک کہہ دیا کہ ـ’’جنوب ایشیاء میں دہشت گردی اور کشمیر کا مسئلہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ـ ‘‘ انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی اور لائن آف کنٹرول پر قیام امن کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ پاکستان کا لب و لہجہ بھی دیکھ لیجئے۔ پاکستان بار بار دُنیا کو سنا رہا ہے کہ وہ ڈائیلاگ کے لئے تیار ہے لیکن بھارت کا رویہ منفی ہے۔ یہ گویا افغان امن عمل کی ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے بولا جارہا ہے۔ افغانستان میں پیس پراسیس کی بیل منڈے چڑھے گی یا نہیں، لیکن کشمیریوں کو پھر ایک بار حوصلہ افزأ بیانات سننے کو ملیں گے، اورناانصافیوں، ہلاکتوں، گرفتاریوں، غیریقینیت کا پرنالہ وہیں پہ رہے گا جہاں تھا، کیونکہ کشمیر کی افراتفری کے ساتھ خطے کی نظریاتی سیاست اور عسکری اداروں کے مفادات جڑچکے ہیں۔افغان پیس پراسیس سے پاکستان کو کشمیر سے متعلق رعایت دی جائے گی یا وہ محض ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ سے بچ جانے پر اکتفا کرے گا، یہ آئندہ ایام میں واضح ہوجائے گا، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ کشمیر افغان بارگین میں پھنستا جارہا ہے۔
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر