ریاست میں انسانی آبادیوں پر وحوش کے حملوں اوران کے نتیجہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کے واقعات رونماہونے کا سلسلہ تیز ہونے لگا ہے اور جنگلی جانور گھروں تک پہنچ کرآبادی کو نشانہ بنارہے ہیں جس سے کئی علاقوں میں خوف و دہشت کا ماحول ہے اور لوگ سہمے ہوئے ہیں ۔پچھلے کچھ ہفتوں سے جموں کے پہاڑی علاقوں اور ان سے متصل قصبہ جات میں ا س حوالے سےانتہائی دردناک واقعات رونماہوئے ہیں ،جن کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ محکمہ وائلڈ لائف کا زمینی سطح پر کہیں کوئی وجود نہیں اورانسانی آبادی غیر محفوظ ہے ۔گزشتہ دو ہفتوں میں ضلع ریاسی کے مہور علاقے میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔6دسمبر کو پیش آئے واقعہ میں خونخوار تیندوا آٹھ سے نو سال کی عمر کے بچے کو گھرکے پاس سے اٹھاکرلے گیا جس کی پندرہ گھنٹوں کے بعد نعش برآمد ہوئی جبکہ اسی طرح کا ایک اور واقعہ دوروز قبل پیش آیا جس میں تین سے چار سالہ بچے کو تیندوا اٹھاکر فرار ہوگیا اور اس کی مسخ شدہ نعش بھی چودہ گھنٹوں کے بعد ملی ۔اگرچہ جنگلی جانوروں کے حملوں کے باعث پہلے بھی انسانی جانوں کا اتلاف ہوتارہاہے اور یہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے لیکن مہور میں پیش آنے والے یہ دوواقعات انتہائی دردناک ہیں اور تیندوئوں کا کمسن بچوں کو نشانہ بناناپریشان کن ہے۔ان واقعات کی وجہ سے مقامی آبادی میں خوف و دہشت کا ماحول ہے اور وہ بچوں کو سکول بھیجنے سے بھی خوف کھارہی ہے ۔حالانکہ وحوش کی آبادی کو تحفظ دینے کیلئے محکمہ وائلڈ لائف کے نام سے ایک پورا محکمہ قائم ہے لیکن انسانوں کو انکے حملوں اور خطرات سے محفوظ رکھنا بھی انکی ذمہ داری ہے مگر اس احساس ذمہ داری کا زمینی سطح پر دور دور تک کہیں کوئی نشان نظر نہیں آتا۔6دسمبر کے واقعہ پر ڈپٹی کمشنر ریاسی نے محکمہ کی لاپرواہی پر اس کے دو ملازمین کو معطل بھی کیاتھا لیکن اس کے بعد بھی انسانی آبادی کو تحفظ حاصل نہیں ہوسکا جو تشویش کی بات ہے ۔اس دوران پونچھ کی مینڈھر تحصیل میں بھی ایک ایسے ہی واقعہ میں ریچھ نے ایک سرکاری ٹیچر پر حملہ آورہوکر اسے بری طرح سے زخمی کردیا ۔ریاست کے پہاڑی علاقوں میں ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں اورآئے روز انسانی آبادی جنگلی جانوروں (وحوش)کا نشانہ بنتی رہتی ہے ۔جنگلی جانوروں کے انسانی آبادیوں پر حملہ آور ہونے کی ایک بنیادی وجہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے، جس سے نہ صرف ماحولیاتی توازن خراب ہواہے بلکہ وحوش اپنی غاروں اور خوردونوش کے ذرایع سے محروم ہونے کے بہ سبب جنگلی علاقوںکو چھوڑ کرانسانی آبادی والے علاقوں کی طرف منتقل ہورہے ہیں۔یہ امر تشویشناک ہے کہ ریاست میں حالیہ برسوں کے دوران جنگلات کا بڑے پیمانے پر کٹائو کیاگیاہے اور کل تک جہاں گھنے جنگل ہواکرتے تھے وہاں آج انسانی بستیاں آباد ہیں ۔حکومت کی طرف سے جنگلاتی اراضی سے قبضہ ہٹائے جانے کے نام پر بڑے پیمانے پر کارروائی کرنے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں لیکن مجموعی صورتحال میں کوئی تبدیلی دیکھنے کونہیں ملتی۔جہاں بچ رہے جنگلات کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے وہیں جنگلی جانوروں سے انسانی آبادی کو بچانے کیلئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں، جس کیلئے وحوش پر قابو پایاجانا ضروری ہے ۔تیندوے کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین کیلئے یہ واقعات تو دردناک ہیں ہی لیکن ساتھ ہی پہاڑوں سے متصل رہنے والےوالدین بھی اپنے بچوں کی سلامتی کیلئے متفکر ہیں جن کی جان کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے محکمہ وائلڈ لائف کو اپنے رویہ میں نمایاںتبدیلی لاناہوگی ۔