ملک کی پانچ ریاستوں کی اسمبلیوں کا انتخاب عمل میں آیا ، چونکا دینے والے نتائج بھی سامنے آگئے اور ان میں نئی حکومتیں بھی بنیں، لیکن پورے ملک کی نظر تین بڑی ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ پر تھی۔ ان تین ریاستوں میں بی جے پی کا راست مقابلہ کانگریس سے تھا۔ بی جے پی سے ایک ملک گیر پارٹی کانگریس مقابلے میں تھی لیکن کانگریس کی جیت اور بی جے پی کی ہار کیلئے ملک کی اکثریت بلکہ 80% کی تمنا اور خواہش تھی کہ کسی طرح بھی ایک کی ہار ہو، ایک کی جیت ہو، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ساڑھے چار سال سے ملک ایک ہنگامی صورت حال سے گزر رہا ہے، دستور اور آئین، عدلیہ اور ملک کے دیگر ادارے موجودہ حکومت کی زد میں ہیں، سی بی آئی، آر بی آئی، الیکشن کمیشن جیسے اداروں میں بڑے پیمانے پر مداخلت ہونے لگی ہے، جس کی وجہ سے اداروں کی خود مختاری مجروح ہوگئی ہے، ریزرو بینک (آر بی آئی) جو کسی بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، اب تک اس کے دو گورنر استعفیٰ دے چکے ہیں اور دونوں حکومت کی بار بار کی مداخلت سے تنگ آچکے تھے،وہ ایسے لوگ تھے جو اپنے فن کے عظیم ماہر سمجھے جاتے تھے، دونوں نے اسی میں بھلا سمجھا کہ ملک کو بتایا جائے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کی خود مختاری پر حملے کی وجہ سے ہندستان میں معاشی نظام کا برا حال ہوچکا ہے اور اس سے بُرا ہونے جارہا ہے، ظاہر ہے دونوں اس بری معاشی صورت حال کی ذمہ داری نہیں لے سکتے تھے، اسی سال کی جنوری میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس کرکے ملک کو آگاہ کیا تھا کہ جمہوریت اور عدالتی نظام خطرے میں ہے۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ملک کا معاشی نظام بالکل مفلوج ہوچکا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اور روزگار کے سارے مواقع مسدود ہیں، جب کہ مودی نے وعدہ کیا کہ تھا کہ دو کروڑ سالانہ روزگار نوجوانوں کو مہیا کئے جائیں گے۔ کسانوں کی حالت انتہائی خراب ہوچکی ہے اور روز بروز کہیں نہ کہیں سے کسی غریب کسان کی خودکشی کی خبر آتی ہے۔ قانون کا نظام بالکل درہم برہم ہے۔ پہلے ماب لنچنگ یعنی ہجومی تشدد کے شکار مسلمان اور دلت تھے،اب پولس بھی ہجومی دہشت گردی کا شکار ہونے لگی ہے۔ اس طرح قانون کی بالا دستی یا قانون کی حکمرانی پامال ہوگئی۔ خاص طور پر اتر پردیش میں جہاں ایک کٹر ہندوتوا کے چہرے کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور سونپ دی گئی ہے۔ اسے انسانیت سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ صرف ہندوتوا کا پرچار اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرنا ہی اس کامقصد زندگی ہے۔ نفرت اور کدورت پھیلانا اور فرقہ فرستی کا زہر گھولنا اس کا سب سے بڑا ایجنڈا ہے۔ چار پانچ ریاستوں میں انتخابی مہم کا اسٹار بناکر اسے بھیجا گیا اور اسے مودی اور شاہ سے زیادہ تقریروں کے مواقع فراہم کئے گئے۔ تلنگانہ میں جہاں بی جے پی کو ایک سیٹ پر کامیابی ہوئی ہے، وہاں اس نے اپنی مغروریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسدالدین اویسی کو جہاں ان کی پارٹی کو سات سیٹوں پر جیت ہوئی ہے ،یہ دھمکی دی کہ اگر اس کی پارٹی برسراقتدار آئی تو وہ اویسی کو ملک بدر کردے گا۔ ایسے لوگ حقیقت میں احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کو کتنی سیٹوں پر کامیابی ہوگی۔ ایک سیٹ کا جیتنے والا گھمنڈ اور تکبر کا ایسا مظاہرہ کرتا ہو تو اُسے پاگل ہی کہا جاسکتا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اُتر پردیش میں بی جے پی کے ایک پاگل کی حکومت ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انتخابی تقریر کے دوران مسلمانوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ 'تمہارے لئے علی ہیں تو ہمارے لئے بجرنگ بلی ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کسی فرد پر نہیں بلکہ صرف ایک اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ ہزاروں بھگوان کی پوجا کرتے ہیں۔ کبھی ہنومان، کبھی بجرنگ بلی اور کبھی کوئی اور ہیں۔ الغرض جتنے کنکر اتنے شنکر ہیں۔ مسلمانوں کو علی کی دہائی دینا اُن کی لاعلمی کو درشاتا ہے۔ یوگی، مودی اور شاہ کو اب یہ تین ریاستوں سے بہت کچھ سبق ملنا چاہئے۔
گزشتہ روز کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد جو تقریر کی ہے، اس سے بھی بہت کچھ مودی جی کو خاص طور پر سبق لینا چاہئے۔ راہل گاندھی نے مختصر مگر جامع تقریر میں ان وجوہات پر روشنی ڈالی جن کی وجہ سے مودی اور ان کی پارٹی کا زوال شروع ہوگیا ہے اور بہت ہی اچھے انداز سے سنگھ پریوار کے اور خاص طور پر ان کے مکھیا مودی کے نعرے’’ 'کانگریس مکت ‘‘بھارت کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ہم بی جے پی دل و جان سے مقابلہ کریں گے لیکن ہم کسی کو بھارت سے مکت نہیں کریں گے۔ یہ ایک طرح سنگھ پریوار کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے۔ راہل گاندھی نے کہاکہ مودی کی مغروریت اور اہنکار سے ہم نے یہ سیکھا کہ جو لوگ ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے اندر عجز و انکساری ہونی چاہئے تاکہ عوام سے دوری نہ ہو بلکہ عوام کے درمیان گھل مل کر چلیں تاکہ ان کے جذبات و احساسات کا اچھی طرح سے علم ہو۔ اُن کی آواز سنیں اور ان کے مسائل حل کریں۔ راہل گاندھی نے ملک کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی خاص طور پر بے روزگاری اور کسانوں کی خودکشی کے واقعات بیان کئے اور بتایا کہ ان دو مدعوں کے علاوہ بدعنوانی یعنی کرپشن کے خلاف ان کی لڑائی جاری رہے گی۔ سنگھ پریوار والے جس راہل گاندھی کو '’’پپو‘‘ کہتے تھے آج وہی انھیں دھول چٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اب شاید راہل گاندھی کو پپو کہنا سنگھ پریوار والے بھول جائیں گے۔ راہل گاندھی کو ایک سال پہلے 11؍دسمبر کو پارٹی کا صدر منتخب کیا تھا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ گیارہ ہی دسمبر کو راہل گاندھی کو ایک ایسا یادگار تحفہ ملا جس سے اُن کا حوصلہ بڑھا، اُن کی پارٹی کا حوصلہ بڑھا ۔ اُن کے لیڈروں اور ورکروں کی ہمت افزائی ہوئی اور کانگریس کی بحالی بھی شروع ہوئی۔
اب 2019ء کے جنرل الیکشن کے بارے میں شاید ہی کوئی کہے گا کہ راہل گاندھی نریندر مودی کا مقابلہ انتخابی میدان میں نہیں کرسکیں گے۔ اب خود دیر یا سویر بی جے پی کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ 'مودی میجک کا خاتمہ شروع نہیں ہوا بلکہ ختم ہوگیا اور ملک بھاجپا مُکت ہونے والاہے۔ امیت شاہ کے بارے میں جو یہ کہا جارہا تھا کہ وہ کبھی الیکشن نہیں ہارتے،اب تین ریاستوں کے نتائج کے بعد منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اُن کی بولتی بند ہوگئی ہے، خوشی کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے اور ہار جیت کو زندگی کا حصہ بتایا ہے۔ شاید انہوں نے یہ پہلی بار مانا کہ ہر عروج کا زوال ہوتا ہے ۔ اُن کا زوال اگرچہ گجرات کے الیکشن سے شروع ہوا تھا کیونکہ گجرات میں اُن کی پارٹی کو مشکل سے جیت حاصل ہوئی تھی۔ بقول اشوک گہلوٹ کسی پارٹی کی نہ ہار ہوئی تھی نہ جیت۔ گجرات کے بعد اب تین ریاستوں کی ہار ہے، اُسے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ امیت شاہ لگتا ہے ابھی تک شکست قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں شیو راج سنگھ چوہان کل سے آج تک کوشش کی کہ ہار کو تسلیم نہ کریں لیکن بالآخر انہوں نے مجبوراً شکست تسلیم کرلی اور شکست کی پوری ذمہ داری بھی اپنے سر قبول کی۔ حالانکہ مدھیہ پردیش وہ ریاست ہے جہاں آر ایس ایس بہت ہی منظم اور مستحکم جماعت ہے۔ ایک طرح سے وہاں آر ایس ایس کا قلعہ ہے۔ بی جے پی کو وہاں ہرانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہاں منی (روپیہ)، مسل (طاقت) اور بیوروکریسی کی پوری طاقت لگا دی گئی تھی۔
سیاسی تجزیہ کار شیوراج سنگھ چوہان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے بہت سے کاموں کی وجہ سے مقبول تھے اور مدھیہ پردیش میں '’’ماما‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے۔ ماما کی بھی ہار ہوئی اور بی جے پی کی ماں آر ایس ایس کی ہار ہوئی۔ راجستھان میں بہت سے مسلم نوجوان ہجومی دہشت گردی کے شکار ہوئے تھے۔ وہاں بھی کوئی قانون کی بالادستی نہیں تھی۔ لوگ قانون کو آسانی سے اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے۔ اس طرح ان دو ریاستوں میں جو ہار ہوئی ہے ،اس سے ملک کے سارے لوگ سوائے سنگھ پریوار کے خوش ہوئے ہیں اور سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی ہے۔ امید یہ ہے کہ کانگریس اس جیت سے اور زیادہ محنت اور کاوش کرے گی۔ اس کی جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ بہت لوگوں نے لکھا ہے اور بہت سے لوگوں نے بیان بھی دیا ہے کہ کھیل اب شروع ہوا ہےاور واقعی 2019ء میں اصل کھیل کا فائنل ہے۔ اس فائنل انتخابی میدان میں بی جے پی کو چاروں شانے چت کرنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ چند دنوں تک سنگھ پریوار کے چہرے لٹکے ہوئے نظر آئیں گے لیکن ان کی ہیکڑی اور ہٹ دھرمی جلد ہی شروع ہوجائے گی۔ کانگریسیوں کو راہل گاندھی نے جو راستہ دکھایا ہے ،اُس راستے پر کانگریسیوں کو چلنا چاہئے اور راہل گاندھی نے جو اپنے ورکروں پر جوبھروسہ ، پیار اور محبت کا بھرپور اظہار کیا ہے، وہ بھی جاری رہنا چاہئے۔
اب دوسرا بڑا مسئلہ اپوزیشن اتحاد کا ہے۔ تقریباً سبھی اپوزیشن پارٹیاں دہلی میں دو تین روز پہلے ایک فلیٹ فارم پر جمع ہوئیں اور سبھی نے متحد ہوکر بی جے پی کو ہرانے اور ملک کو بچانے پر زور دیا۔ صرف دو پارٹیاں بہوجن سماج پارٹی اور سماجوادی پارٹی کے لیڈران دہلی کے اتحادی اجتماع میں شریک نہیں ہوئے۔ شاید ان دونوں کو راہل گاندھی کی قیادت کی کمزوری مانع ثابت ہورہی تھی لیکن تین ریاستوں کی جیت کا سہرا کانگریس والے راہل گاندھی کے سر باندھ رہے ہیں اور ملک کا وہ میڈیا جو گودی میڈیا نہیں بنا ، اُس کا بھی کم و بیش یہی خیال ہے کہ تین ریاستوں کی جیت کا کریڈٹ راہل گاندھی کو جاتا ہے۔ نتیش کمار اور اس طرح کے دوسرے لیڈران نے جو بی جے پی کے حاشیہ بردار ہوگئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی ناقابل تسخیر ہیں۔ اب شاید ان حاشیہ برداروں کے ہوش و حواس دُرست ہوجائیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ نتیش کمار پالا بدلنا چاہتے ہیں لیکن آرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نتیش کمار کو اپوزیشن کے اتحاد میں لینے کے سخت خلاف ہیں۔ اب این ڈی اے کے کچھ لوگ اپوزیشن میں آگئے ہیں اور کچھ لوگ آنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کے زوال کا بھی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ تلنگانہ میں چندر شیکھر اور اسدالدین اویسی کا نعرہ ہے کہ پورے ملک میں غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی حکومت قائم ہو۔ اگرچہ تلنگانہ جیسی ریاست میں دونوں کو بڑی کامیابی ملی ہے لیکن تلنگانہ کو ہندستان سمجھ لینا اور ملک کی 29 ریاستوں کو تلنگانہ سمجھ لینا دونوں کی نادانی ہی کہی جائے گی۔
کانگریس ہی نے اپنے زمانے میں آندھرا پردیش کو دو حصے میں تقسیم کرکے تلنگانہ کی نئی ریاست کے وجود کو مان لیا تھااور تلنگانہ تحریک کے جو سربراہ کے سی آر نے کانگریس سے یہ سمجھوتہ کیا تھا کہ اگر ریاست کے وجود کو کانگریس تسلیم کرلیتی ہے تو وہ اپنی پارٹی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (TRS)کو کانگریس میں ضم کردیں گے لیکن کے سی آر کسی وجہ اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے۔ آج جو کانگریس کی دشمنی میں اتنا آگے بڑھ گئے ہیں کہ کانگریسی حکومت میں دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ تلنگانہ کے مسلمانوں نے کے سی آر کا یقیناًسپورٹ کیا ہے لیکن جنرل الیکشن میں جب پورے ملک میں کانگریس اور بی جے پی کا مقابلہ ہوگا یا اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے بی جے پی کا مقابلہ ہوگا تو اس وقت مسلمانوں کیلئے کانگریس یا اپوزیشن اتحاد کے سوا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوگا۔ تلنگانہ کے دونوں لیڈروں نے چندر بابو نائیڈو کو دھمکی دی ہے کہ وہ آندھرا میں بھی الیکشن لڑیں گے۔ جہاں تک آندھرا میں الیکشن لڑنے کا معاملہ ہے تو ہر کوئی الیکشن لڑسکتا ہے۔ اگر یہ دونوں اپوزیشن اتحاد کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں اور آواز بلند کرتے ہیں تو یہ آواز اَن سنی کر دی جائے گی۔ میرے خیال سے اسدالدین اویسی کو کم سے کم کانگریس کے خلاف اب نہیں بولنا چاہئےکیونکہ اس وقت بی جے پی سے ملک گیر پیمانے پر کانگریس ہی مقابلہ کر رہی ہے۔ اویسی نے راہل گاندھی کے ایک بیان پر جو تبصرہ کیا ہے اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین(MIM) بی جے پی کی سی ٹیم ہے۔ انتخابی میدان میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں لیکن اویسی کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بی جے پی کیلئے نہ معاون ہیں اور نہ بی ٹیم ہیں اور نہ سی ٹیم ہیں۔ اس لئے کہ جب وہ فرقہ وارانہ انداز میں تقریر یا گفتگو کرتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ فرقہ پرست بی جے پی کو ہی جاتا ہے، خواہ وہ مانیں یا نہ مانیں۔ راہل گاندھی کے علاوہ مسلمانوں کا ایک باشعور طبقہ اس حقیقت کو مانتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسدالدین اویسی مسلم نوجوانوں میں ایک مقبول لیڈر ہیں مگر ان کے بھائی اکبرالدین اویسی جس طرح کے سیاسی کردار کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کیلئے سراسر نقصان دہ ہے اور فرقہ پرستوں کیلئے سود مند ہے۔ تین ریاستوں کے انتخابی نتائج سے یقیناًمسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن مسلمانوں کو یہ سوچنا ہے کہ جو فرقہ پرستی اور فسطائیت کا ماحول ساڑھے چار سال میں ملک میں پیدا کیا گیا ہے، اُس کی جڑیں اتنی گہری ہوگئی ہیں کہ صرف حکومتوں کے بدلنے سے ہی وہ ختم نہیں ہوں گی۔ کسی پارٹی پر ذمہ داری ہو یا نہ ہو مسلمانوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس ماحول کو عقل وفہم سےبدلنے کو ہر ممکن امن پرورانہ کوشش کریں۔ یہ ماحول دو ہی طرح سے بدلے گا: ایک تو مسلمان ملک میں بہتر اخلاق و کردار پیش کریں تاکہ ملک بھر میں جو ان کے بارے میں منفی شبیہ بنائی گئی ہے ،وہ بدل جائے۔ دوسرے یہ کہ برادرانِ وطن سے میل ملاپ، ربط ضبط، پیار محبت کا سلسلہ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ملک میں جو مسلم تنظیمیں ہیں ان کا کام بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں جو غلط رائے عامہ تیار ہوگئی ہے ،اس کو بدلنے کی کوشش کریں اور جو لوگ فسطائیت اور فرقہ پرستی کے خلاف لڑ رہے ہیں، جان دے رہے ہیں اور اپنی کوشش میں کوئی کمی نہیں کر رہے ہیں تنظیموں کو چاہئے کہ مسلمانوں کو اس کوشش اور جدوجہد میں شامل کریں۔ 2019ء کا لوک سبھا الیکشن بہت اہم ہے۔ ملک، دستور اور انسانیت سب خطرے میں ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیاپیارا دیس بھاجپا مُکت ہوگا؟
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068