جموںوکشمیر کی صورتحال اور بگڑے حالات کے بہ سبب ریاست کے اندر ہی نہیں بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ان حالات کے حوالے سے مباحث اور مذاکرے ہوتے رہتے ہیں ۔ اس میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پربھی ہمہ وقت لے دے ہوتی رہتی ہے۔ مسائل پر مباحث کا معرض وجود آنا ایک فطری امر ہے لیکن ان مباحث میں کھینچاتانی کرکے ایسےنتائج برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں جنکی کہیں کوئی بنیاد نہیں ہوتی اور نتیجتاً مجموعی طور پر اس سے صورتحال سدھرنے کی بجائے اس میں بگاڑ کے خدشات پیدا ہونے کا احتمال لگا رہتا ہے۔ چند روز قبل ریاست کے گورنر نے بھی اس باات کا برملا شکوہ کیا کہ جموںوکشمیر کے حوالے سے بات کرتے وقت ایسی دور کی کوڑیاں ملانے کی کوشش کی جاتی ہے جنکا کہیں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر میڈیامباحث میں ریاست کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا اور بیرون ریاست جموںوکشمیر کے عوام کواس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے وہ انسان نہیں بھوت پریت ہوں۔ریاستی عوام خاص کر کشمیر کے لوگ برسہابرس سے یہ دہائی دیتے آرہے ہیں کہ انہیں ملکی سطح پر بدنام کرنے کےلئے کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جاتا ہے، خاص کر دائیں بازو نظریات کی حامل بڑی چھوٹی سبھی جماعتوں نے اپنے مفادات کی غرض سے جیسے محاز کھول کر رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے مقامی مسائل اور معاملات سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کےلئے کشمیر کے حالات کو اُچھال کر اُسے فرقہ واریت کے روپ میں پیش کرکے بدنامی کی اس مہم کو عام کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھائے رکھتے۔ اس مہم میں الیکٹرانک میڈیاچینلیں ایک دوسرے پر سبقت لینے کےلئے ریاست کے اندر پیش آنے والے واقعات کو اپنے سیاق و سباق سے ہٹ کر ایسے اشتعال انگیز انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں ریاست کی نمائندے کرنے والے لوگ بھی اس اشتعال کا شکار ہو کر انکے مخفی عزائم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بھلے ہی گورنر ملک نے یہ رائے اپنے انداز فکر کےمطابق پیش کی ہو لیکن اس سے یہ حقیقت آشکا ر ا ہوئی کہ جموںوکشمیر کے باہر جموںوکشمیر کے بارے میں جو کچھ کہا جارہا ہے وہ سب سچ اور حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔بدنامی کی اس مہم کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ملک کی کئی ریاستوں میں، حتاکہ جنوبی ہندوستان میںبھی ، جہاں عمومی اعتبار سے فرقہ وارانہ حالات قدرے بہتر رہے ہیں، ریاست ، خصوصاً کشمیر سے تعلق رکھنے والے تاجرو ں اور طالب علموں کےخلاف کھلم کھلا جارحیت کے واقعات پیش آئے ہیں اور سوشل میڈیا پر اُبھارے جانے والے معاملات اور مسائل کے حوالے سے انہیں جکڑنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس میں غیر سرکاری حلقوں سے ساتھ ساتھ وہاں کے امن و قانون کے ادارے بھی پیش پیش رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں سابق سرکار کے ساتھ ساتھ موجودہ انتظامیہ نے بھی کئی مرتبہ بیرون ریاست سرکاروں کے ساتھ یہ معاملات اُٹھائے ہیں۔ یہ ساری صورتحال اس امر کی متقاضی ہے ریاست کے اندر قیام امن کے حصول کےلئے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو روایتی طریقۂ کار سے ہٹ کے ہو اور جس میں سبھی سیاسی سماجی اور تجارتی حلقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اب جبکہ گورنر راج کا اختتام ہو گیا ہے اور ریاست میں صدر راج کا نفاذ عمل میں آیا ہے ریاستی گورنر اور انکی انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صدر جمہوریہ کے ساتھ یہ معاملہ اُٹھا کر کشمیریوں کو بدنام کرنے کی اس مہم کو قابو کرنے کی کوشش کریں۔ بصورت دیگر اگر یہ سلسلہ چلتا رہیگا تو یقیناً یہ حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے اور قدرتی طور پر نئی نسل کے اندر انتہا پسندانہ جذبات ابھرنے کی راہ ہموار ہوگی ۔ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کہیں ایسے اداروں کے مفادات ایسی صورتحال سے وابستہ تو نہیں اور اگر ایسا ہے تو اسے قابو کرنے کےلئے خلوص نیت سے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے، جس میں یقینی طور پر سنجیدہ فکر سیاسی و سماجی حلقے اپنا تعاون پیش کرنے سے نہیں کترائینگے۔