یہ د نیا ایک ہوتی تو اچھا تھا، پھر اسے ایک ہی نظر سے دیکھا جاسکتا تھا مگر اس کے اندر بے شمار دنیائیں بسی ہیں:انسانوں کی دنیا ہے، پرندوں کی دنیا ہے، درندوں کی دنیا ہے،جانوروں کی دنیا ہے، یعنی نباتات کی دنیا ہے، جمادات کی دنیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔اگر انسانوں کی دنیا ہے تو پھر اس کے اندر بھی اور دنیائیں ہیں: اس میں مردوں کی دنیا ہے، عورتوں کی دنیا ہے، بچوں کی دنیا ہے، مسلمانوں کی دنیا ہے، غیر مسلموں کی دنیا ہے، سادھوؤں کی دنیا ہے، شیطانوں کی دنیا ہے، فلمی دنیا ہے، جرائم کی دنیا ہے، ادبی دنیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پھر یہ جو ادبی دنیا ہے اس میں بھی اور دنیائیں ہیں: شاعروں کی دنیا ہے، کہانی کاروں کی دنیا ہے، اخباری دنیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔بہرحال جو بھی دنیا میں ہے، اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے موجود ہے، شطرنج کے مہروں کی طرح! بادشاہ اپنی طاقت کی علامت ہے اور پیادہ اپنے دائرہ اختیار میں متحرک ہے مگر آخر میں بادشاہ اور پیادہ ایک ہی ڈبے (قبر)میں ڈالے جاتے ہیں۔
ادبی دنیا میں بھی تقریباً شطرنج ہی کی طرح لفظوں کے کھیل کھیلے جاتے ہیں، مہارت ہو تو ہونٹ پھیل بھی جاتے ہیں اور سکڑ بھی جاتے ہیں۔ کئی بار مجھے اپنے ہی لفظوں نے رُلایا بھی ہے اور ہنسایا بھی ہے! لفظ انقلاب(ا ظہار) کا نام ہے، لفظ قلم کار کی پناہ گاہ ہے، اگر لفظ نہ ہوتا تو ادیب گھٹ گھٹ کے مرجاتے! ادیب لفظوں سے دروازے اور کھڑکیاں بھی بناتا ہے، لفظوں کے میناروں سے محبت کی اذانیں بلند ہوتی ہیں، لفظوں کے حجروں میں رہ کر دلوں کا غبار بھی نکالا جاتا ہےمگر لفظوں کو بنانا آسان کام نہیں ہے۔ آج 'ادیبوںکی اتنی کثرت ہے جتنا کہ جھوٹ! اسی لئے اکثر 'اُدبا جھوٹے ہیں۔ وقت ایسا آیا ہے کہ پیر اور مرید دونوں پیسوں اور شہرت کے رسیا ہیں، قلم کار اور مکار میں بھی فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ باتوں کی آزادی چھن گئی! اب لفظ بھی خود مختار نہیں رہا! درد کو آہ کی ضرورت تھی تاکہ شدت دھیمی پڑجائے مگر اب تو گلے بھی بیٹھ گئے ہیں!
وہ پوچھتے ہیں درد کہاں ہوتا ہے؟
ارے بھائي، ایک جگہ ہو تو کہوں یہاں ہوتا ہے!!!
ایک دن اپنا ایک دوست ملا، بولا: کیسے ہو بھائی؟ میں نظم کے موڈ میں تھا تو نظم میں اپنی حالت بیان کردی، میں نے عرض کی ؎
ہمارے نصیب میں نہ رونق تھی
نہ ہی تھا پیار کوئی زندگی میں
نہ سایہ تھا، نہ ٹھنڈک تھی
دیدئہ تر تھے، درد تھا
جھلسنا تھا غضب کی تیز گرمی میں
سہارے خواب کے تھے بس
بناتے تھے محل اپنے پہاڑوں پہ
جنگل میں گھومتے رہتے
ہواؤں میں اُڑا کرتے
کبھی نہروں پہ آکے بیٹھ جاتے تھے
مگرجب آنکھ کھلتی تھی
تو اپنا جھونپڑا پاتے
شہر کی کچی سڑک پر
نکلتے تھے جو آنگن میں
تو کانٹےکاٹ لیتے تھے
تو کتے بھونکتے رہتے
غباربھی تو ستاتاتھا
خموشی سےیہ سب کچھ ہم
صبر سے سہتے رہتے تھے
نظم سن کے میرا دوست بجائے اس کے کہ نظم کے پیچھے میرے درد اور محرومی کے تند وتیز طوفان کو محسوس کرتا، کہنے لگا،:تمہاری نظم سے تو میں بڑا ہی محظوظ ہوا۔ آگے بولا: مگر لگتا ہے اس نظم کے دو بند کسی اور شاعر کی نظم میں بھی دیکھے ہیں۔ میں پہلے ہی اس دوست کے پہلے والے ریمارک کی کم ظرفی پر غصے میں تھا، اس کے دوسرے ریمارک سے تو جل بھن کر کباب ہی ہوا۔ میں نے کہا: ممکن ہے تمہارا کہنا سچ بھی ہوگا مگر وہ شاعر بےچارہ بھی میری ہی طرح بدنصیب رہا ہوگا!بہرحال اب آگے بڑھتے ہیں۔ انسان کبھی کبھی لکھتے لکھتے ترنگ میں آتا ہے تو نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے اور یوں بات سے بات بن جاتی ہے۔جس چیز سے زندگی جڑی نہ ہو وہ چیز ترقی نہیں کرتی۔ زندگی سے جو چیز زیادہ اور قریب سے جڑی ہے، وہ انسان کی ایسی ضرورتیں ہیں جن پر زندگی کا دارومدار ہے۔ ایسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جس وسیلے کی حاجت ہوتی ہے ،وہ روزگار ہے۔ اسی لئے معاش سے جو چیزیں جڑی ہیں، وہی دنیا میں ترقی کررہی ہیں۔ یہی حکم زبانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جس زبان میں معاش کی زیادہ ضمانت ہو، مواقع اور امکانات بھی زیادہ ہوں ،وہ زبان پھلتی پھولتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے۔ سرکاری امداد سے زبانیں نہیں چلتیں بلکہ اُس سے چند لوگوں کے گھر چلتے ہیں۔ اس نوعیت کا سرکاری امداد ایک طرح کا صدقہ ہوتا ہے۔ خیرات پر زبانیں زیادہ دیر نہیں چلتیں بلکہ اس خیرات سے سرکار چند لوگوں کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتی ہے۔ ’’خیراتی زبانوں کےخیراتی ادیب‘‘ مزاروں کے ایسے مجاوروں کی مانند ہوتے ہیں جو لاکھ ضیافتیں کھائیں مگر وقار کی میزان پر اُن کا پلڑا کتنا بھاری ہوتا ہے، اُس کی وضاحت محتاجِ بیان نہیں۔ یہ سچ ہے کہ اردو کی کوئی سرزمین ہے ہی نہیں۔ یہ زبان دو سیلنڈروں پر سانسیں لے رہی ہے: ایک یہ کہ اس میں اسلامی لٹریچر بڑی مقدار میں موجود ہے اور دوسرے یہ کہ اس زبان کو اقبالؔ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمان اقبالؔ کو مرنے نہیں دیں گے اور جب تک اقبالؔ زندہ ہیں اردو مر نہیں سکتی، مگر اس زبان کے ترقی کرنے اور فروغ پانے کے امکانات کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں بلکہ تاریک ہی نظر آتے ہیں۔
اُردو زبان کو اِس کے نام لیواؤں نے محض رومانی شاعری، جنسی نثر اور مشاعروں تک محدود رکھا اور یہ ثابت کیا کہ ان میں اس سے آگے اس زبان کو لے جانے کی استعداد نہیں۔ اگر اس زبان کو زندگی کی ضرورتوں سے جوڑنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئی ہوتیں تو اس میٹھی مہک دار زبان کو فروغ مل گیا ہوتا۔ ایک بزرگ نے کہا ہے کہ دین کے چھ ارکان ہیں، پانچ تو سب جانتے ہیں چھٹا رُکن روٹی ہے اور چھٹا رُکن اتنا اہم ہے کہ اس پر باقی پانچ کا مدار رہتا ہے۔
بابا فریدالدین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
پنج رُکن اسلام دے، تے چھیواں فریدا تک
جے لبھے نہ چھیواں، تے پنجے ای جاندے مک
یعنی وہ روٹی کو زندگی سے جوڑ رہے ہیں اور روٹی کو یہاں زندگی کا استعارہ بنایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دین کے ارکان کا مدار انسانی زندگی پر ہے کیونکہ غربت میں ایمان کو بھی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔
اردو زبان اب بے چاری بن گئی ہے۔ لے دے کے اب یہ کشمیر میں بولی جارہی ہے اور یہاں ہی اس کے خیر خواہ زیادہ ہیں جو اسے مرنے نہیں دیتے مگر زبان سیکھنے سے وہ زباں دان ہوسکتے ہیں ،اہل زباں نہیں بن سکتے۔ اس لئے دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی لوگوں کے ہاتھوں اس بے چاری کا اکثر’’ زد وکوب‘‘ ہورہاہے۔ یہ یہاں کے گھروں میں بھی آئی ہے مگر وہاں بھی یہ’’ لہولہاں‘‘ ہی ہورہی ہے،باہر کی دیگر ریاستوں میں جو اس کے’’ خیر خواہ‘‘ بنے ہیں ،انہوں نے اسے اپنا سیاسی سرمایہ بنالیا ہے۔ چند ایک نے تو اس پر پیسہ مارنے کا طریقہ یا فن سیکھ لیا ہے۔ سرکار جو گرانٹ اس زبان کی ’’ترقی اور فروغ‘‘ کے لئے دے رہی ہے، اُس کی تقسیم سے عام آدمی ناواقف ہے۔ اگر لوگ اس زبان کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے بل پر کوشش کریں، سرکاری گرانٹ پر لوگوں کے جو شبہات ہیں اُنہیں دور کیا جائے، ورنہ عام تاثر یہی ہے کہ اس زبان کی ترقی اور فروغ کو حیلہ بہانہ بنا کر کچھ لوگ اپنے ذاتی اغراض ومفادات کی تکمیل کررہے ہیں۔ اگر اپنی ذات کی مثال دینا شجر ممنوعہ نہیں ہے تو یہ عرض کروں کہ میں نے17 کتابیں لکھیں ،جن میں 6 ؍اردو میں ہیں جو ادب، تصوف اور دیگر موضوعات پر ہیں۔ کسی ’’اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان‘‘ سے مجھے ایک بھی پیسہ نہیں ملا۔ یہی حال یہاں کے اکثر وبیش تر ادیبوں کا ہے۔
اب رہاکشمیری زبان کا معاملہ!حضرت!جبر اور زبردستی سے کسی آدمی کو کسی زبان کی طرف مائل نہیں کیا جاسکتا۔ حالات وواقعات گواہ ہیں کہ ایسے تجربے ناکام ہوئے۔ جیسا میں نے آگے عرض کیا کہ زبان کی ترقی اور فروغ کے لئے ضروری ہے کہ یا تو اِس کے ساتھ انسان کا شکم (یعنی معاش) جوڑا جائے، یا مذہب کو اس سے متعلق کیا جائے یا اسے تفریحی وسیلہ بنایا جائے، تب جاکے ممکن ہے کہ زبان کو فروغ ملے اور یہ ترقی کر کے پھل پھول سکے۔میں جو کہہ رہا ہوں یہ محض میرے خیالات ہیں ،کوئی الہامی کلمہ نہیں کہ میری گفتار کو حتمی یا پتھر کی لکیر مانا جائے اور نہ ہی میری بات کوئی عالمی صداقت ہے جو تنقید سے بالاتر ہو ۔ یہ میرے ذاتی خیالات ومحوسات ہیں جو میرے تجربات پر محیط ہیں، اور میں اپنی ذات کے بغیر کسی کی نمائندگی نہیں کرتا۔
نئی دہلی کے لاجپت نگر علاقے میں جس شخص کا آناجانا رہا ہو ،وہ یہ بات جانتا ہوگا کہ وہاں دوکانوں پر جو بورڈ لگے تھے وہ ہندی یا انگریزی میں ہوتے تھے، اردو میں کوئی نہیں ہوتا تھا۔ جب سے وہاں افغانیوں کی ریل پیل شروع ہوئی ہے تو انہیں اپنی طرف راغب کرنے کے لئے اب وہاں کے بیش تر دوکانداروں نے، جن کی اکثریت ہندؤں پر مشتمل ہے، اپنی دوکانوں پر اردو اور فارسی میں لکھے گئے بورڈ لگائے ہیں، کیونکہ اب اس زبان سے معاش جڑ گیا۔ اس طرح اگر ایک مہم شروع ہوتی ہے کہ صرف اُن دوکانداروں سے چیزیں خریدی جائیں گی جن کے دوکانوں کے بورڈ کشمیری زبان میں لکھے ہوں تو آپ لازماًدیکھیں گے کہ پورا کشمیر ہی آپ کو کشمیری زبان کا ترجمان دکھائی دے گا۔سینکڑوں برس کی مسلسل محنت سے یہ کشمیری زبان بنی ہے اور یہی ہماری شناخت اور یہی ہماری تہذیب ہے مگر کیسے اس کو دوبارہ لوگوں کے دلوں کے قریب لایا جائے، اُس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا بلکہ اس زبان کی ترقی کو وسیلہ بناکر چند ایک حضرات اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کرتے رہے ہیں اور اس کو اپنی شکم پروری کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔ ہندی کے ساتھ حکومت نے مذہب، تفریح اور معاش جوڑدیا۔ سائن بورڈ اسی زبان میں لکھے گئے۔ آپ دیکھئے یہ زبان کہاں سے کہاں پہنچی!کشمیری زبان سے جب تک تفریح جُڑا رہا ،یہ لوگوں کے قریب تھی۔ رسول میرؔ، محمود گامیؔ، مہجورؔ ، حبہ خاتونؔ کے گیت آج تک ہماری خواتین کو یاد ہیں، رحمٰن راہیؔ، فراقؔ، امین کامل ؔکی شاعری کو کہاں ایسی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی؟ لل دید اور شیخ العالمؒ کی شاعری گھر گھر میں ہے کیونکہ اس کے ساتھ مذہب متعلق ہوگیا بلکہ تبرکاً ان کا کلام فریم کرکے دیواروں پر لٹکایا جاتا ہے۔ بہرحال !!!……………. ؎
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے