بتایا جاتا ہے کہ مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے جب تخت سنبھالا تو روایت کے مطابق قاضی القضاہ نے اُسے حلف دلایا اور کہا: بولئے کہ میں اپنے وطن کو ماں کا درجہ دوں گا۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ میں اپنے وطن کو محبوبہ کا درجہ دوں گا۔ قاضی القضاہ نے پوچھا،:ماں کا درجہ کیوں نہیں؟ باشاہ ظفر بولے:کیونکہ ماں کے لئے کوئی جان نہیں دیتا، مگر محبوبہ کے لئے جانیں دی بھی جاتی ہیں اور جانیں لی بھی جاتی ہیں!
ذرہ ٔبے مقدار بہادر شاہ ظفر کا یہ محبوبہ والا 'شبد گائے کے لئے استعمال تو نہیں کرسکتا کیونکہ بعض دھارمک حلقوں میں گائے کو ماتا کا ہی درجہ حاصل ہے، اگرچہ نہیں کہہ سکتا کہ جو جانیں اس پر گئیں انہیں تاریخ کس کے 'درجے پہ رکھے گی۔ میں نے سوچا جو بھی ہو، گائے متبرک شئے ہو کہ نہ ہو مگر میری ذات اس 'ذات سے ایسے جڑی ہے جیسے ’’ذات پات‘‘ کے گن گان میں مودی جی کے ساتھ ’’چائے پکوڑے‘‘ جڑے ہیں اور مجھے ’’فنا فی البقر‘‘ کا ’’اعزاز‘‘ بھی کچھ دوستوں سے ملا ہے۔ چنانچہ اس ناکارہ خلائق نے ادب وتعظیم کا لحاظ رکھتے ہوئے گائے پہ یہ مضمون باوضو ہوکر لکھا۔ اس لئے اگر گائے پر میرا یہ مضمون باوضو ہوکے ہی پڑھا جاتا تو کم سے کم یہ اُمید بندھ جاتی کہ اس پر جن آرا کا اظہار ہوگا ،اُس میں شائستہ زبان اور پیار کا سلیقہ ہی ہوگا، ورنہ میرے مضامین میں کچھ گلے کچھ شکوے، کچھ شکایات کچھ حکایات اور کچھ لوگوں کے واقعات درج ہونے کی خطاکاری پر جتنی مقدار میں گستاخانہ محاورات کچھ دوسروں نے مجھ پر نچھاور کئے ، اتنی اگر ہماری ریاست کی پیداوار ہوجائے تو خود کفالت میں ہم واشنگٹن کو بھی پیچھے دھکیل دیں!حال ہی میں ایک شخص نے مجھ سے فرمائش کی کہ سائیں، کوئی اچھا سا شعر سنائیں جو وقت کے تقاضوں کے مطابق بھی ہو۔ میں نے آج کے ٹیکنالوجی کے اس دور میں 'سائیںکے تخاطب کو غنیمت جانا اور اسے شعر سنائے ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
آئی ملن کی بیلا آئی
ہندو مسلم سکھ عیسائی
آپس میں ہیں بھائی بھائی
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
میں نے کہا کیسا لگا؟ وہ بولا:لگا تو خوب ہے مگر اِس کا شانِ نزول کیا ہے؟‘‘چنانچہ میں نے اپنی کتابِ حیات کے ایک سنہری باب کو ذرا تفصیل سے بیان کیا اور کچھ اس طرح کیا:’’ہوا یہ کہ جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا تو پڑھتا کم مگر خواب دیکھتا زیادہ۔ کبھی فلمی ہیرو بننے کی خواہش ہوتی اور کبھی ڈائریکٹر بننے کی آرزو! کبھی ڈاکٹر بننے کا خواب اور کبھی خوابوں میں ملک کا وزیر اعظم بنتا۔ چنانچہ میں کچھ بھی نہ بن سکا۔ وجہ یہ نہ تھی کہ میں نااہل تھا، ہرگز نہیںکیونکہ نااہل نیند تو کرلیتا ہے مگر خواب دیکھ نہیں سکتا۔ نااہل میں تخیل کی پرواز کہاں کہ خوابوں کی دنیا میں جاسکے؟ وہ کبھی کبھی نیند میں کچھ تماشے دیکھ تو لیتا ہے اور انہیں ہی خواب سمجھ لیتا ہے۔ جو اصل خواب دیکھنے والے ہوتے ہیں وہ انہیں کھلی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں۔ایک ایسے ہی خواب دیکھنے والے نے ایک دن اپنے دوست سے کہا: میں مادھوری ڈکشت سے شادی کررہا ہوں۔ دوست نے حیرت سے کہا: مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ وہ شخص بولا: تم تو ممکن اور ناممکن کے جھمیلے میں پڑگئے، یہاں تو نصف بات طے ہوچکی ہے۔ وہ دوست زیادہ ہی حیرت میں پڑگیا ، پوچھا:وہ کیسے؟ اس شخص نے کہا:وہ ایسے کہ میں بالکل تیار ہوں، اب صرف مادھوری ڈکشت کا ’’ہاں‘‘ کرنا باقی ہے!میں اپنے گمان میں بہت کچھ بننے کے باوجود اس لئے دوسروں کی دانست میں کچھ نہ بن سکا کیونکہ میرے کچھ نہ بننے کی وجہ یہ تھی کہ میرے مقدر میں جو اساتذہ آئے وہ مجھ سے آٹھویں جماعت تک صرف گائے پر مضمون لکھواتے رہے۔ اُس کی بھی ایک وجہ تھی، وہ یہ کہ خدا کے یہ بندے جو مجھے پڑھارہے تھے ،وہ خودگائے کے محور پر رہ کر اورکچھ زیادہ نہ پڑھ چکے تھے، نہ ہی اس کے آگے جاچکے تھے۔ یہ گائے کرتی کیا ہے اور کو نسی شئے ہے؟ یہ انہی اساتذہ کرام کے آگے اپنے زانو تہہ کرنے کے بعد معلوم ہوسکا۔ قوم کے ان معماروں اور علم وادب کے میناروں نے آٹھویں جماعت تک مجھ سے گائے پر مضمون کچھ اس طرح یاد کروایا کہ آج بھی جب نسیاں نے میرے دماغ کو یوں دبوچ لیا ہے جیسے ڈاکٹر عبداﷲ نے نیشنل کانفرنس کو، میں گائے پر مضمون نہیں بھولاہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی میں ووٹ ڈالنے گیا گائے کا انتخابی نشان ہی ڈھونڈھا اور جب نہ ملا تو ’’نوٹا‘‘ پر مہر لگائی مگر اللہ تعالیٰ کی لاکھ لاکھ حمد وثنا، اور گائے کا بھی ہزارہا ’’دھنو اد‘‘ کہ کوئی گگوئی جی نہ ملا اور یوں گائے کی برکت سے کسی جیب کے بونٹ پر نہ بندھنے پایا!
ۭرب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
گائے پر مضمون میرے دل پر کچھ ایسا نقش ہوا ہے کہ جب بھی سر عبودیت خم تو گائے جگالی کر تے ہوئے سامنے آئی ۔اب تو حالت میں قدرے افاقہ ہوا ہے۔ اساتذہ کرام نے آٹھویں تک گائے پر مضمون یاد کرانے میں ایسا محو کرادیا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا کہ گائے کوئی اورمخلوق نہیں بلکہ میں ہی گائے ہوں۔ درویشوں نے میری والدہ سے یہ تک کہہ دیا تھا کہ تمہارا فرزند’’ فنا فی البقر‘‘ہوگیا ہے۔ ایک دن میں نے اُستاد محترم کو کچھ سبزی ہدیاً دے دی ۔ انہوں نے مجھے وہ سبزی اُن کے گھر چھوڑنے کی ہدایت دی۔ اُن کے گھر پہنچا تو دروازے پر ہی رُک گیا۔ استاد محترم کی اہلیہ محترمہ نے پوچھا: تم اندر کیوں نہیں آتے؟ میں نے کہا:خالہ کیسے آؤں میرے سینگ دروازے سے لگ رہے ہیں۔ بعد میں سنا محتر مہ نے اپنے خاوند یعنی میرے استاد محترم کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر یہ لڑکا (یعنی میں) دوبارہ اُن کے گھر میں آیا تو وہ میکے بھاگ جائے گی۔ پھر میرے اُستاد محترم نے مجھے نصیحت کی کہ آئندہ کچھ ہدیاًدینا ہوتو نقد ہی دیا کروں اور وہ بھی کلاس میں تاکہ دوسرے کم ظرف لڑکوں کو بھی یہ تحریک ملے کہ اُستاد کا بہت حق ہوتا ہے، ادب وتعظیم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ میرے بچپن میں اساتذہ آج کل کے ماسٹروں جیسے مخلوق نہیں ہوتے تھے۔میں نے خود دیکھا ہے کہ جب میرا استاد محترم کبھی میری موجودگی میں اپنی اہلیہ سے کچھ راز ونیاز کی بات کر نے لگتا تو ڈانٹ پلا کر مجھے گائے پر مضمون یاد کر نے کا آدیش دیتا اورمیں نظریں نیچے رکھ کر گائے گائے گائے کی رَ ٹیں لگاتا۔پھر گائے کا مضمون مجھے ایسا اَزبر ہوا کہ چار شادیاں ہوکے بھی میں واحد سے جمع نہ بن سکا کیونکہ کوئی شریک حیات میرے ساتھ گزارہ کرنے پر تحمل نہیں کرسکی۔ ہر صاحبہ بس ایک ہی الزام دے کر بھاگ جاتی کہ میں سوتے میں گائے کا مضمون پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ ان کم ظرفروں نے نہ جانے کن ماسٹروں سے پڑھا ، اس لئے ڈھنگ سے الف با بھی نہیں پڑھ پاتیں! جب مجھے صحیح تلفظ، معانی ومعارف اور استحضار کے ساتھ گائے پر مضمون پڑھتا دیکھ لیتیں تو جل جاتیں! ایک روز کسی تعزیتی اجلاس میں لوگوں نے مجھے بھی اپنے وچار بیان کرنے پر اصرار کیا۔ میں نے گائے پر مضمون کہہ سنایا۔ مجھے لگا کہ ایک بھی سوگوار تعزیہ دار کے کچھ پلے نہ پڑا، کیونکہ گائے کے معانی ومعارف وہ بھلا کیا سمجھ پاتے ۔ ایسے کم ہی لوگوں کو دیکھا ہے جنہیں ایسے اساتذہ ملے ہوں جو نعمتیں مجھےملیں ،اسی لئے گائے پر مضمون بھی زیادہ لوگوں کو یاد نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب مجھے کسی کا خط ملتا ہے اور اس میں آدابِ خطابیت کا خیال رکھتے ہوئے میرے اسم گرامی کے ساتھ مد ظلہ العالی یا دامت برکاتہم جیسے دعائیہ یا تعظیمی کلمہ لکھا ہوتا ہے تو میں مراسلہ نگار کو جواب میں نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ خط لکھنے کی نوبت آئے تو خیال رہے کہ میرے نام کے ساتھ مدظلہ العالی یا دامت برکاتہم جوڑنے کے بجائے میری حیات مبارکہ میں ہی مجھے رحمتہ اللہ علیہ لکھا کریں تاکہ لوگوں کے فہم وشعور کے تھیلے میں گائے کا بھوسہ معارف ومعانی کے ساتھ نقش رہے ، چاہےوہ زندگی میں ہی مرحوم و مغفور کے درجے پر پہنچتا ہے یا پہنچادیا جاتا ہے۔گائے پر جو مضمون میں نے یاد کیا تھا یا یوں کہئے کہ مجھ سے رَٹے لگا کر یاد کروایا گیا تھا اُس میں گائے کی چا رٹانگیں بتائی گئی تھیں۔ ایک روز جب میں استاد محترم کے ساتھ کہیں جارہا تھا تو میں نے ایک’’ گائے‘‘ کو مٹکتے ہوئےچلتے دیکھا جس کی صرف دو ٹانگیں تھیں۔ میں نے استاد محترم سے کہا: حضرت یہ جو ’’گائے‘‘ ہماری طرف آرہی ہے، اس کی تو صرف دو ٹانگیں ہی ہیں ، آپ گائے کی چار ٹانگیں بتاتے ہیں! اُستاد محترم کو بڑا غصہ آیا ، کہا: اَبے نالائق یہ گائے کہاں ہے یہ تو بھینس ہے!
ایک دن میں جہانگیر زماں ڈاکٹر فاروق صاحب کے پاس گیا ، عرض کی حضرت! میں گائے دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ بولے: اس کے لئے تم میرے پاس ہی کیوں آئے؟ میں نے وضاحت کی کہ حضرت آپ کا انتخابی نشان ہل ہے تو میں نے سوچا گائے بھی آپ ہی کے پاس ہوگی۔ فاروق صاحب بولے:ہاں، اپنا قومی نشان ہل ضرور ہے، اسی لئے میں بیلوں کو پال رہا ہوں مگر گائے آپ کو کانگریس والوں کے پاس ملے گی۔پھر میں کانگریس والوں کے پاس گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ سوزؔ صاحب چلتے بنےہیں اور اب کوئی میر پارٹی کاامیر ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کے صدر کیوں بدلتے رہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے صدور آئین میں ترمیم کے موافق ہیں ،اس لئے بدلتے رہتے ہیں۔ میں نے پھر اپنا مدعا بیان کیا کہ مجھے گائے دیکھنے کی آرزو ہے! انہوں نے حسرت بھرے لہجے میں کہا:اپنے یہاں جو گائیں پالتے تھے وہ وزراء بنے مگر پھر انتخابات میں لڑھک گئے اور اب اُن کی حالت ایسی ہے کہ جب سوتے ہیں تو بقول نذیر جہانگیر ؎
سہم کر جاگ جاتے ہیں، دُبک کر بیٹھ جاتے ہیں!
میرے دل نے گواہی دی کہ گائے ہوگی ضرور۔ اگر نہ ہوتی تو پھر مجھے بیابانوں میں کس کی تلاش ہے؟ پھر جنگلوں میں کسے ڈھونڈ رہا ہوں؟ ان ویرانوں میں پھر میرا کیا کام؟ پھر بازاروں میں میری یہ آوارگی کس لئے؟ میرا دل کہتا ہے کہ مجھے ایک دن گائے ضرور ملے گی۔ بس مجھے گائے کی تمنا ہے، اسی کی آرزو میں جی رہا ہوں! ورنہ اگر گائے نہیں ہے تو پھر میری زندگی بےکار ہے، بے مقصد ہے۔میں بچپن سے ہی گائے پر مضمون یاد کرتا رہا ہوں۔ گائے میرا مقصد ہے، میری منزل ہے۔ یہ بات بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ جب پہلی شادی ہوئی تو ماں باپ نے میری پسند کے بجائے گھر کی ضرورت کو ترجیح دی۔ چنانچہ ایک عدد عروسہ لائی گئی۔ نہ جانے میرے ماں باپ کو بندوق کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود گولی چلانے کا شوق کیوں چرایا، مشق کے طور یہ بندوق میرے کندھے پر رکھ دی۔جب پہلی مرتبہ جیون ساتھی کو دیکھا تو اماں سے پوچھا :آپ یہ کونسی مخلوق لائی ہیں؟ وہ بولی:جا پتر گائے پر مضمون یادکرتا جا‘‘۔ میں نے کہا: وہ مشق تو بچپن سے جاری ہے اماں، مگر پھر یہ دلہن لانے کی ضرورت کیوں ہوئی؟ اماں جی بولیں: کیونکہ آج تک گائے پرتیرا یقین غائب ہے ، اب تو گائے تیرے مشاہدے میں رہے گی۔میں نے پوچھا: اماں گائے کی تو چار ٹانگیں ہوتی ہیں، اس کی تو دو ہی کیوں؟ اماں بولی: کیونکہ اس کا بیل بھی صرف دو ٹانگوں والا ہے، وقت بدل گیا ہے۔ میں نے کہا: اماں! واقعی سچ کہا تم نے، وقت بدل گیا ہے، پہلے گائے کو ماں کہا کرتے تھے، اب ماں کو گائے سمجھ رہے ہیں!!بہرحال، دلہن مجھے زیادہ دن مودی ووٹروں کی طرح برداشت نہ کرسکی ، بلا تاخیرمیری مضمون نگاری پر دادِ تحسین کے بجائے اپنے میکے کی پھاٹک کے اندر قیام کو ہی ترجیح دی۔ میرے والدین نے بھی اُسے واپس سسرالی گاؤ شالے میںلانے کی کوئی تگ ودو نہ کی ۔یوں کچھ صبحیں ہوئیں ٗکچھ شامیں ہوئیں اور یہ رشتہ رفع دفع ہوا۔ گائے پر مضمون میں کچھ دنوں تک جمود چھاگیا تھا، وہ ختم ہوا اور میری مشق دوبارہ بحال ہوئی مگر اب بوڑھاپا آچکا ہےٗ اس لئے کئی پریشانیوں نے اپنی گرفت میں لیا ہے۔ گائے پہ مضمون کے سوا اکثر باتوں کو بھول جاتا ہوں۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہا: حضرت مجھے نسیان کا مرض ہے، ڈاکٹر نے پوچھا: کلمہ یاد ہے؟ میں نے کہا: ہاں وہ تویاد ہے۔ ڈاکٹر بولا: اس کے بغیر آج کے دور میں یاد رکھنے کی بات اور ہے ہی کون؟ پھر پوچھا:یہ یاد تو ہے نا کہ کون میری بیوی ہے؟ میں تھوڑا سا گھبراگیا اور وضاحت مانگی :سر آپ کی یا میری؟‘ وہ مسکرایا اور بولا: اپنی ہی کے تحفظ کی خاطر یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ اپنی بیوی کو پہچانتے ہو یا وہ بھی بھول جاتے ہو؟ ‘میں نے کہا: نہیں جناب! اُس کی پہچان تک تو یاداشت باقی ہے اور اگر کبھی دکھائی دی تو پہچان پاؤں گا۔ ڈاکٹر بولا: پھر تم نارمل ہو، اس سے آگے کی پہچان بھی آج کے دور میں کسی کام کی ثابت نہیں ہوتی! میں نے کہا: جناب،!ایک اور پرابلم ہے۔ اُس نے پوچھا :کیا؟ میں نے کہا: جناب !میں اب اونچا سننے لگا ہوں۔ وہ بولا شکر کرو۔ میں نے پوچھا کیوں؟ اُس نے کہا: آج کل بموں کی گن گرج اور گولیوں کی سنسناہٹ کے اور سننے کو ہے ہی کیا؟ یا وہ ہے یا قتل وغارت کی خبریں اور لاشوں کی نفر شماری۔ میں نے کہا: جناب ! سونگھنے کی حِس بھی کمزور پڑگئی ہے، اب یہ پتہ نہیں چلتا کہ کس چیز کی بُو کیسی ہے؟ ڈاکٹر بولا‘ تم پر مولا کا بڑا کرم ہے کہ نعمتیں ہی نعمتیں عطا ہوئی ہیں، سونگھنے کی حِس کاجانا بھی آج کے دور میں نعمت ہی ہے، ہرطرف فضا بارود کی بُو سے ایسے بھر گئی ہے کہ انسان سونگھنے کی حِس سے ہی عاجز آچکا ہے! میں نے کہا: جناب !قوت ِذائقہ بھی بگڑ گئی ہے۔ ڈاکٹر بولا: یہ عام شکایت ہے، جھوٹ کی کثرت اور گالیوں کی عادت نے انسان کے منہ کا ذائقہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ میں نے کہا: مگر جناب !میں تو جھوٹ نہیں بولتا! ڈاکٹر بولا: ایسا کہنا جھوٹ بولنے کا خود ہی بڑا ثبوت ہے۔ میں نے کہا: حضرت نظر بھی کمزور ہوگئی ہے، ہر چیز دُھندلی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر بولا: اس طرح گناہوں سے بچ جاتے ہو اور جہنم سے نجات کی اُمید بندھ جاتی ہے، باہر ننگے جسموں اور گندی سڑکوں کے بغیر دیکھنے کو اور کیا رہ گیا ہے؟
یہ سب سننے کے بعد میں نے رب کا پھر شکر ادا کیا اور یہ طفلانہ وظیفہ دہراتا ہوا گھرلوٹ گیا ؎
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
آئی ملن کی بیلا آئی
ہندو مسلم سکھ عیسائی
آپسمیں ہیں بھائی بھائی
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
������