میرا جرم میری معصومیت ہے ،میرا گناہ میرا عقیدہ ہے ،میرا قصور میرا کشمیر ہے ۔یہ تین بڑے جرائم ، گناہ اور خطائیں ہیں جن کا مرتکب مجھے ٹھہرایا جارہا ہے (اگرچہ زبانوں پر نہیںمگر دل کی کچہریوں سے ہر ساعت اس قسم کے فیصلے صادر ہوتے رہتے ہیں)۔اور یہ کافی ہے میرے لئے زمین تنگ کرنے کیلئے ،مجھے مطعون کرنے کیلئے،دہشت گرد کی لیبل لگانے کیلئے،نفرت کی آگ میں جھونکنے کیلئے ،اپاہج بنانے کیلئے ،میرے چہرے کو بگاڑنے کیلئے اور بینائی چھیننے کیلئے ۔
یہ گناہ ،یہ جرم ،یہ خطاء کوئی اکتسابی چیز نہیں جس کی سزا وار ہوں۔یہ میری کوکھ سے تعلق رکھتے ہیں۔میرے جینیات( Genes)سے منسلک ہیں۔دھرتی کے ذروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ہوا کی لہروںسے بوسہ لئے ہوئے ہیں۔خورشید مبین سے توانائی لئے ہوئے ہیں۔اس لئے سراپا مجسمہ خیر کی دلہن بن کر کیوں نہ آئوں،پنگوڑے سے ہی مسیحائی کی تاثیر لئے ظہور پذیر کیوں نہ ہوں،معصومیت کے ہونٹوں سے خوشیوں کے پھول کیوں نہ بانٹوں،یہ طے ہے کہ کوکھ ،دھرتی اور آسمان سے جڑنے کا جرم میرا حلقہء زنجیر بن چکا ہے ۔اسی لئے اپنے ناکردہ گناہوں سے دامن چھڑانا چاہوں بھی ،چھڑا نہ سکوں۔
میں ابھی اپنے پائوں پر سیدھا کھڑی بھی نہیںہوسکتی ،ماں کی گود سے باہر قدم بھی رکھ سکتی ،حق اور ناحق ،ٹھیک و غلط اور جائز و ناجائزکی تمیز بھی نہیں کرسکتی ،آگ کے انگاروںسے جلنے کی سُدھ بُدھ بھی نہیں رکھتی اور منہ میں نوالہ ڈالنے کا سلیقہ بھی نہیں ،کجا کہ پتھر ہاتھ میں اٹھائوں ،احتجاجی دھرنوں میں حصہ لوں،گرینیڈ کو ہاتھ میںاٹھائوں اور بندوق اٹھائوں۔میرے والد کی باہیں،میری ماں کی پلکیں ،میرے بھائی کی شوخیاںہی میرا امرت ہے ،میرے گھر کے دالان اور چھوٹا صحن ہی میرا کُل کائنات ہے ۔ خوشیوں کا خزینہ میرے گھر کے ان ہی درودیواروں میں پوشیدہ ہے ۔میری زیست کا ہر لمحہ اسی گھر کی مٹی سے گوندا ہوا ہے ۔میں سراپا خیر،مسکن ،مسرت ،مرکز طمانیت ،مجھ سے تو فرشتے بھی بارگاہِ ایزدی میں شرف ِ ملاقات کے دعاگو ہیں،مجھے دیکھ کر پتھر کا کلیجہ رکھنے والا بھی پگھل اٹھتا ہے ،اکڑتی گردنیں بھی شرمسار ہوتی ہیں۔لہو کے متلاشی قاتل بھی راہ بدل ڈالتے ہیںاور حسد و انتقام کی بھٹیاں سلگانے والوں کے ارادوں میں موچ آجاتی ہے ۔میں ہی وہ معصوم اور مقدس جان ہوں جس کا مقدمہ خود خالق کائنات حشر کے روز لڑیں ۔(بتائو تمہیں جس جرم میں مارا گیا)۔بتائو ،تمہاری آنکھوں کایہ نور کن سفاک ہاتھوں نے چھین لیا؟ بتائو،جیتے جی تمہیں کس نے تمہاری ماں کو غم و اندوہ کی ویرانیوں میں دھکیل دیا؟ بتائو،تمہاری دنیا کو کس نے سوگوار بنادیا؟ بتائو ،وہ انسان نما درندے کون ہیں جن کو تمہاری خوبصورتی اور معصومیت ایک آنکھ نہیں بھاتی ؟
یہ وہ سوالات ہیںجن کا جواب طاقت کے نشے میں چُور ظالم و جابر قوتوں کو دینا پڑے گا۔اس عدالت عالیہ میں کسی کو جرم سے بچنے کیلئے کوئی استثنائی اختیارات حاصل نہ ہوں گے۔وہاں سزا و جزا کے دو معیار نہیں ہونگے۔کیا ہوا عالمی ایوانوں میں بیٹھے بہرے اور گونگے منصفوں نے میری مظلومیت اور محکومیت پر اُف تک نہ کیا اور ’’قومی مفادات‘‘کی عینک سے معاملات کو دیکھنے اور اپنا وزن ڈالنے والوں نے چشم پوشی کی ،لیکن انصاف و عدل کی اس عظیم عدالت میں اس قسم کی حیلہ سازیاں،فریب کاریاں اور سیاسی رشوتیں چل نہیں سکتیں۔افسپا اور ا س طرح کے بہت سارے قوانین کے ذریعے تم میری بینائی چھیننے والے ’’سورمائوں‘‘کو قانون و انصاف کی گرفت سے بچا سکتے ہو،مگر اس رسوائی اور خجالت سے نہیں جو انہیں اس دنیا اور آخرت میں دائمی عذاب کی صورت میں بہر کیف ملنے وا لی ہے۔میری آنکھیں ربِ کائنات کا عطیہ ہیں اور نوع انسانی تو کیا ،تمام حشرات الارض کو دی گئیں ہیںتاکہ کائنات کی بُو قلمونی اور خالق کی صناعی کا ادراک ہو،اور ساتھ ہی حصولِ رزق و علم و آگاہی کے راستے میسر آسکیں۔میری آنکھیں میرا نور حیات ہے ،جس کی روشنی میں سفاک چہروں اور خون آشامی کے ان ہاتھوں کو دیکھ سکتی ہوں جو کمزور کو دبوچنے کیلئے ہر آن مستعد رہتے ہیں۔میری آنکھیں میرا مستقبل ہے جن سے میں مکر و فریب کی مسکراہٹوں کے پردے میں چھپے اس حجر شقاوت کو پہچان سکتی ہوں جو میری نابینائی کے قصر پر جھوم اٹھتا ہے ۔ آنکھیں میرا اُجالا ہے کہ جس کا دیپ جلا کر میں تاریکیوں کے سینے سے مسخ شدہ حقائق کو باہر لاتی ہوں ،تاکہ ’’سلطانی جمہور‘‘کا اپدیش سنانے والوں کی زبان و دل کی کھوٹ معلوم ہوسکے اور میں اس مقتل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوںجو اس بد نصیب خطے کے دشت و بیاباں اور شہر و دیہات میں تقریباً روز سجتا رہتا ہے۔
مذکورہ جرائم کو مجھ پر چسپاں نہ کیاجاتا تو میں بھی اپنی معصومیت کی ملوکیت پر ناراں رہتی ۔دنیا کی باقی فرشتہ صورت بچیوں کی طرح خوشیوں اور مسرتوں سے اپنی جھولی بھر دیتی ۔میںبھی خوابوںکی گڑیا سے دن بھر کھیلتی رہتی اورمیرے ماں باپ اور بھائی بہنوں کو کچھ راحت نصیب ہوتی ۔روز عذاب اور تذلیل کی ایک اور قسط لے کر وہ گھر میں داخل ہوتے تو مجھے گد گدائی کرکے اپنے لئے غم ہلکا کرنے کا وسیلہ پاتے ۔لیکن وائے ! اب تو میں گود اور پنگوڑے سے ہی دُکھ اور الم کی جیتی جاگتی تصویر بن کر اپنے گھر والوں پر مسلط کر دی گئی ہوں۔ان کی مصیبتیں کیا کم تھیں ،اب میری مصیبتوں کا بوجھ بھی ان کے کندھے اور کمر خم کرنے کیلئے اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔مجھ میں یہ بتانے کا حوصلہ ہی نہیں کہ میں اب اس ’’وبائی بیماری‘‘کی فہرست کا حصہ بننے جارہی ہوں جس کے شکار لوگوں کے جسمانی و نفسیاتی کرب و دردکو سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال کے امراض چشم کے وارڈ میں نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر نے ’’ An Epidemic of Dead Eyes in Kashmir‘‘کا عنوان دیکر اخبار کو اپنی رپورٹ بھیجی تھی ۔کیا اب میں ان سات ہزار لوگوں میں شامل ہونے جارہی ہوں جن کو پیلٹ مار کر زخمی کردیا گیا اور جن میں گیار ہ سو مستقل بینائی سے محروم ہوچکے ہیں؟
پاسبانوںنے دیپ جلائے ایسے
ہر ذرہ پکار اٹھانابینا ہوں میں
لوہے کے چھرے (pellets)شارٹ گن سے پھینکے جاتے ہیں اور بیک وقت ساڑھے چھ سو کے قریب چھرے اس سے نکل جاتے ہیں جو جسم کے کسی بھی حصے کو چھلنی کردیتے ہیں۔میری ماں مجھے بتاتی تھی کہ یہ پیلٹ گن جنگلی جانوروں اور پرندوں کو شکار کرنے کیلئے بنائی گئی ہے اور دنیا میں کشمیر وہ واحد بد نصیب خطہ ہے جہاں انسانوں(کشمیری مسلمانوں)کے خلاف اس ہتھیار کو استعمال میں لایا جاتا ہے ،حالانکہ دنیا یا بھارت کی دوسری ریاستوں میں بھی کشمیر کی بہ نسبت زیادہ پر تشدد مظاہرے ہوتے ہیں اورسنگ باری ہوتی ہے ۔تو کیا مجھ سمیر ہم سب کشمیری انسانوںکے بجائے جانوروں کے زمرے میں آتے ہیں؟ نہیں ، جانوروں سے بدتر ہمارے ’’کر م فرمائوں ‘‘نے ہمیں شمار کیا ہے ۔جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے پھر بھی منیکا گاندھی سمیت بھارت کی عدالتیں ہیں لیکن یہاں پیلٹ گنوں سے ہلاک کرنے ،اندھا بنانے اور گولیوں سے زندگیاں چھیننے والوں کے خلاف شنوائی کے تمام دروازوں پرافسپا جیسے قوانین کے قفل چڑھادئے گئے ہیں،اس لئے کوئی بھی ایسا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتاجہاں ملوث مجرمین کوقرار واقعی سزا دی گئی ہو۔
مجھے اب معلوم ہواہے کہ میری ماںنے کیوں میری چھوٹی سی آنکھوں کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کی تھی ۔مجھے یاد آرہا ہے کہ جب ہمارے گھر کے بہت باہر مظاہرے ہورہے تھے اور فورسز اہلکار ٹیر گیس ،پیپر گیس اور پیلٹ کی بارش برسا رہے تھے تو سیاہ دھوئیں کے بادل ہمارے غریب خانے کی طرف بھی بڑھتے چلے گئے ۔ماں ،میں اور میرے پانچ برس کے بھائی دھوئیں اور گیس کے پھیلائوسے تڑپنے لگے ،ہمارا دم گھٹنے لگا۔ماں نے اس خیال سے کہ باہر نسبتاً کھلی ہوا ہوگی ،میرے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور مجھے گود میںاٹھا کر تیز قدموں کے ساتھ بیرونی دروازے کا رخ کیا۔جونہی دروازہ کولا ، تین وردی پوش فورسز اہلکاروں کو بندوقیں تان کر کھڑا پایا،پیلٹ گن کے ٹریگر پر ہاتھ کیا پڑا ،ماں نے بھائی کو جھٹکے سے دور کیا اور میری آنکھوں پر اپنے ہاتھوں کی سپر ڈالی لیکن پھر بھی پیلٹ کے چھرے آنکھ میں گھس گئے ۔میں جلن سے تڑپ اٹھی اور آنکھ سے خون بہنا شروع ہوا ۔میری والدہ بے ہوش ہوگئی ۔پھر ہسپتال میں اس کا ہوش آیا۔ڈاکٹروںکی انتھک کوششوں کے باوجودشاید ہی میری بینائی واپس آسکتی ہے ۔میری ماں میری آنکھ کی طرف چِلا اٹھتی ہے ’’اس بچی کا کیا قصور تھا؟ وہ انی چھوٹی ہے کہ اس کو نہیں معلو م باہر کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے ‘‘۔ماں میرے ستم گروں کو بددعائیں دیتی ہے کہ خدا ان سے سخت انتقام لے ۔نہیں ماں ،میرے دست ہائے ستم کو بددعائیں مت دو۔وہ مجبو ر ہیں ، عادت جو ان کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے ۔وہ اپنے جینز(Genes)کے خلاف نہیں جاسکتے ۔ہماری جلد کی رنگت ، عقیدہ اور جغرافیہ کے تئیں ان کے دل میں جس قسم کی ’’محبت‘‘سے لبریز ہیں ،وہاں اس قسم کے ’’خیر ‘‘کی توقع رکھی جاسکتی ہے ۔ میں سرینگر میں امراض چشم کے وارڈ میں دوسری جراحی کے دور سے گزر کر بھی شاید ہی بینائی دوبارہ حاصل کروں اور سوچتی ہوں یہ ’’ہدیہ الفت ‘‘مجھ سے اور جو مجھ سے بڑے ہوں ،اُن کیلئے یقینا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محرومی ہی ’’قومی سلامتی ‘‘کے زمرے میں آتی ہوگی ! مہان دیش کی جے ہو!!
بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر