’’یار۔۔اس سال کیوں نہ ہم سردیوں کی چھٹیوں میں دس دن کے لیے ریاست سے باہر کہیں گھومنے چلے جائیں ۔بولو تم دونوں کی کیا رائے ہے؟‘‘
بھگوان داس نے پی جی کالج کی کنٹین کے باہر لان میں چائے کی چُسکی لیتے ہوئے اپنے دوست اور ہم پیشہ ساتھیوں نیک محمد اور تیترسنگھ سے پوچھا۔
نیک محمد نے جواب دیا۔
’’یار! تیرا خیال اچھا ہے ۔بناو پروگرام تینوں چلتے ہیں دس دن کے لیے ۔ہمارا کالج تو ڈیڑھ ماہ کے لیے بند رہے گا‘‘
تیتر سنگھ نے بھی حامی بھرلی۔اس نے پوچھا’’لیکن جائیں گے کہاں؟‘‘
بھگوان داس بولا ’’میرادل چاہتا ہے ہماچل گھوم آئیں‘‘
نیک محمد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
’’نہیں یار۔۔ہماچل میں بہت زیادہ ٹھنڈ ہوتی ہے ‘‘
تیتر سنگھ نے کہا ’’یار ! میری مانو تو ممبئی چلتے ہیں‘‘
نیک محمد نے کہا’’نہیں۔۔ ممبئی بہت دور ہے۔میری رائے یہ ہے کہ دہلی میں تاریخی عمارتیں اور آگرہ میں تاج محل دیکھ آئیں‘‘
بھگوان داس اور تیتر سنگھ نے نیک محمد کی رائے سے اتفاق کیا اور تینوں خوش ہوئے۔
بھگوان داس،تیتر سنگھ اور نیک محمد تینوں ایک ہی پی جی کالج میں درس وتدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔نیک محمد ادبیات،بھگوان داس سیاسیات اور تیتر سنگھ اقتصادیات پڑھاتے ہیں۔کالج میں ان تینوں کے دوستانہ تعلقات اس تکون کی مانند ہیں جس کے تینوں زاویے برابر ہوتے ہیں۔ان کے مزاج کی ہم آہنگی اور اپنے تدریسی فرائض کی ادائیگی میں خوش اسلوبی کے سبب کالج کے طلبہ وطالبات اور اسٹاف میں انھیں خاصی مقبولیت حاصل ہے ۔تینوں نے متفقہ طور پر دس جنوری سے بیس جنوری تک دہلی کی تاریخی عمارتیں اور آگرہ میں تاج محل دیکھنے کا پروگرام طے کردیا ۔ریل میں سفر کرنے کے لیے ٹکٹیں بنانے کی ذمہ داری بھگوان داس کو سونپی گئی۔پھر وہ دن بھی آیا جب نیک محمد ،بھگوان داس اور تیتر سنگھ دہلی اور آگرہ جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔شام کے سات بجے وہ راجدھانی ایکسپریس میں دہلی جارہے تھے۔مسافروں کی بھیڑ میں انھیں بے ہنگم آوازیں چاروں جانب سے سنائی دے رہی تھیں۔تینوں کے پاس سامانِ سفر بیگ اور اٹیچیوں کی صورت میں تھا۔جونہی وہ پلیٹ فارم پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگے تو نیک محمد کی نظر ایک بوڑھی عورت پر پڑی ۔اس کے سر کے بال تقریباً سفید تھے ۔وہ ہانپتی ہوئی اپنے بوڑھے کمزور ہاتھوں میں ایک بیگ اٹھائے پلیٹ فارم کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھارہی تھی۔نیک محمد سے رہا نہیں گیا ۔اس نے جھٹ سے بوڑھی کو کہا
’’ماں جی!۔۔ ادھر دیجیے یہ اپنا بیگ میں اٹھائوں گا‘‘
بوڑھی نے کہا’’نہیں بیٹا ۔۔میں خود ہی اٹھا لوں گی‘‘
نیک محمد کے اصرار پر بوڑھی نے اسے اپنا بیگ تھمایا۔کچھ ہی وقت کے بعد وہ تینوں اس کے ساتھ پلیٹ فارم پر پہنچے ۔ٹرین آنے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا ۔وہ پلیٹ فارم پر ہی ایک طرف لوہے کے بینچ پہ بیٹھ گئے تو تیتر سنگھ نے نیک محمد کی طرف ہنستے ہوئے دیکھا اور کہا
’’نیک محمد !۔۔یار تجھے اس بوڑھی عورت پہ فوراً ترس آیا آخر کس بات پہ ؟کوئی تو وجہ رہی ہوگی‘‘
نیک محمد نے جواب دیا ۔
’’یار ۔۔!جونہی میری نظر اس بوڑھی عورت پہ پڑی تو مجھے اس کی شکل وصورت میں اپنی ماں نظر آنے لگی۔میری ماں اس دنیا میں نہیں ہے ۔میری ماں کو گزرے ہوئے چار سال کچھ ماہ ہوچکے ہیں۔مجھ سے رہا نہیں گیا فوراً اس کی مدد کے لیے میرے ہاتھ اس کے بیگ کی طرف بڑھے اور پھر ماں کا پیار اور اس کا مقام ومرتبہ کیا ہوتا ہے وہ تم دونوں مجھ سے بہتر جانتے ہو‘‘
بھگوان داس نے نیک محمد کے بیان کی تائیدکرتے ہوئے کہا
’’میرے دوست تُو صحیح کہہ رہا ہے ۔ماں تو اس چھتنار درخت کی مانند ہوتی ہے جس کی چھاوں میں اس کی اولاد کو ٹھنڈک اور شاد مانی کا احساس ہوتا ہے ‘‘
تیتر سنگھ نے کہا ’’کسی نے صحیح کہا ہے’ ماں واں ٹھنڈیاں چھاں واں نیں‘
ابھی یہ تینوں دوست لفظ ’’ماں‘‘کی تعریف وتوصیف کرہی رہے تھے کہ ان کے کانوں میں ٹرین کے آنے کا اعلان گونج اٹھا
’’کرپیا دھیان دیجیے!۔۔جیوتی پورم سے آنے والی اور نئی دہلی کو جانے والی راجدھانی ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر ایک پر آرہی ہے ‘‘
وہ تینوں چوکنّے ہوگئے ،لوہے کے بینچ پر سے اٹھ کھڑے ہوئے اور خراماں خراماں چلنے لگے ۔بوڑھے ،جوان ،بچّے ،مرد عورتیں ٹرین پہ سوار ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ٹرین زور دار سیٹی بجاتی ہوئی پلیٹ فارم نمبر ایک پہ آکے آہستہ آہستہ رُک گئی۔چڑھتے اُترتے مسافروں کی بھگدڑ شروع ہوگئی ۔بھگوان داس نے اپنے ساتھیوں کو کہا
’’ایس سات دیکھیے ۔اس میں بیٹھنا ہے ‘‘
تینوں ایس سات میں بڑی مشکل سے داخل ہوگئے۔سامان سفر سیٹوں کے نیچے رکھا اور بیٹھ گئے ۔انھوں نے اطمینان کی سانس لی ۔سیٹیں ایک ساتھ تھیں ۔نیک محمد کی سیٹ کھڑکی کی جانب تھی ۔اس نے باہر کی طرف دیکھا ۔ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارموں پہ مسافروں کی کافی بھیڑ تھی ۔اس نے کہا
’’میرے دوستو!۔۔۔کسی نے صحیح کہا ہے کہ آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے ۔آتے جاتے رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے ‘‘
بھگوان داس نے کہا
’’یار ! آدھی عمر تو آدمی کی سفر ہی میں بیت جاتی ہے‘‘
تیتر سنگھ بولا ’’میں بھی کبھی کبھی اس دنیا کو دیکھ کے حیران ہوجاتا ہوں اور مجھے کسی کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ’’دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی ؟ کاہے کو دنیا بنائی؟‘‘
وہ باتوں میں مشغول تھے کہ اچانک ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ چل پڑ ی ۔دیکھتے دیکھتے کچھ ہی لمحوں کے بعد ٹرین کی رفتار تیز ہوگئی ۔وہ اپنے شہر سے بہت دور آگے نکل گئے ۔ٹرین پٹری پر دوڑ رہی تھی ۔چھک چھک کی آواز انھیں یوں محسوس ہورہی تھی کہ جیسے کوئی انھیں لوری سُنارہا ہو۔کہیں بجلی کی روشنی سے جگمگاتی بستیاں ،کہیں دشت وصحرا اور کہیں کسی پُل پر سے ٹرین گزرجاتی۔نیک محمد نے اپنے ساتھیوں سے کہا
’’میری رائے ہے کھانا کھا کر سونے کی تیاری کرلیتے ہیں‘‘
’’بھگوان داس نے کہا ’’ہاں ٹھیک ہے ،کھانا کھالیتے ہیں‘‘
انھوں نے سیٹ پہ اخبار بچھایا اور اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا کھانے لگے ۔تینوں کے انداز خورد ونوش سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ سگے بھائی ہوں ۔وہ کھانا کھارہے تھے کہ اتنے میں چائے والا چائے چائے کی رٹ لگاتے ان کے قریب سے گزرنے لگا ۔انھوں نے اسے کھانا کھانے کے بعد چائے پلانے کو کہا۔چائے پینے کے بعد وہ تینوں اپنی اپنی سیٹوں پہ سوگئے۔
صبح جب ان کی آنکھیں کھلیں تو سات بج چکے تھے ۔تینوں نے باری باری ہاتھ منہ دھویا اور سیٹوں پہ بیٹھ گئے ۔دہلی پہنچنے میں ابھی دوگھنٹے باقی تھے۔ٹرین نہایت تیز رفتاری کے ساتھ اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں تھی ۔کچھ ہی وقت کے بعد اس کی رفتار دھیمی ہوگئی اور بالآخر وہ ایک شہر کے ریلوے اسٹیشن پہ رُک گئی ۔کچھ مسافر اترے اور کچھ سوار ہوئے۔نیک محمد نے اپنے ساتھیوں سے کہا
’’دوستو! یہ دنیا بھی ایک ٹرین کی مانند ہے ۔کون کہاں اور کب اُتر جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا ‘‘
اس کے دونوں ساتھیوں نے حامی بھری بولے’’ہاں تُو صحیح کہہ رہا ہے‘‘
وہ شائد دنیا کی بے ثباتی پہ کچھ اور بھی باتیں کرتے کہ اسی دوران اچانک ایک نوجوان خاتون زرق برق لباس پہنے،سولہ سنگھار کیے ،پوری زیب وزینت کے ساتھ اپنی دس سالہ بیٹی کے ہمراہ خالی سیٹ کی تلاش میں ان کے سامنے آکے کھڑ ی ہوگئی۔پرفیوم کی خوشبوسے ا ن کا دماغ معطر ہورہا تھا ۔نوجوان خاتون کے پُر کشش ماتھے پہ بندیا موتی کی طرح چمک رہی تھی۔اس کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ اور پازیب کی جھنکار سے نغمگی سی پیداہورہی تھی ۔نیک محمد سے رہا نہیں گیا ۔وہ یکدم اپنی سیٹ پر سے اُٹھ کھڑا ہوا اور نوجوان خاتون سے کہنے لگا
’’بہن جی۔۔! یہاں بیٹھیے میری سیٹ پہ ۔میں کھڑا رہوں گا‘‘
نوجوان عورت شرماتی لجاتی ہوئی بولی
’’نہیں ۔۔نہیں آپ بیٹھے رہیے۔ہم اگلے اسٹیشن پہ اُتر جائیں گے‘‘
نیک محمد نے کہا ’’بہن جی میں کہہ رہا ہوں نا آپ میری سیٹ پہ بیٹھ جایئے۔آپ کا اس بیٹی کے ساتھ کھڑا رہنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔چلیے آپ بیٹھ جایئے‘‘
نیک محمد کے اصرار پر وہ خاتون اس کی سیٹ پہ بیٹھ گئی ۔اس نے اپنی بیٹی کو بھی گود میں بٹھا لیا ۔نیک محمد نے اس کی بیٹی سے پوچھا
’’بیٹی۔۔! آپ کا کیا نام ہے؟‘‘وہ بولی
’’انکل ، میرانام سادھنا ہے‘‘
’’آپ کس کلاس میں پڑھتی ہیں؟‘‘
’’میں تھرڈ میں پڑھتی ہوں‘‘
’’آپ کے پاپا کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’وہ انجینئر ہیں‘‘
نیک محمد دیر تک اس کی بیٹی سے باتیں کرتا رہا ۔تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ٹرین کی رفتار سُست پڑگئی۔وہ خاتون اپنی بیٹی کے ساتھ نیک محمد کی سیٹ سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور اسے کہنے لگی
’’تھینک یُو برادر۔۔!ہمارا اسٹیشن آگیا ‘‘یہ کہتی ہوئی وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ٹرین سے اُتر گئی ۔ادھر بھگوان داس اور تیتر سنگھ، نیک محمد کو دیکھ کے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔بھگوان داس نے کہا
’’نیک محمد ۔۔یار! ہمیں تیری سمجھ نہیں آرہی ہے ۔تُو ہر کسی کی ماں ،بہن، بیٹی کو اپنی ماں ،بہن ،بیٹی سمجھنے لگتا ہے ۔کم از کم اجنبیت کی دیوار تو حائل رہنی چایئے۔اُدھر تجھے اُس بوڑھی عورت میں اپنی ماں کی صورت نظر آرہی تھی ۔چلو مانا یہی صحیح لیکن اس نوجوان عورت اور اس کی بیٹی میں تجھے کیا نظر آرہا تھا؟‘‘
نیک محمد نے جواب دیا
’’میرے دوستو! مجھے اس نوجوان عورت میں اپنی اکلوتی بہن کی شبیہہ نظر آرہی تھی اور اس کی بیٹی میں اپنی بیٹی آسیہ کا روپ نظر آرہا تھا ۔یار! میری سات سالہ بیٹی جب گھر میں اپنے چھوٹے چھوٹے کومل ہاتھ میری دُکھتی آنکھوں پہ رکھتی ہے تو اس کے ننّھے ہاتھوں کا لمس میں روح کی گہرائیوں میں محسوس کرنے لگتا ہوںاور بہن کا پیار مجھے ہر وقت مقّدس رشتوں کا احساس دلاتا ہے۔اس لیے میرے دوستو اور ساتھیو! میری تمہیں یہ نصیحت ہے کہ ہر کسی کی ماں ،بہن ،بیٹی کو اپنی ماں ،بہن ،بیٹی سمجھو۔جب تم کسی خوب صورت عورت کو دیکھو تو اسے بہن کہہ کر پکارواور کسی کی بیٹی کو بیٹی کہہ کر پُکارو گے تو تمہارے آسمان دل سے سیاہ بادل چھٹ جائیں گے۔مقّدس رشتوں کی عظمت کا احساس تمہاری رگ رگ میں اُتر جائے گا‘‘
بھگوان داس اور تیتر سنگھ ،نیک محمد کی واعظانہ باتیں سُن کر خاموش رہے ۔دونوں نے صرف اتنا کہا کہ یہ اچھی بات ہے۔آدھے گھنٹے کے بعد وہ تینوں نئی
دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔انھوں نے ہوٹل میں ایک کمرہ بُک کروایا ،اپنا سامان اس میں رکھا اور ناشتہ کرنے باہر چلے گئے۔ناشتہ کرنے کے بعد وہ پُرانا قلعہ دیکھنے چلے گئے۔قلعے کے صدر دروازے سے پہلے ہی انھوں نے قلعہ دیکھنے کے لیے ٹکٹیں حاصل کیں۔نیک محمد نے کہا
’’ارے ۔۔! اتنی مہنگی ٹکٹیں !‘‘
بھگوان داس نے از راہ مذاق کہا
’’یار ! یہ پُرانا قلعہ ہے ۔نیا تھوڑی ہے‘‘
تینوں ہنس پڑے۔وہ جونہی قلعے کے اندر داخل ہوئے تو بہت خوش ہوئے ۔دُور دُور تک ہرے بھرے پیڑ پودے،کیاریوں میں طرح طرح کے پھول اور دور تک سر سبز میدان ۔قلعے کی فصیل اور شاہانہ آثار دُنیا کی ناپائیداری اور انسان کے فانی ہونے کا ٹھوس ثبوت پیش کررہے تھے۔وہ جوں جوں آگے چلتے گئے تو انھیں چھوٹے بڑے درختوں کے نیچے جوان لڑکے اور لڑکیاں جوڑیوں میں دُور تک نظر آئے ۔وہ مذہب ،قانون اور اخلاقی اقدار کی پرواہ کیے بغیر پُر فریب چاہت میں ایک دوسرے کے وجود میں گُم حیا سوز حرکتیں کررہے تھے ۔بھگوان داس اور تیتر سنگھ نے نیک محمد کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا تو اس کے چہرے پر خفگی کے آثار نظر آنے لگے۔اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا
’’یارو!۔۔مجھے یہ سب کچھ دیکھ کے اپنے دل،دماغ اور آنکھوں میں سے شرم وحیا کا جنازہ نکلتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔لہذا واپس چلو‘‘
تیتر سنگھ نے کہا
’’میرے دوست! آج کل کے دور میں یہ سب کچھ چلتا ہے‘‘
بھگوان داس بولا’’چلو تھوڑی دُور آگے تک پھر واپس آجائیں گے‘‘
دُور آگے ایک جگہ برگد نُما پیڑ کے نیچے انھیں ایک ادھیڑ عمر کا مرد تقریباً اٹھارہ سال کی لڑکی کے ساتھ نازیبا حرکت کرتا نظر آیا ۔نیک محمد سے خاموش نہیں رہا گیا۔اس نے کہہ دیا
’’ارے۔۔! تیری ماں ،بہن ،بیٹی نہیں ہے کیا ؟جو تُو اس طرح کی حرکت کررہا ہے!!!‘‘
ادھیڑ عمر کے مرد نے دوسری طرف چہرہ پھیرلیا لیکن اٹھارہ سال کی لڑکی نے نیک محمد کو گھور کے دیکھا ۔اس کے شکن آلود ماتھے سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ اس پہ نیک محمد کی باتیں ناگوار گزری ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبئہ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛9419336120