وہ دونوں ایک ہی کالج میں زیرتعلیم تھے۔چونکہ ایک ہی محلے میں بھی رہتے تھے ۔اس لیے اکثراکھٹے کالج کیلئے نکلتے بھی تھے۔ ظاہرہے کبھی کبھی ایک دوسرے سے بات چیت بھی ہوتی تھی۔ یوں انکو ایک دوسرے کوسمجھنے میں بھی آسانی ہوئی۔انکے آپسی تعلقات آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے دوستی تک پہونچ کر شادی پراختتام پذیرہوئے۔
قریباً دوسال تک انکی آپس میں بہت اچھی طرح نبھتی رہی ۔مگرمحلہ کی ایک منافقہ خاتون کے انکے گھراکثرآنے جانے سے مداخلت ہونے لگی۔ یہ مداخلت انکی ازدواجی زندگی میں خلل انداز ہونے لگی، جس سے رشتوں میں کھٹاس پیداہونے لگی۔کیونکہ وہ کبھی جہیزکے متعلق بات اٹھاتی کہ بہونے جہیزمیں کیا کیا لایاتھا۔کبھی بہوکے پکائے ہوئے کھانے میں نقص نکالتی اورکبھی اسکی پڑھائی کابکھیڑاکھڑاکرتی ۔کبھی تووہ بہوکی ملازمت اوراسکی تنخواہ کامسئلہ اٹھاتی۔اورتواور وہ یہ بھی دریافت کرتی کہ بہوکب صبح جاگتی ہے ۔ناشتہ کون بناتاہے ۔بیڈٹی کس کس کوکمرے میں پہنچاتی ہے ۔
پہلے پہل توساس سسرکی ان باتوں میںکوئی دلچسپی نہ تھی ۔مگرباربارایک ہی بات کوپوچھنے اورکریدنے سے یاتوایسی باتیں اپنااثردکھاتی ہیں یاپوچھنے والے کوصاف صاف کہناپڑتاہے کہ ہمارے معاملہ میں کوئی دخل نہ دیاکرو
مگریہ بدبخت عورت ساس کی پرانی سہیلی تھی اور چغلیاں کرنا،غیبت کرنا اسکی خصلت میں شامل تھا۔
آہستہ آہستہ اس منافقہ کا پھینکا ہوا ہر تیر نشانے پر بیٹھنے لگا۔
۔ بہت برداشت کرنے کے بعدایک دن بہوبھی بول ہی پڑی کہ چاچی جی ! آپ عمررسیدہ ہیں۔اس عمرمیں کسی کے گھرکا سکون مکدّر کرناآپکے شایان شان نہیں۔ایسی حرکتوں سے آپ کواجتناب کرناچاہئے۔یہ عورت تویہ سچائی سن کروہاں سے چل دی مگراسکی ساس، بہوکی اس حرکت سے آگ بگولہ ہوگئی۔بولی! یہ میری بہت ہی پرانی ایک ہی سہیلی ہے ۔اسکوبھی تونے برداشت نہ کیا۔ اس پربہونے بڑے ادب سے کہا ! اماں ۔ان کاآنا ۔میرے سرماتھے پر۔ مگریہ ہروقت آگ لگاکرچلی جاتی ہے۔
ایسی گفتگونے سکون بھرے گھرکی دیواروںکوہلاکررکھ دیا۔اب لازماً ساس نے اپنے بیٹے کے کان بھرنا شروع کردیئے اور وہ بھی اپنی بیوی سے نالاں رہنے لگا۔
اسی اثنابہوکے ایک بیٹاپیداہوا ۔مگربیٹے کی پیدائش سے بھی گھرکاسکون واپس نہ آیا ۔کھٹاپھٹی روزبروزبڑھتی گئی۔گھرمیں توتومیں میں کاایک معمول بن گیا۔لڑائی جھگڑے شروع ہوگئے ۔ بغیرکسی معقول وجہ کے ہنگامہ شروع ہونے لگا۔ گھرکے اندرکی آوازیں اب دیوارپھاندکرسڑک پرسنائی دینے لگیں۔
آخرکارایک دن زبردست جھگڑا ہوا ۔بات کچھ بھی نہ تھی۔معمولی بات کابھتنگڑ بنایا گیا۔ بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ گئی۔ گھرمیں مایوسی اورماتم چھاگیا۔
مقامی مولوی صاحب اوردونوں فریقین کی موجودگی میں طلاق سے متعلق فیصلے لئے گئے ۔مولوی صاحب نے اپنی طرف سے صلح صفائی کی بڑی کوشش کی مگرلڑکے والوں نے ایک نہ سنی۔اورباتوں کے علاوہ بچہ کے بارے میں فیصلہ ہواکہ وہ اپنی مرضی سے کسی کے پاس رہ سکتاہے جب تک وہ نودس سال کاہوجائے۔
لڑکااب چھ سال کاہوچکاتھا اوراسکواتنی سمجھ تھی کہ گھرمیں کیاکچھ ہورہاہے ۔اورماں باپ اب علیحدہ علیحدہ رہ رہے ہیں۔
وہ کبھی باپ کے توکبھی ماں کے گھرمیں رہتا۔وہ گھرمیں بھی اورسکول میں بھی بہت پریشان رہتا۔بیٹے کاہنسناکھیلناگھٹتے گھٹتے بندہوگیا۔ اسکی باتیں خاموشی میں بدل گئیں ۔وہ کھیلناکودنا۔چھلانگیں مارنا بھول گیا۔ سکول میں بھی زیادہ ترخاموش ہی رہتا۔ایسااسکے اساتذہ نے بھی محسوس کیا۔
وہ باپ کے پاس رہتاتوماں کی یادستاتی اورماں کے پاس جاتاتوباپ کادھیان آتا۔وہ دن بہ دن کمزورہوتاگیا۔اسکوکھاناکھانے میں بھی کم ہی مزہ آتا۔ سکول سے آنے کے بعد کبھی ماں کے توکبھی باپ کے ہاں رہتا۔ رات بھرجاگتارہتا۔
ایک روز ضدکرکے ماں کے پاس چلاگیا۔باپ نے کہا۔صرف ایک گھنٹہ بعدواپس آنا۔ اب روزانہ ہی اسکے پاس جاتے ہو۔وقت پرواپس آنا۔
ڈرکے مارے ماں کے گھرسے بناکچھ کھائے پیئے واپس آیا۔ وہ تیزتیزقدموں سے جارہاتھا اور پیچھے سے ماں آوازیں لگارہی تھی۔ بیٹا!کچھ توکھاکرجائو۔نہیں ماں!۔ ابونے جلدی آنے کوکہاہے ۔وہ غصہ کریں گے۔
بچہ کے ماموں نے اسکودوڑتاہوادیکھ کرکہا۔بیٹے ٹھہرو۔میں بھی تمہارے ساتھ آتاہوں۔
ماموں ان میاں بیوی کے جھگڑوں سے پہلے ہی بہت پریشان تھا۔اس نے صلح صفائی کی بہت کوشش کی تھی مگربے سود۔
اب ماموں کوایک تجویز سوجھی۔
وہ بچے کواپنے گھرلے گیااورپھراس کوبڑے آرام سے ذہن نشین کروایا کہ وہ اگرچاہتاہے کہ اسکے والدین ایک بارپھرہنسی خوشی اکٹھے رہیں توآپ کوجومیں کہوں گااس پرعمل کرناہوگا اورجیسے میں سمجھائوں گااسی طرح کرنا۔بچے نے اثبات میں سرہلایا اوریہ تجویزسن کرخوش بھی ہوا۔
دوسرے روزماموں کوکسی سرکاری کام سے دہلی جاناتھا۔ وہ اس بچے کوبھی ساتھ لے گیا۔ پورے تین دن بچے کوسمجھاتارہا ۔برین واشنگ کرتارہا۔تب تک دونوں گھرانوں میں مانوماتم چھاگیاتھا۔ دونوں ہی گھروالے پریشان تھے کہ آخربچہ کدھرگیا۔ کس حالت میں ہوگا۔ خدانہ کرے ۔کوئی حادثہ نہ پیش آیاہو۔ یاکوئی اٹھاکرنہ لے گیاہو۔
تمام رشتہ داروں ،یاریادوستوں سے معلوم کروایا،تھانے میں رپٹ لکھوادی مگربچے کاکوئی سراغ نہ ملا۔
ماموں نے میاں بیوی کوصحیح سبق سکھانے کیلئے یہ اچھی ترکیب نکالی۔ دہلی سے واپسی تک بچہ پوری طرح ٹرینڈ ہوگیاتھا کہ کہاں رہنا ہے۔اورکب کیاکہناہے ۔اس نے بچے کواپنے گھرمیں بالکل چھپاکر رکھا۔اپنے گھروالوں کوپوری طرح اعتماد میں لے رکھاتھا۔ ہرکسی نے پوری طرح تعاون کرنے کایقین دلایاکیونکہ دونوں کاگھربسانے کایہ ہی ایک راستہ تھا۔ماموں پہلے میاں بیوی کے گھرگیا۔اسکوکھری کھوٹی سنائی کہ یہ سب تم دونوں کے باہمی جھگڑوں کانتیجہ ہے کہ بچہ گھرسے غائب ہوگیا۔ جس کاکوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔وہ نہ جانے کہاں ہوگا۔کس حال میں ہوگا۔ اللہ کرے وہ صحیح سلامت ہو۔وہ پولیس سٹیشن بھی گیاتھا۔مقامی مسجدسے بھی اعلان کروایا۔ مگرسب بے سود۔
لڑکی کے ہاں گیاتووہاں بھی مایوسی کاعالم تھا۔ا س بے چاری نے تین دنوں سے نہ کچھ کھایانہ پیاتھا۔ وہ روروکر نڈھال ہوگئی تھی۔ اسکی آنکھیں سوجھ گئی تھیں ۔ماموں نے اس سے کہا۔یہ سب تم دونوں کے جھگڑوں کانتیجہ ہے ۔بچہ نہ جانے کس حال میں ہوگا۔میں نے ہرجگہ ہررشتہ دار کے تھانہ میںبھی پتہ کیا۔کہیں سے کوئی سراغ نہ ملا۔جس نے بھی سناوہ سخت پریشان ہوا۔
جب یہ ڈرامہ اپنے عروج پرپہنچا توماموں نے بچے کوپہلے ہی پوری طرح پٹی پڑھاکر تیارکررکھاتھا۔ ماموں پھرلڑکے کے ہاں گیااوراسکوبولا۔بھئی ! اب ایک ہی راستہ ہے ۔آپ دونوں توبہ کرواپنی اپنی غلطیوں کااعتراف کرو۔صدقہ خیرات کرو۔صدق دلی سے اللہ سے معافی مانگواور دعائیں مانگوکہ بچہ خیریت سے مل جائے
ہم تم دونوں کا نکاح ثانی پڑھواکر نئی ازدواجی زندگی کاآغازکرنے کی راہ ہموار کرینگے۔ یہ سن کرلڑکے نے ہلکاساسرہلاکر تجویزقبول کرلی۔ اب یہی بات ماموں نے لڑکی کے ہاں جاکرکہی۔ وہ بھی مان گئی ۔مزیداس نے کہاکہ ماموں! آپ ہی بتائو ۔میں کہاں غلط تھی۔میراکیاقصورہے۔آپ جیساکہوگے مجھے منظورہے۔
اب ماموں نے بچے کوایک آخری بار سمجھایاکہ اگرکسی نے بھی پوچھا۔اگرمیں نے بھی پوچھاکہ کہاں تھے۔توصرف اتناہی کہناکہ کسی نے اسکونانوکے دروازے کے اندرچھوڑا اوراسے معلوم نہیں کہ وہ کون تھا۔ماموں بچے کوخوشی خوشی اپنے ساتھ لے کرلڑکے کے گھرپہونچا۔ باہردروازے سے ہی چیخ چیخ کرکہا۔مبارک ہو ! مبارک ہو! بچہ مل گیا۔ لاکھ لاکھ مبارک ہو۔ آپ کے توبہ ۔صدقہ اور استغفارکواللہ تعالیٰ نے قبول کیا۔لڑکاصحیح سلامت مل گیا۔پوراگھرخوشیوں سے جھوم اٹھا۔
سنو! خبردار ! اب بچے سے کسی قسم کے سوالات نہ کرناکیونکہ اسکے دماغ پرزبردست نفسیاتی دبائوہے ۔وقت آنے پرخودپتہ چل جائے گا۔
ماموں اب دوڑکر بیٹی کے گھرگیا۔ وہ یہ خوشخبری سن کرپاگل ہوگئی۔ ننگے سر ننگے پائوں اپنے پرانے گھرکودوڑتی ہوئی آئی۔
میاں بیوی دونوں ہی بیٹے کوگلے لگانے کیلئے ایک دوسرے سے چھیناجھپٹی کرنے لگے۔مگرلڑکے نے ماموں کوکہاوہ تب تک کسی سے گلے نہیں ملے گاجب تک کہ نہ میرے ماں باپ اس بات کایقین نہیں دلاتے کہ اب وہ دوبارہ آپس میں جھگڑانہیں کریں گے۔
اسی اثنا مولوی صاحب کوفوراً بلایاگیا ۔اس نے سبھوں کے کہنے اوررضامندی سے دوبارہ نکاح ثانی پڑھایا۔اس طرح ماموں کی ذہانت اورترکیب نے خوشگواررنگ لایا۔گھرمیں ایک بارپھرخوشیاں اورسکو ن لوٹ آیا۔
اب دونوں میاں بیوی نے اکٹھے اپنے بیٹے کوگلے لگایا اوراللہ تعالیٰ کاشکراداکیا۔دونوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے۔
یہ محبت کے آنسوہیں۔انہیں آنکھوں میں رہنے دو۔
رابطہ؛جموں،موبائل نمبر؛8825051001