سرینگر//سال2018کے دوران جہاں ہر سو خون آشامیاں جاری رہیں وہیں دوسری طرف یہ سیاسی لحاظ سے بھی کافی ہلچل اور غیر متوقع اتھل پتھل کا سال ثابت ہوا۔پی ڈی پی ۔بی جے پی کے درمیان پہلے سے کئی معاملات پر اختلافات نے بالآخر رسانہ سانحہ پر اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور چند روز کی کھینچا تانی کے بعد بالآخر دونوں پارٹیاں مخلوط سرکارکو برقرار نہ رکھ پائیں اور الگ ہوگئیں ۔اس طرح ریاست میں اڑھائی برس کی عوامی حکومت کے بعد گورنر راج نافذ ہوا۔وادی میں گولیوں کی گنگناہٹ اور آتشی دھماکوں کے ساتھ ساتھ شہریوں و عساکروں کے علاوہ پولیس اہلکاروں کے جنازوں، سیاسی جوڑ توڑ،نئے گورنر اور پولیس سربراہ کی تعیناتی،معصوم بچی کی اجتماعی آبروریزی اور قتل کی داستان،دفعہ35ائے پر یلغار کے خلاف وادی اور خطہ چناب و پیر پنچال میں مزاحمتی و مین اسٹرئم خیمے کا یک زباں ہونا، سرکار کی چھٹی کے بعد گورنر راج اور اسمبلی تحلیل کے بعدصدارتی راج،متنازعہ معامالات پر سیاسی ہلچل، عسکری محاز پر حرارت کے دوران رمضان جنگ بندی و3ڈاکٹر کمانڈروں کی ہلاکت،مزاحمتی خیمے میں تبدیلی اور ممبران اسمبلی و سیاسی لیڈروںکے آیا رام گیا رام علاوہ موسمی قہر جیسے معاملات چھائے رہیں۔ ریاست میں سیاسی ہلچل کے بیچ نشیب و فراز بھی دیکھنے کو ملے،اور آپسی سرپھٹول بھی۔بھاجپا نے غیر متوقع فیصلے کے دوران جہاں محبوبہ مفتی والی مخلوط سرکار سے ناطہ بھی توڑ دیا،وہی محبوبہ مفتی کو مستعفی ہونے کا اعلان بھی کرنا پڑا،اور اس طرح سے بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد والی سرکار اڈھائی برس بعد ہی لڑھک گئی اور ریاست میں ایک مرتبہ پھر گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ سال بھر سیاسی اتھل پتھل وادی میں جاری رہی،جس کے دوران پی ڈی پی کو سرکار کھونے کے بعد یکے بعد دیگر جھٹکے لگے اور کئی ممبران اسمبلی اس جماعت سے علیحدہ ہوئے،جن میں سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو،سابق وزیر مال بشارت بخاری،کھیل کود کے سابق وزیر عمران انصاری،ممبر اسمبلی ٹنگمرگ،محمد عباس وانی،ممبر اسمبلی جڈی بل،عابد حسین انصاری، لداخ خطے کے ممبر اسمبلی محمد باقر علی،سنیئر لیڈرپیر محمد حسین،راجہ اعجاز علی،بشیر احمد رونیال،محبوب اقبال اور دیگر لوگ پی ڈی پی سے علیحدہ ہوگئے۔ ریاست کی سیاست میں اس وقت دہلی سے لیکر سرینگر تک ہلچل پیدا ہوئی،جب سابق حریف سیاسی جماعتوں ، پی ڈی پی ،نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے مشترکہ طور پر سرکار کی تشکیل کا دعویٰ کیا،جبکہ اسی روز سجاد غنی لون نے بھی بی جے پی اور کچھ دیگر ممبران اسمبلی کی حمائت سے سرکاری بنانے کا دعویٰ کیا،جس کے بعد گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔اس واقعے میں سب سے زیادہ حیرانگی کا معاملہ یہ ہوا کہ محبوبہ مفتی نے ٹیوٹر اور سجاد غنی لون نے وٹس آپ پر سرکار بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ایوان گورنر کا فیکس بند پڑا ہیں،جس کے بعد سیاسی جماعتوں نے گورنر ہاوس کے فیکس کو جمہوریت کا قتل قرار دیا۔2018میں شمالی فرنٹ کے قیام میں بھی تیزی آگئی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس نے اس میں صف اول پر کام کرتے ہوئے کئی سیاسی لیڈروں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیا۔ کئی برسوں کے بعد امسال مزاحمتی و علاقائی سیاسی جماعتیں پہلی مرتبہ ایک معاملے پر ہم خیال نظر آئے،اور دونوں نے حکومت ہند کے خلاف دفعہ35ائے کے ساتھ کسی بھی چھیڑ چھاڑ کرنے پر محاز کھول دیا۔مزاحمتی جماعتوں اور مین اسٹرئم جماعتوں ماسوائے بھاجپا نے کھل کر دفعہ35ائے کو برقرار رکھنے کی حمائت کی، مثالی ہڑتال کے بعد عدالت میں اس کو کئی ماہ تک التواء میں رکھا گیا۔ جموں کے کھٹوعہ ضلع میں رسانہ علاقے میں ایک معصوم بچی کی عصمت ریزی اور قتل پر بھی بھاجپا کے بغیر تمام مین اسٹرئم جماعتیں ہم خیال اور ہم نظریہ تھی،جبکہ مزاحمتی جماعتوں نے بھی اس واقعے کے خلاف سخت احتجاج شروع کیا،اور بالآخر بی جے پی کے دو وزراء کو اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔بی جے پی ہی نہیں بلکہ اس وقت کے پی ڈی پی لیڈر اور سابق وزیر خزانہ کو دہلی میں ایک تجارتی کانفرنس کے دوران کشمیر پر بیان دینا مہنگا پڑا،جس کے نتیجے میں انہیں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا۔بھاجپا نے بھی سپیکرکیوندر گپتا کو نائب وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ کو سپیکر کی کرسی دی۔ سال 2018 ریاست میں سیاسی محاز پر بہت گرم تھا،جس نے پہلے کئی وزراء کو باہر کا دروازہ دکھایا اور کئی لیڈروں کی قسمت چمکا دی اور انہیں وزارت ملی۔سال2018میں10برسوں کے بعد ریاست میں گورنر این این وہرا کو بھی تبدیل کیا گیا اور انکی جگہ پہلی مرتبہ سیاست دان ایس پی ملک کو گورنر تعینات کیا گیا۔سال 2018سیاسی لحاظ سے انتہائی سرگرم ثابت ہوا